شہناز احد
چیف منسٹر صاحب آپ کی بھی کوئی بیٹی ہوگی؟
گورنر صاحب آپ کو بھی اللہ نے بیٹی دی ہوگی؟
ہائی کورٹ والوں کے بھی بیٹیاں ہوں گی اور جو سب سے بڑی کورٹ ہے اس میں انصاف کرنے والوں کے گھروں میں بھی یقینا بیٹیاں ہوں گی۔
میرا باپ تو اب نہیں ہے لیکن میں اس کی بیٹی ضرور ہوں۔ ہمارے گوٹھ میں ایک کی بیٹی سارے گوٹھ کی بیٹی ہوتی ہے۔ اس کا دکھ سارے گوٹھ کا دکھ ہوتا ہے۔
کیا حکومت کا کام یہ نہیں ہے کہ وہ گاؤں، گوٹھ، شہر میں رہنے والی ساری بیٹیوں کو اپنی سمجھے اگر وہ ہماری حفاظت نہیں کر سکتی تو ہمیں انصاف تو دے سکتی ہے اگر دے نہیں سکتی تو دلوانے میں مدد تو کر سکتی ہے۔
یہ کیسی حکومت ہے جسے یہ ہی پتا نہیں کہ اس کی حکومت میں کیا ہورہا ہے؟یہ جو ووٹ مانگنے آتے ہیں اور ہمارے ووٹ سے جیت کر ادھرُ اسمبلی میں جاتے ہیں کیا میں اور میرے بچے ان کی ذمہ داری نہیں؟ ان میں سے کسی کو فرصت نہیں کہ میری بات سنے ، میرے یتیم بچوں کے سر پے ہاتھ رکھے ، میرے شوہر کے قاتلوں کو پکڑنے میں آگے آۓ، انصاف کے لئے آواز اٹھاۓ، آپ لوگ بتاؤ انصاف کیسے ملے گا؟ قاتل دوبئ میں بیٹھا ہے اور کورٹ میں کوئ آتا نہیں۔
کیا غریب کے لئے کوئ نظام نہیں؟ کوئ انصاف نہیں؟ میں کہاں جاؤں؟ کسی کو میرے چار بچوں پر رحم نہیں آتا ؟ میں ان کو کیسے بڑا کروں گی؟ کیا کروں گی؟
مجھے کوئ شوق نہیں ہے ادھر آکے بات کرنے کا ، لوگوں سے ملنے کا، سچ بات تو یہ ہے کہ ہمیں تو بات کرنی بھی نہیں آتی، لوگوں کے کیسے کیسےنام ہیں، کوئ گورنر ہے، کوئ منسٹر ہے، کوئ جج ہے، اتنے لوگ ہیں لیکن کوئ بات نہیں کرتا، کوئ انصاف نہیں دلاتا۔
مجھے بتائیں کہاں جاؤں؟
کس سے انصاف کی بھیک مانگوں؟
میرے شوہر کا قصور صرف اتنا تھا کہ اس نے غلط بات پر آواز اٹھائ تھی -کسی کا خون نہیں کیا تھا جو ظالموں نے اس کو مار ڈالا-
یہ کیسے لوگ ہیں؟
ان کے پاس دل نہیں ہوتا؟
ان کے بچے نہیں ہوتے؟
کسی کے سر کی چادر اتارتے ہوۓ ان کا کلیجہ نہیں پھٹتا؟
آپ لوگ مشورہ دو میں کس کے پاس جاؤں؟
میں تو کبھی اپنے گوٹھ سے باہر نہیں نکلی اب ادھر ادھرُ ماری ماری پھرتی ہوں۔ ہمارا کیا قصور ہے؟ ہمیں انصاف دے دو اور بچوں کا مستقبل محفوظ کردو۔
یہ کسی فلم یا ڈرامے کے ڈائی لاگ نہیں ہیں۔
یہ ایک نوعمر لڑکی کے لہو لہان دل کی وہ آہیں ہیں جو الفاظ کی صورت میں رک رک کے اس کی لڑ کھڑاتی زبان سے نکل رہی تھیں اور آنکھوں سے برس رہی تھیں۔ ہر چند لمحے بعد وہ آواز پر قابو پانے کی کوشش کرتی تھی آنکھیں رگڑتی تھی اور اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لئے بات کو دہراتی تھی۔
یہ نوعمر لڑکی شیریں جوکھیو ہے جسے دو ماہ بائیس دن قبل ناظم جوکھیو کی بیوہ ہونے کا داغ لگا ہے۔ اپنی ساس کے ساتھ پریس کانفرنس میں نقاب میں چہرہ چھپاۓ بنا کسی جانب دیکھے ایک طرف کو گردن ڈھلکاۓ وہ بول رہی تھی اور خوب بول رہی تھی۔
اس کی ہر بات کا اختتام اس بات پر ہوتا تھا کیا میں کسی کی بیٹی نہیں ہوں؟
جس روانی سے وہ بول رہی تھی کسی کو کچھ کہنے سننے کی ہمت نہ تھی۔ اوروں کی طرح میں بھی سن رہی تھی اور آنکھوں میں آئ نمی کو بار بار صاف کرتے ہوۓ سوچ رہی تھی۔
کیا واقعی ہم اس اکیسیویں صدی کا حصہ ہیں؟
کیا ہمارے ہاں جمہوریت ہے؟
کیا ہمارے ہاں عدالتیں ہیں؟
اگر عدالتیں ہیں تو وہاں منصف ہوتے ہیں؟
اگر منصف ہوتے ہیں تو انصاف ہوتا ہے؟
اگر انصاف ہوتا ہے تویہ کیسا انصاف ہے کہ ایک نوعمر لڑکی کو بیوہ اور چار معصوم بچوں کو یتیم ہوۓ دو ماہ بائیس دن کا عرصہ گزر گیا لیکن کسی عدالت میں اس کی کوئ سنوائ نہیں۔
کہاں ہیں وہ سارے انصاف کے رکھوالے اور ٹھیکیدار جن کو محنتانہ ہی انصاف دینے اور دلوانے کا ملتا ہے؟
کیا ان کے کان نہیںکہ کوئ جوں رینگ سکے؟
کیا واقعی ان کے آنگنوں میں بیٹی نام کی کوئ چڑیا نہیں چہچہاتی ؟
کیا ان کے دل بنجر اور دماغ کیکر ہیں؟
سوچتے سوچتے اور آنکھوں کی نمی کو رگڑتے رگڑتے میرے دل میں یہ خیال بھی آیا کہ “ کہاں ہے وہ زمین آسمان کا مالک؟ جس نے انصاف کا وعدہ کیا ہے ، جو سچ اور حق کا ساتھ دینے کا درس دیتا ہے، جو مظلوموں کا ساتھی اور یتیموں بیواؤں کا رکھوالا ہے”
جو سب کی شہہ رگ سے قریب تر ہے اور بار بار کہتا ہے تم مانگو میں دوں گا۔
وہ بے نیاز ناظم جوکھیو کی بیوہ، بچوں اور ماں کی شہہ رگ کے قریب کیا کر رہا ہے؟
کیا اسے ان کی خاموش آہیں سسکیاں سنائ نہیں دیتیں؟ اسے رحم کیوں نہیں آتا؟
کیا وہ دو سو سترہ زخموں سے چورُ چورُ ناظم جوکھیو کی شہہ رگ کے قریب نہیں تھا؟ اگر تھا تو اس نے انصاف کیوں نہیں کیا؟