سید نذیر حسین شاہ
چترال میں خصوصی افراد کے مسائل انتہائی گھمبیر اور حل طلب ہیں، قومی شناختی کارڈاورمعذوری سرٹیفکیٹ کے اجراء میں سفری مشکلات اوردونوں ہاتھوں سے محروم افرادباہم معذوری کے لئے فنگرپرنٹ حاصل کرنے کامسئلہ
چترال اسپیشل پیپلز آرگنائزیشن ( سی ایس پی او )کے صدرثناء اللہ خودپولیوکی وجہ سے ایک ہاتھ اورپاوں سے معذورہیں ۔انہوں نے ڈیلی چترال نیوزنیٹ ورک سے خصوصی گفتگوکرتے ہوئے کہاکہ چترال ہر لحاظ سے پسماندہ اور بنیادی انسانی سہولیات سے محروم خطہ ہے یہاں کے خصوصی افراد بھی انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق چترال میں آٹھ سے دس ہزار کے قریب اسپیشل افراد موجود ہے مگر سفری مشکلات اور لوگوں میں شعور نہ ہونے کے باعث چترال کے دور دراز کے علاقوں میں رہائش پزیر خصوصی افراد کی رجسٹریشن نہیں ہورہی ہے ۔ چترال اسپیشل پیپلز آرگنائزیشن ( سی ایس پی او ) نام سے خصوصی افراد کی ایک تنظیم موجود ہے جس کے ساتھ کل ملا کے تقربیا 4000 کے قریب خصوصی افراد رجسٹرڈ ہے ۔جوگزشتہ کئی سالوں سے چترال کے افرادباہم معذوری کے اندراج اور ان کے مسائل کو اجاگر کرنے کے حوالے سے مصروف عمل ہے۔اب تک مخیرحضرات کی تعاون سے انہوں نے 20 خصوصی افراد کو وئیل چئیر،7سیلائی مشینیں،400 کے قریب خاندانوں میں راش پیکج اور22خصوصی افراد 1لاکھ 50ہزارروپے نقد تقسیم کئے گئے ہیں
ثناء اللہ نے کہاکہ خصوصی افراد کو آزادانہ نقل و حرکت میں کئی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ رکاوٹوں کے باعث خصوصی افراد بہت سےسماجی اور ثقافتی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے پاتے ۔اسپیشل افراد بالخصوص وئیل چیئراستعمال کرنے والے افراد کو سڑکوں پہ چلنا پھیرنا اور مختلف دفاتر میں جانا انتہائی مشکل ہے کیونکہ چترال کے سرکای اورغیرسرکاری اداروں کے بلڈننگز میں ریمپس کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے وئیل چیئرمیں اسپیشل افرادنہیں جاسکتے ہیں ۔خصوصی افرادجب کسی دفترجاتے ہیں تواس متعلقہ افسرتک رسائی میں ہماری معذوری بڑی رکاوٹ بنتی ہے۔ بازاروں اورپبلک مقامات پراُن کے لئے مخصوص ٹائلٹ اورانتظارگاہ نہیں ہے ۔ہسپتال اوردیگردفاتر میں واش روم اور داخلی دروازے معذور افراد کے گزرنے کے لیے قابل رسائی بنانے کی اشدضرورت ہے۔ ان بنیادی ضروریات کی غیر موجودگی سے سپیشل افراد غیر فعال ہوجاتے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ چترال کے علاوہ ملاکنڈڈویژن کے دوسرے اضلاع میں محکمہ ذکوۃ،سوشل ویلفیئراورغیرسرکاری اداروں کی طرف سے ویل چیئراوردیگر اشیاء ضرورت خصوصی افراد میں تقسیم ہوتی ہیں۔ مگرچترال کوہمیشہ نظراندازکیاجاتاہے حکومتی تعاون اورآگاہی پروگرامات نہ ہونے کی وجہ سے چترال کے افرادباہم معذوری احساس کمتری کاشکارہیں ۔یہاں کے خصوصی افرادکے لئے سپورٹس فیسٹول ،آگاہی پروگرامات ،تقریری مقابلےاوردیگرتقربیات کاانعقاد کیاجائے تاکہ یہ لوگ احساس کمتری سے نکل کرمعاشرے میں ایک مفیدشہری کی حیثیت سے زندگی گزارسکیں۔حکومت وقت کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے ہر ایک شہری کی بنیادی ضروریات کا خیال رکھتے ہوئے انہیں سہولتیں فراہم کریں بالخصوص اسپیشل افراد خصوصی توجہ کے مستحق ہوتے ہیں مگر ہمارے ہاں سرکار ہو یا پھر ادارے کہیں بھی خصوصی افراد کی جانب توجہ نہیں دیاجاتاہے ۔ ثناء اللہ کادعویٰ ہے کہ پچھلے سال محکمہ زکوۃ کی طرف سے چترال میں کروڑوں روپے کے چیک تقسیم کئے گئے ۔مگرخصوصی افرادکواس سے محروم رکھاگیا چترال کے مختلف یونین کونسل میں دو تین سوکے قریب ایسے خصوصی افرادہیں جودیگرخصوصی افرادکی نمائندگی کرتے ہیں ۔انہوں نے بھی محکمہ زکوۃ کے اس چیک تقسیم سے لاتعلقی کااظہارکرتے ہوئے کہاکہ ہمارے علاقوں میں بھی اسیپشل افرادکونظراندازکیاگیاہے۔ اورمحکمہ زکوۃ کے ایک ذمہ دارافیسرکاکہناہے کہ چترال میں مالی سال 2020 اور2021میں4کرڑو 56ہزارروپے بیوہ ،غریب،یتیم اوردوسرے حقدار3338افرادمیں تقسیم کئے ہیں۔ فی کس 12ہزارروپے کی حساب سے۔
سرکاری اداروں میں خصوصی افراد کے لئے کوٹہ سسٹم موجود ہے۔ قانون کے مطابق سرکاری ملازمتوں میں بھرتیوں میں 1اعشاریہ 87 فیصدحصہ خصوصی افراد کے لئے مختص ہے۔ اس حوالے سے ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ سرکاری ادارے چترال میں یہی کوٹہ بھی ہمیں دینے کو تیار نہیں، اگر حکومت کے اعلان کردہ ہدایت کے مطابق خصوصی افرادکےلئے دوفیصدکوٹے میں اگرصحیح طریقے سے بھرتی کی جائے توکافی لوگ برسرروزگارہوجائیں گے ،مگربھرتیوں میں خصوصی افراد کونظرانداز کیاجاتاہے ۔جس کی زندہ مثال 2019 میں محکمہ ہیلتھ چترال میں 84اسامیاں خالی تھی جوکوٹے کے مطابق 1اعشاریہ 87 فیصدحصہ خصوصی افرادکا حق بنتاتھا ۔لیکن بدقسمتی سے ہمیں مکمل نظراندازکیاگیا۔ اور کسی ایک بھی خصوصی فرد کو ان ملازمتوں میں موقع نہیں دیا گیا ۔
ثناء اللہ نے کہاکہ افرادباہم معذوری کا سب سے بڑا مسئلہ ان کا شناختی کارڈ بنواتے وقت پیش آتا ہے۔دور دراز علاقوں سے خصوصی افراد کو شہروں میں لے آنا اور ان کا شناختی کارڈ بنوانا مشکل بلکہ ناممکن ہے جس کے باعث خصوصی افراد بہت ساری سہولیات سے محروم رہتے ہیں جبکہ بعض افراد کے بازو یا انگلیاں نہیں ہوتی ان کا بھی شناختی کارڈ نہیں بنتا ۔اس سلسلے میں چترال اسپیشل پیپلز ارگنائزیشن کے صدر کا کہنا ہے چترال میں 30 سے زیادہ اسپیشل افراددونوں ہاتھوں اوربازوں سے محروم ہیں ۔ان کی فنگرپرنٹ نہ ہونے کی وجہ سے نادراان کے نام شناختی کارڈ جاری نہیں کررہاہے ۔شناخی کارڈ نہ ہونے کے باعث وہ تمام امدادسے محروم رہتے ہیں۔حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ایسے خصوصی افرادکے پاوں کے انگلیوں یادوسرے جسمانی شناخت سے فنگرپرنٹ لیاجائے ۔
انہوں نے مزیدکہاکہ خصوصی افراد کے لئے سرٹیفکیٹ بنوانا بھی انتہائی مشکل ہے ، کیونکہ خصوصی افراد کا دور دراز سے سفر کرکے چترال شہر آنا ممکن نہیں ہوتا ۔ حکومت وقت اور ضلعی انتظامیہ نیز منتخب ممبران سے مطالبہ کیا ہے کہ خصوصی افراد کے سرٹیفکیٹس/ خصوصی کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ کے اجراء کے لیے ون ونڈو آپریشن کیمپ چترال کے مختلف علاقوں میں منعقدکیاجائے تاکہ یہ خصوصی افراد اپنے قریبی کیمپوں سے معذوری کے سرٹیفکیٹ اور خصوصی قومی شناختی کارڈز آسانی سے حاصل کرسکیں۔
اسپیشل پیپلزآرگنائزیشن کے فنانس سیکرٹری شفیق افضل ایک ہاتھ سے محروم اورممبرگل حمیدخان پولیوکی وجہ سے ایک پاوں سے معذور اورثناء اللہ نے حکومت سے مطالبہ کرتے ہوئے کہاکہ جوبھی سیاسی عمل میں افرادباہم معذری میں اایک حصہ بنایاجائے اورمنتخب ایوان میں اسپیشل افراد کو نمائندگی نہیں دی جاتی اس وقت تک ان کی مشکلات میں کمی آنے کی کوئی امید نہیں کیونکہ عام لوگ ان کے مشکلات کو سمجھتے نہیں جبکہ پالیسی بنانے والی جگہوں میں ان کی کوئی نمائندگی نہیں۔ ایک سروسے کے مطابق پاکستان میں تقریبا ایک کروڑ ستاون لاکھ معذور افراد ہیں جن میں مردو خواتین شامل ہیں ۔ جو کہ مجموعی آبادی کا پندرہ فیصد ہیں ۔ اُن کی کوئی نمائندگی قومی اور صوبائی اسمبلی اور ضلعی سطح پر نہیں ۔ جبکہ دس فیصد اقلیتوں کو تمام حقوق حاصل ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت قومی و صوبائی اسمبلیوں اور بلدیاتی نمایندگی میں اُن کیلئے سیٹ مختص کریں ۔ تاکہ وہ سپیشل افراد کی صحیح معنوں میں خدمت کر سکیں۔
اسپیشل افراد کو میڈیکل سرٹیفکیٹ دینے کے حوالے سے ڈپٹی میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈسٹرکٹ ہیڈکواٹرہسپتال چترال ڈاکٹرشیدااحمد نے ڈیلی چترال سے گفتگوکرتے ہوئے کہاکہ خصوصی افراد کی رجسٹریشن اور معذوری کے سرٹیفکیٹس کے اجراء کیلئے ڈی ایچ کیوہسپتال چترال میں ایک سال سے بورڈ کا قیام عمل میں لایا گیاہے ۔سوشل ویلفیئر افیسر معذوری کی قسم کا جائزہ لینے کے لئے معذور فرد کو دی گئی تاریخ پر میڈیکل بورڈکے سامنے پیش کیاجاتا ہے جہاں متعلقہ بیماری کامیڈیکل اسپیشلسٹ طبی معائنہ کرکے معذوری کی نشاندہی کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ چترال میں ہرماہ دودفعہ خصوصی افراد کامیڈیکل چیک اپ کیاجاتا ہے مہینے میں 80سے 90خصوصی افرادکومعذوری کاسرٹیفکیٹس دیاجارہاہے۔ابھی ڈسٹرکٹ ہیڈکواٹرہسپتال چترال نے کل 3719خصوصی افرادکی میڈیکل نشاندہی کےبعد معذوری کی سرٹیفکیٹ دی گئی ہے اور اس سرٹیفیکٹ بالکل فری دی جاتی ہے ۔
ڈسٹرکٹ سوشل ویلفیئرافیسر چترال نصرت جبین نے بتایا کہ اپراورلوئرچترال میں اب تک ہمارے پاس کل 3719خصوصی افرادکے رجسٹریشن ہوچکی ہے اورشناختی کارڈ بھی سلسلہ واربنایاجارہاہے ۔ خصوصی افراد کو درپیش مسائل کو کم کرنے نوکریاں، امداد اور معاون آلات کے حصول کے لئے حکومت پاکستان معذروی سرٹیفکیٹ کولازمی قراردیاہے ۔معذوری کا سرٹیفکیٹ حکومت پاکستان کی طرف سے جاری کردہ دستاویز ہے جو معذوری کی قسم اور حد کی تصدیق کرتا ہے۔ یہ سرٹیفکیٹ متاثرہ افراد کے لئے ایک لازمی دستاویز ہے کیونکہ یہ اُن کے لئے مختلف فوائد، سہولیات اور حقوق حاصل کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افیسر محکمہ تعلیم ضلع لوئرچترال مظفرعلی خان نے کہاکہ گورنمنٹ سکولوں میں خصوصی بچوں کوبہترین تعلیم فراہم کرنے کی ہرممکن کوشش کررہے ہیں 2015سے پہلے جوبلڈننگ بنائے گئے ہیں اس وقت ریمپ اورخصوصی واش رومزبنانے کاکوئی تصورنہیں تھااور 2016 کے بعدجوبھی سکول تعمیرکئے گئے ہیں وہاں ریمپ اورخصوصی افرادکے لئے واش روم بنایاجارہاہے ۔ا س لئے پی ٹی سی کے جوفنڈزسکولوں کودیتے جاتے ہیں وہ رقم خصوصی افرادکے لئے واش روم بنانے وردیگرضرورت کے لئے استعمال کرتے ہیں اورکلاس روم میں بھی خصوصی افرادکوسب سے آگے بیٹھاتے ہیں اُن پرخصوصی توجہ دی جاتی ہے ۔
محکمہ تعمیرات کے ایک ذمہ دارافسر مہتاح الدین نے کہاکہ ہم ڈیپارنمنٹ کی طرف سے آئے ہوئے رپورٹ کے مطابق عمارت تعمیرکرتے ہیں اگرمتعلقہ ڈیپارنمنٹ اپنے رپورٹ میں خصوصی افرادکے لئے ریمپس اورخصوصی واش روم کاذکر کریں محکمہ تعمیرات یقین طورپراسی ہدایت کے مطابق پی سی ون بنائے گا۔
معروف قانون دان شمس السلام اورنابیگ ایڈوکیٹ نے کہاکہ حکومت قومی و صوبائی اسمبلیوں اور بلدیات میں خصوصی افرادکو نمائندگی دینے کی اشد ضرورت ہے ۔ تاکہ وہ خصوصی افراد کی صحیح معنوں میں خدمت کر سکیں۔انہوں نے کہاکہ افرادباہم معذوری کودرپیش روکاٹوں کودورکرنے کے لئے اُن کی نمائندگی بہت ضروری ہے ۔صوبائی حکومت خیبرپختونخوا آنے والے بلدیاتی انتخابات میں خصوصی افرادکے لئے سیٹ مختص کرناتھا جووقت کی اہم ضرورت ہے
