Baam-e-Jahan

سُروں کی ملکہ: لتا جی

ذوالفقار علی زلفی


بٹوارے کے پاگل پن کا دور تھا ـ ہندی سینما بھی ہچکولے کھا رہی تھی ـ سب سے بڑا جھٹکا تب لگا جب ملکہِ ترنم نورجہان نوزائیدہ پاکستان چلی گئیں ـ ثریا، شمشاد بیگم اور ٹن ٹن نے ہر ممکن کوشش کی کہ نورجہان کی کمی محسوس نہ ہو مگر ان کی آواز کی نغمگی اور کھنک کا کوئی نعم البدل ثابت نہ ہوا ـ

نورجہان کی آواز نے ہندی سینما میں گلوکاری کے شعبے کو عرش پر پہنچا دیا تھا ـ ان کی جدائی سے سرمایہ لٹنے کو تھا ـ ایسے میں پھٹی پرانی ساڑھی میں ملبوس، ٹوٹی ہوئی چپل چھپاتی، بارش میں پیدل بھیگتی ہوئی شرمیلی مراٹھی لڑکی موسیقارِ اعظم نوشاد کے پاس پہنچی ـ لڑکی کی حالت دیکھ کر نوشاد کو اپنے دن یاد آ گئے جب وہ فٹ پاتھ پر سوتے اور خالی پیٹ کام تلاش کرتے ـ ہندی سینما کے عظیم موسیقار نے لڑکی کی آواز کو فلم "چاندنی رات” کے ذریعے فن کے پرستاروں تک پہنچایا ـ

"چاندنی رات” لڑکی کی پہلی کوشش نہیں تھی ـ وہ بچپن میں مراٹھی فلموں سے آغاز کر چکی تھی مگر بات نہ بنی ـ والد کی وفات کے بعد گھر گرہستی کی تمام ذمہ داری نازک سی لڑکی کے کاندھوں پر آ گئی ـ اب گانا شوق نہیں ضرورت بن چکی تھی ـ ضرورت نے ہندی سینما تک پہنچایا ـ موسیقار ماسٹر غلام حیدر نے فلم "مجبور” سے ان کو آگے بڑھایا ـ کام ملتا رہا مگر مقبولیت اور شہرت ….. ہنوز دلی دور است ـ

1949 کے ماہ و سال تھے ـ ہندی سینما نورجہان کی تلاش میں تھی ـ ایسے میں مدھو بالا اور اشوک کمار کو لے کر کمال امروہی نے آواگون کے ہندو تصور پر پہلی فلم "محل” پیش کی ـ کھیم چند پرکاش کی مدھر موسیقی پر آواز ابھری:

آئے گا، آئے گا، آئے گا آنے والا
آئے گا ……..

پھٹی پرانی ساڑھی میں ملبوس شرمیلی لڑکی کی آواز آل انڈیا ریڈیو کے ذریعے قریہ قریہ پہنچی ـ بے شناخت لڑکی کا نام فلم کے ٹائٹل پر موجود ہی نہ تھا ـ آل انڈیا ریڈیو کے ڈیسک پر خطوں کے انبار لگ گئے ـ سوال ایک ہی تھا؛ لڑکی کون ہے؟ ریڈیو نے یہی سوال بمبئے ٹاکیز سے کیا ـ "لتا منگیشکر” بمبئے ٹاکیز سے جواب ملا ـ شناخت کی متلاشی لڑکی کو پہچان اور ہندی سینما کو گم شدہ نورجہان مل گئی ـ

28 ستمبر 1929 ـــ لتا منگیشکر کا جنم ایک موسیقار گھرانے میں ہوا ـ ان کے والد اور استاد پنڈت دینا ناتھ شنکر جانے مانے موسیقار تھے ـ والد کی انگلی پکڑ کر انہوں نے پہلی دفعہ مراٹھی فلموں میں طبع آزمائی کی ـ قسمت کی دیوی ان پر مگر تب مہربان ہوئی جب انہوں نے کھیم چند پرکاش کی موسیقی پر حسین و جمیل مدھو بالا کو آواز دی ـ 1949 کو اس لتا کا جنم ہوا جس نے برصغیر کے فنی سرمائے میں گراں قدر اور قابلِ فخر اضافہ کیا ـ

