عزیز علی داد
چونکہ ہمارا مزاج بنیادی طور مپر بہت متلون مزاج واقع ہوا ہے اس لیے ہمارے سوچنے کا انداز بھی ایسا ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا ذہن کسی ایک چیز پر اپنی سوچ اور فکر مرتکز نہیں کر پاتا۔ نتیجے میں ہمارے ذہن کے اندر کچھ نہیں ہوتا جس کے ذریعے وہ باہر کی معروضی دنیا کو سمجھ سکے۔ ہمارے ذہن کا مزاج اب ایسا بن گیا ہے کہ اس کو جہاں سے اپنی خوراک حاصل کرنی چاہیۓ، وہ اس کے علاوہ ہر دوسرے ذرائع سے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ نتیجے کے طور پر ہمارا ذہن باہر کی دنیا کے متعلق نہ فہم پیدا کرسکا ہے اور ہی نہ زمان و مکان سے ہم آہنگ ہے۔ نتیجے کے طور پر ہماری شخصیت اور افکار میں ایک ایسا گہرا خلا پیدا ہوا ہے جو ابھی خود ہمیں ہی نگل رہا ہے۔ یہی سماجی/ثقافتی ذہنیت ہمارے علم کے حصول میں مانع ہوتا ہے۔ ہم ویسے بھی علم کی بجائے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اگرچہ ہم ایم اے یا پی ایچ ڈی کر لیتے ہیں مگر علم ہماری ذات کے اندر سرائیت کرکے ہماری شخصیت کا حصہ نہیں بنتا ہے۔ یوں یہاں بھی ہم دوسرے معاملات کی طرح شخصی دوئی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ۔ایسا لگتاہے ہم عقلی طور پرکائناتی درماندگی کا شکار ہیں۔
ہمارے اس متلون مزاج اور درماندہ ذہن کو کچھ مثالوں سے واضع کرتے ہیں۔ کچھ عرصے پہلے میں نے ادیب اور مفکر کے درمیان فرق کو واضع کرنے کیلئے لکھا تھا کہ ادیب ادب تخلیق کرتا ہے اور مفکر افکار پیدا کرتا ہے۔ ادب کے ضمرے میں ڈرامہ، ناول، افسانے، شاعری، رپوتاژ وغیرہ آتے ہیں۔ افکار کی دنیا میں وہ علوم شامل ہیں جو آئیڈیاز پیدا کرتے ہیں۔مثال کے طور پر میں نے فلسفے کو پیش کیا۔ یہ تفریق اس لیے قائم کی گئی ہے کے علمیات کے بنیادیں اور اس سے پیدا شدہ علم کے اپنے خدوخال اور اس سے پیدا کردا ڈسکورس واضع ہو۔مگر یہ ادیب حضرات اورادب سے محبت کرنے والوں کی نازک طبعیت کو بہت گراں گزری۔اس لئے میرے رویے کو ادب دشمن قرار دیا گیا۔حلانکہ میں خود ادب کا طالب علم رہا ہوں۔ کچھ لوگوں نے سوال کیا کہ کیا شیکسپپئر، غالب، فیض وغیرہ فلسفی نہیں ہیں؟ میں نے کہا ہر شاعری بشمول متذکرہ لوگوں کی شاعری میں دانش موجود ہے،مگر یہ لوگ فلسفی نہیں ہیں۔ ہم شیکپیئرکو جان لاک یا ڈیوڈ ہیوم کو برابر کھڑا نہیں کرسکتے۔ اگر شیکسپئر کی تحریر فلسفی ہونے کا پیمانہ ہے تو لاک اور ہیوم دونوں فلسفی نہیں رہتے کیونکہ انھوں نے شیکسپیئر کی طرح نہ سوچا ہے اور نی اتنی خوبصورت تحریر میں اپنا فلسفہ بیان کر سکے۔اس فرق کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اول الذکر تخیل کی دنیا سے کچھ تخلیق کررہا تھا، جبکہ آخرالزکر علمیات اور فلسفے کے بنیادی سوالوں اور دوسرے چیزوں پہ غور اور فکر رہے تھے، اور انتہائی خشک تحریر میں اپنی سوچ کو بیان کررہے تھے۔
ہمارے ساتھ بدقسمتی یہ ہے کہ ہم کسی بھی چیز کو اس کی اصلی مسکن کے علاوہ ہر جگہ تلاش کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہم فلسفی کو فلسفے کی کتابوں کی بجائے شاعری میں تلاش کرتے ہیں۔خدا کو مذہبی کتابوں اور مذہب کے متعلق کی گئی جدید ریسرچ میں نہیں بلکہ فزکس، بیالوجی، کیمسٹری،طب اور دیگر سائنسی ایجادات میں ڈھونڈتے ہیں۔ نتیجے کے طور پر ہمارے معاشرےسے ایسی تھیوریاں نکل کرسامنے آرہی ہیں کہ ہم دنیا کے سامنے مذاق بن جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم چاند پر اترنے کے واقعے اور ایٹم بم کی ایجاد کی وضاحت طبعیات کی بجائے مذہبی کتابوں سے کرنے لگتے ہیں۔ مذہب کو ہم جتنا بھاڈ رہے ہیں اتنا کوئی لامذہب نہیں کرتا ہے۔مذہب کو بچانے کا واحد ذریعہ مذہبی لوگوں سے محفوظ رکھنا ہے۔بالکل اسی طرح ہم اپنی سماجی،سیاسی، معاشی، نفسیاتی اور دیگر مسائل کا حل شاعری میں ڈھونڈتے ہیں۔ مغرب میں ریاست اور مذہب کی تقسیم ہر بحث صدیوں پر محیط ہے اور اس موضوع پر فلسفیانہ طور پر بہت گہرائی اور گیرائی سے لکھا گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں اس موضوع پر علم کا اچھا خاصا ذخیرہ ملتا ہے۔ہمارے یہاں اس موضوع پر بات شروع ہونے سے پہلے ہی ایک شعر”جدا ہو دیں سیاست سے تو رھ جاتی ہے چنگیزی”سنا کر جواب حاصل کرکے بحث سمیٹاجاتا ہے۔اسی لیے تو ہم انسانی و سماجی علوم کے کسی بھی شعبے میں علم پیدا کرنے کی بجاۓ علم کا گمان زیادہ پیدا کررہے ہیں۔
ایک مقامی یونیورسٹی میں پبلک لیکچر کےاختتام پر ایک طالب علم میرے پاس آئے اور کہنے لگے انھیں فلسفے پڑھنے کا بہت شوق ہے اس لئےوہ غالب، اقبال، واصف علی واصف اور دیگر بڑے شعرا کی کتابیں پڑھ رہے ہیں۔ میں نے کہا آپ مچھلی پکڑنا چاہتے ہیں مگر دریا کی طرف جانے کی بجاۓ صحرا کی طرف جا رہے ہیں۔صحرا نوردی میں کچھ نہیں ملے گا۔انھوں نے پوچھا اس کا کیا مطلب ہے؟ میں نے جوابا”کہا کہ مطلب صاف ہے۔آپ فلسفے کو فلسفے کی کتابوں کی بجاۓ باقی ہر چیز میں تلاش کر رہے ہیں۔ اسی طرح ایک صاحب ادب جنھوں نے ادب میں ایم اے کیا ہوا تھا کہنے لگا کہ میں ادیبوں کی تخلیقی صلاحیتوں اور ان کے گہرے فلسفے سے حسد کرتا ہوں، اس لیے ان کو فلسفی نہیں کہتا۔ میں نے مزید بحث کرنا مناسب نہیں سمجھا۔
ان سب مثالوں کو پیش کرنے کا مقصد یہ تھا کہ ہم کچھ بنیادی سوالوں پہ غور کریں کہ کیا وجہ ہے کہ یونیورسٹی میں فلسفے، سیاسیات یا بشریات دیگر سماجی علوم میں ادب کیوں نہیں پڑھایا جاتاہے؟ اس کے لیے الگ ڈپارٹمنٹ کیوں بنایا گیا ہے؟ ان بنیادوں سوالوں کا جواب اور علمیاتی اصولوں کی فہم نہ ہونے کی وجہ سے ہم پڑھے لکھے ہونے کے باوجود ذہنی طور پر کنفیوزڈ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم پاگل کو مجذوب، شاعر کو فلسفی، فلسفی کو پاگل، پبلک سرونٹ کو آقا، جہالت پھیلانے والے کو عالم،اسکولوں کو جلانے والوں کو طالبان اور ظلمت کو ضیا کہتے ہیں۔ اگر ہم اسی ذہنی کیفیت میں رہے تو مجھے ڈر ہے کہ ہم پچھلے ہزرایے کی طرح یہ ہزاریہ بھی جہالت کے ایسے گٹھا ٹوپ اندھیرے میں گزاریں گے جہاں پر کوئی آئیڈیا یاخواب اگ نہیں سکتا۔جہالت ایک ایسی زرخیز زمین ہے جو صرف بلائیں پیدا کرتی ہے۔ آج ہمیں جن بلاوں نے گھیرا ہوا ہے وہ ہمارے اپنے ہی ذہنیت کی تخلیق کردہ ہیں۔ ویسے بھی آپ کو معلوم ہے کہ خرد دشمن خیالات اور رویوں کے لیے ہماری پاک سر زمین کتنی زرخیز ہے۔ "ذرا نم ہو تو یہ زمیں بڑی زرخیز ہے ساقی۔۔۔”