ایس آر ایس پی کے ڈسٹرکٹ پروگرام منیجر طارق احمد نے کہا کہ سرحدرول سپورٹ پروگرام کے غربت مکاؤ پراجیکٹ پی پی آرکے تحت تحصیل دروش میں بارہ خصوصی افرادکوخودروزگاری کامواقع فراہم کئے گئے ہیں جودوسروں کادست نگربن کررہنےکی بجائے خود کمانے کے قابل بن گئے ہیں ۔ خصوصی افراد کے استعدادکارکوبڑھانے کے ساتھ ان کومطلوبہ وسائل بھی فراہم کی گئی ہے۔اوراُن کی ذہنی رحجان کے مطابق ہنرمندی کاکورس مکمل کر نے کےبعد45ہزارروپے کامطلوبہ سامان فراہم کیاہے اب وہ باعزت روزگار کما کر معاشرے میں ایک مفیدشہری کی حیثیت سے زندگی بسرکررہے ہیں جن میں دروش میں اسپیشل پرسن وقاراحمدکی جنرل اسٹوراورشیشی کوہ کے رہائشی فضل نادرکا سیلائی سنٹر ہے جوانتہائی کامیاب سے چل رہے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ سپیشل پیپلزآرگنائزیشن کے مطالبے پرایس آرایس پی نے تحصیل ہیڈکواٹر ہسپتال دروش،ہایئرسیکنڈری سکول دروش،گورنمنٹ ہائی سکول شاگرام تورکھو،ہائی سکول موری لشٹ میں اسپیشل افرادکے لئے ریمپ،خصوصی باتھ رومزبنائے ہیں تاکہ وئیل چیئرکے ساتھ آنے والے خصوصی افرادآسانی سے کلاس روم جاسکیں اور اپناچیک اپ کرواسکیں۔اس طرح ایس آرایس پی نے خصوصی افرادکے لئے چترال میں اسپورٹس فیسٹول کاانعقاد کیا اورچترال سے باہرسوات اورپشاورمیں مختلف فیسٹول کے لئے جاتے وقت مالی تعاون کیاگیاہے ۔گذشتہ دوسالوں سے کوروناوائرس کے وباء کی وجہ سے ہمارے تمام پراجیکٹ متاثرہوچکے ہیں ۔اگران پراجیکٹ پردوبارہ کام شروع کیاگیاتوخصوصی افراد کے ساتھ ترجیحی بنیادوں پرتعاون کیاجائے گا۔
معروف عالم دین مولانااسرارالدین الہلال نے کہاکہ اسلام نے معذور افراد کی عزت و تکریم اور ان کا خیال رکھنے کا خصوصی طور پر حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے ذریعے امت کو یہ تعلیم دی کہ معذور افراد دیگر معاشرے کی نسبت زیادہ توجہ کے مستحق ہیں
پیدائش سے ہی جسمانی معذوری کاشکارنامور سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ کا شمار بھی ایسے ہی افراد میں ہوتا تھا جو جسمانی لحاظ سے مکمل طو ر پر معذور تھے مگر ریاست نے انہیں وہ سہولتیں فراہم کی کہ انہوں نے زندگی بھر سائنسی ایجادات کرتے اور کتابین لکھتے رہے ۔ ہمیں ضرورت یہ ہے کہ ہم اپنے خصوصی افرادکےاگر اسٹیفن ہاکنگ ہمارے معاشرے میں ہوتے تو کسمپرسی کی زندگی گزارنے کے بعد اس دار فانی کو چھوڑ جاتے ۔ ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ جس گھر میں کوئی خصوصی بچہ یا بچی پیدا ہوجائے تو والدین انہیں اپنے کسی گناہ یا ناشکری کی سزا سمجھتے ہیں اور بہت سارے لوگ ایسے بچوں یا بچیوں کو گھروں سے باہر نکالنے کو بھی باعث شرم سمجھتے ہیں حالانکہ جسمانی یا ذہنی معذوری کی وجہ جینیاتی مسائل یا بیماریاں، پولیو وغیرہ کے حملے یا پھر حادثات ہوتے ہیں ۔