کھنک دار آواز، سُروں پر مکمل گرفت، خوش کن نغمگی اور تازگی کا احساس؛ لتا جی کا مکمل فنی تعارف یہی ہو سکتا ہے ـ

مبارک بیگم اور گیتا دت بھی اس دور کی اہم گلوکارائیں ہیں مگر جو فن لتا جی کے پاس ہے مذکورہ دونوں فنکارائیں ان کے قریب بھی نہ پہنچ سکیں ـ لتا جی نے سینکڑوں نغموں کو اپنی سریلی آواز سے امر کردیا ہے ـ وہ ہندی سینما کی واحد گلوکارہ ہیں جنہوں نے مدھو بالا سے لے کر ایشوریہ رائے تک کو اپنی آواز دی ـ یہ اعزاز بھی تاحال انہی کے پاس ہے کہ وہ واحد گلوکارہ ہیں جنہیں "بھارت رتن” جیسے اعلی ترین اعزاز سے سرفراز کیا گیا ـ

میں موسیقی کا طالب علم کبھی بھی نہیں رہا ـ ایک عام سامع کی حیثیت سے لتا جی مجھے ہمیشہ متاثر کرتی رہی ہیں ـ شاید اس کی ایک وجہ میرے مرحوم دادا کامریڈ جمعہ بلوچ بھی ہیں جنہیں لتا کی آواز سے عشق تھا ـ میرا بچپن ایک دیوبندی مدرسے میں گزرا ہے اس لئے اس زمانے میں اساتذہ کی ہدایت پر میں موسیقی کو حرام تصور کرتا تھا ـ اسی زمانے میں ایک دن دادا جی آنکھیں بند کیے ٹیپ ریکارڈر پر کوئی گیت سن رہے تھے:

"دل کا کھلونا ہائے ٹوٹ گیا”

اسی اثنا میں اذان کی آواز گونجی ـ میں نے فوراً انہیں جھنجھوڑ کر کہا کہ اذان ہو رہی ہے ـ انہوں نے آنکھیں کھول کر سوالیہ لہجے میں پوچھا "تو؟” ـ میں نے فوراً کہا گانا بند کر دیں ـ انہوں نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور پھر نرمی سے پوچھا "سچ سچ بتاؤ ملا کی آواز اچھی ہے یا مائی لتا کی؟” ـ میں نے غور کیا اور اس غور کے بعد خاموش ہو گیا ـ یہ لتا جی سے میرا پہلا تعارف بھی تھا اور اٹوٹ تعلق بھی ـ

موسیقی سے کے اسرار و رموز پر کوئی ماہرِ فن ہی رائے دے ـ ہم جیسے عامی بس اتنا اعتراف کر سکتے ہیں جب لتا کی آواز فضا میں پھیلتی ہے تو اردگرد کی ہر چیز اس کی لے میں بہنے لگتی ہے ـ

لتا جی نے غمگین، چنچل، مزاحیہ، رومانٹک ہر قسم کے گیت گائے ـ خوب خوب گائے ـ انہوں نے لچر پن سے ہمیشہ خود کو دور رکھا شاید یہی وجہ ہے گئے وقتوں کے بزرگوں سے لے کر آج کل کے نوجوانوں تک؛ ان کے احترام میں کبھی بھی کوئی کمی نہ آئی ـ صرف محمد رفیع سے ایک فضول تنازع میں الجھنا ہی ان کی فنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی قرار دی جا سکتی ہے ـ اس کا احساس بھی تاہم انہیں جلد ہو گیاـ

لتا جی آج جسمانی طور پر چلی گئیں مگر ان کی آواز کا جادو یقیناً تا ابد برقرار رہے گاـ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے