Baam-e-Jahan

میرے گلگت بلتستان کے مظلوم و محکوم قوم کے جوانو!

سنگل دھرنا

نجف علی، رہنماء سول سوسائٹی بلتستان


یہ اکیسویں صدی ہے کتابوں، سائنس اور سوشل میڈیا نے تمام چیزیں واضح کی ہے۔ ماں کے پیٹ میں ایک مہینہ کا بچہ لڑکا ہے یا لڑکی سائنس بتادیتی ہے، ایک مہینہ بعد موسم صاف رہے گا یا بارش ہوگی ، ایک سال پہلے چاند گرہن اور سورج گرہن کے متعلق آگاہ کیا جاتاہے ، صوبہ کیا ہے ، عبوری صوبہ دنیا کے کس کس کونے میں موجود ہے۔ متنازعہ خطے کی حیثیت اور حقوق کیا ہیں یہ بھی گوگل بتادیتی ہے ، آپ کے زمینوں پر معدنیات پر جنگلات پر پہاڑوں پر کون قابض ہے یا قابض ہونا چاہتے ہیں آپ عقیدت اور محبت کے آنکھ کی بجائے کھلی آنکھ سے دیکھ لیں تو نظر بھی آئے گا۔ چھومک میدان ، گہوری میدان ، گمبہ ایئرپورٹ ایریا ، سی ایم ایچ گمبہ ایریا ، چندا ایریا ، مقپون داس ، چھلمس داس ، چلاس داس پر کون قابض ہے یا کون قبضہ کرنا چاہتے ہیں آپ خود معلومات حاصل کر سکتے ہیں ، آپ کے معدنیات کا لیز کس قسم کے لوگوں کو دیا گیا ہے اور کس کس علاقوں کے مرد و خواتین کو روڈ پر نکلنا پڑا آپ بخوبی آگاہ ہیں۔ آپ کے ملازمتوں پر آپ کے اہم عہدوں پر کون کون عیاشی کر رہے ہیں آپ روزانہ دیکھ سکتے ہیں ، گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے بیسویں گریڈ کے آفیسروں کو کس طرح دیوار سے لگایا گیا ہے آپ خود مشاہدہ کر سکتے ہیں ، گلگت بلتستان میں کتنے میڈیکل کالج یا انجینرنگ یونیورسٹی موجود ہے آپ کو علم ہوگا۔
جب خدا نے آپ کو عقل و شعور کی دولت سے نوازا ہے دو آنکھیں عطا کی ہیں، اور تمام انسانوں کو یکساں عطا کیا ہے تو آپ خود سوچنے سمجھنے اور غور فکر کرنے کی بجائے کسی سیاستدان ، مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں ، سیاسی جماعتوں کے قائدین ، مختلف مکاتب فکر کے علماء اور ملاؤں کے کہنے پر کیوں چلیں۔
آپ خود دیکھ لیں متنازعہ حیثیت کے باوجود ہمارے فیصلے کشمیر افیئرز کے کلرکوں کے پاس ہوں ، سی پیک سے حصہ نہ ملیں ، شیڈول فورتھ اور اے ٹی اے نافذ ہو ، ہمارے پی ٹی ڈی سی موٹلز وزیر امور کشمیر کے پاس ہو ، اسی فیصد بیوروکریسٹس اسلام آباد سے آئیں ، ٹیکسیشن اور رینیو بورڈ کا محکمہ قائم ہو ، این سی پی گاڑیاں ایک اے ایس پی بند کریں ، فیڈرل پبلک سروس کمیشن میں ایک فیصد کوٹہ مقرر کریں ، گندم سبسڈی کے لیے احتجاج کرنا پڑے ، ٹیکسز کا خاتمہ کے لیے گلگت تک لانگ مارچ کرنا پڑے پورے بلتستان کے عوام ملکر ایک وی سی تبدیل نہ کر سکیں ، اسمبلی میں قرارداد منظور کرنے کے باوجود کارگل روڈ نہ کھول سکیں تو عبوری کے نام پر جعلی صوبہ بننے کے بعد آپ سے تمام چیزیں چھن جائے گا اور ٹیکسز کا نفاذ قانونی شکل اختیار کرے گا ، سبسڈی کا خاتمہ ہوگا اور اسلام آباد سرکار کہیں گے اب آپ پاکستان کا حصہ اور صوبہ بنایا ہے۔
ہم بھی گلگت بلتستان کا شہری ہے ہمیں بھی گلگت بلتستان کے بہتری عزیز ہے ، اگر عبوری صوبہ بننے کے بعد گلگت بلتستان کے مسائل حل اور عوام کو فائیدہ ہے تو سو بسم اللّٰہ ہم عبوری صوبہ قبول کرنے میں پہل کریں گے۔
مگر خدا را کسی سیاستدان ، کسی وزیر ، کسی مذہبی رہنما ، کسی ملا کسی علماء کے کہنے پر نہ آپ حمایت کریں نہ مخالفت
سوچئیے پرکھئے ، مشاہدہ کریں ، معلومات حاصل کریں پھر فیصلہ کریں۔
کاپی پیسٹ اور عقیدت میں اندھی تقلید ہمارے آنے والے نسلوں کے لیے عذاب نہ ہو۔

اپنا تبصرہ بھیجیں