Baam-e-Jahan

جنگ اور جدل کے معاشرے پر اثرات، قسط 1

اشفاق احمد ایڈوکیٹ


جنگ کی عدم موجودگی کو امن کہا جاتا ہے، لیکن انسانی تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ انسانی سماج تاریخ کے ہر دور میں جنگ و جدل کی زد میں رہا البتہ ہر دور میں انسانوں کی اکثریت نے جنگ کی مخالفت کی ہے اور امن سے محبت کی ہے۔ کیونکہ جنگ و جدل میں بے شمار بے گناہ اور معصوم انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارا جاتا ہے، اس لیے دنیا بھر میں بے شمار انسان جنگ سے نفرت اور امن و سکون سے محبت کرتے ہیں، کیونکہ جنگ سے نہ صرف انسانی معاشرے تباہی سے دوچار ہوتے ہیں بلکہ غربت افلاس اور بھوک و بیماریوں کی وجہ سے ناقابل برداشت تباہی برپا ہو جاتی ہے۔
جنگ و جدل سے جہاں انسانی خون بہایا جاتا ہے اور قتل و غارت گری سے انسانی جانی و مالی نقصانات ہوتے ہیں تو دوسری طرف اکثر اوقات بڑی جنگوں کی صورت میں دنیا کے ممالک میں انقلابات بھی برپا ہوتے ہیں یا پھر بڑے بڑے ممالک زوال کا شکار ہو کر ٹوٹ پھوٹ جاتے ہیں مثلاً پہلی جنگ عظیم کے نتیجے میں زار روس کی بادشاہت میں دنیا کا سب سے بڑا سوشلسٹ انقلاب برپا ہوا اور زار روس کی بادشاہت ہمیثہ کے لیے ختم ہوئی اور اسی طرح جنگ عظیم اول کے نتیجے میں ہی سلطنت عثمانیہ کا شیرازہ بکھر گیا اور سلطنت عثمانیہ کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوا اور مصطفی کمال اتاترک نے ایک جدید قومی ریاست کی بنیاد رکھی جس سے ترکی کہا جاتا ہے.

اسی طرح دوسری جنگ عظیم کی وجہ سے دنیا میں کبھی سورج غروب نہ ہونے والی تاج برطانیہ معاشی طور پر دیوالیہ ہو گیا اور سلطنت برطانیہ کا شیرازہ بکھر گیا جس کے نتیجے میں دنیا بھر کی نوآبادیات کا خاتمہ ممکن ہوا اور بہت سارے نئے ممالک دنیا کے نقشے پر ابھر آۓ جن میں انڈیا پاکستان بھی شامل ہیں.

جنگ کی وجہ سے ہی جاپان کی بادشاہت انتہائی تباہ کن شکشت سے دوچار ہوئی جبکہ نازی جرمنی کے ایڈولف ہٹلر کا ایک ہزار سالہ عظیم جرمن سلطنت کا خواب جرمنی کی بدترین شکست کے ساتھ ٹوٹ گیا اور ہٹلر نے اس زلت سے بچنے کے لیے خودکشی کی۔ ان دو ورلڈ وارز کے نتیجے میں کئی عظیم سلطنتوں کو زوال آگیا اور ان کے ٹوٹنے سے ایک سو سے زائد نئے ممالک دنیا کے نقشے پر وجود میں آ گئے۔ اس لیے اکثر کہا جاتا ہے جنگ کے کوکھ سے تباہی یا انقلاب جنم لیتے ہیں، جسے کہ پہلی جنگ عظیم کے نتیجے میں انقلاب روس نے اور دوسری جنگ عظیم کے بعد انقلاب چین نے جنم لیا۔

جبکہ 9 / 11 کے ولڈ ٹریڈ سینٹر اور پینٹاگون میں حملے کے نتیجے میں دنیا بھر میں دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا اعلان ہوا اور دنیا جنگ وجدل کے ایک نئے دور میں داخل ہوئی۔ دنیا کے کئی ملکوں میں اندرونی خانہ جنگی شروع ہوگئی، عرب سپرنگ اور دہشت گردی کے نام پر کہی سربراہ مملکت کو کرسی سے زبردستی اتارا گیا یا مارا گیا اور مڈل ایسٹ، لاطینی امریکہ سے لے کر افعانستان تک کہی حکومت کو گرایا گیا اور لاکھوں بے گناہ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا جبکہ کروڑوں انسان اس وقت دنیا بھر میں مہاجرین بن چکے ہیں۔

جنگ وجدل میں قوموں کا یا تو عروج ہوتا ہے یا زوال یا ملک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتے ہیں یا نئے ممالک وجود میں آتے ہیں مثلاً سابق سوویت سے 1991 میں آزادی حاصل کرنے ملک یوکرائن کے دو مشرقی علاقوں
ڈونیٹسک اور ڈونمباس کو دو دن قبل روس کے صدر ولادیمیر پوٹن (جو KGB سربراہ بھی تھے)
نے یوکرائن کے ان دونوں مشرقی علاقوں کو دو ازاد ریاستیں تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا جس پر پوری دنیا کی طرف سے روس پر پابندیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا اور اس کے جواب میں آج روس نے یوکرین کے کئی اور علاقوں پر بھی حملوں کا آغاز کر دیا ہے یعنی ایک ملک یوکرائن کے بطن سے دو اور ممالک وجود میں آگئی ہیں جس طرح سابق مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش کا قیام عمل میں لایا گیا تھا.
جنگ جدل میں بڑے ممالک بھی اکثر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتے ہیں مثلاً دوسری جنگ عظیم میں تاج برطانیہ کا شیرازہ بکھر گیا اور اپنی سمندر پار کالونیوں سے ہاتھ دھونا پڑا.
جبکہ دنیا کی تاریخ میں پہلی بار امریکہ نے جاپان کے شہر ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرانے کے بعد دنیا کی واحد سپر پاور بن گئی اور آج تک دنیا کی سب سے طاقتور ترین ملک ماننا جاتا ہے.
چنانچہ یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ جنگوں کے نتیجے میں نہ صرف ملک کے ملک تباہ ہوتے ہیں بلکہ مجموعی طور پر کروڑوں بے گناہ اور معصوم انسانوں کو زندگی سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے.

بقول مشہور تاریخ دان پال کینڈی کی کتاب

The Rise and Fall of Great Powers

میں دیے گئے اعدادو شمار کے مطابق گزشتہ پانچ سو سالوں کی تاریخ میں بے شمار جنگیں لڑی گئیں لیکن پہلی اور دوسری جنگ عظیم دنیا کی سب سے خوفناک ترین اور تباہ کن جنگوں میں سرفرست ہے کیونکہ پہلی جنگ عظیم 1914 سے 1919 کے درمیان 80 لاکھ انسان براہ راست جنگ میں مارے گئے جبکہ 50 لاکھ انسان اس جنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مختلف جان لیوا موزی امراض، خشک سالی اور بھوک و افلاس سے مرگئے۔ جبکہ پہلی جنگ عظیم کے دوران 70 لاکھ انسان ہمیثہ کے لیے معذور اور ایک کروڑ پچاس لاکھ انسان معمولی اور شدید زخمی ہوئے۔ اس جنگ میں بڑی تعداد میں مردوں کی ہلاکت کے نتیجے میں لاکھوں خواتین بیوہ اور بے شمار بچے یتیم ہوئے جبکہ دنیا بھر میں غربت بے روزگاری افراتفری لاقانونیت اور جرائم نے جنم لیا۔
مایوس افراد کی ایک بڑی فوج نے جنم لیا اور دنیا بھر میں انھوں نے انقلاب اور جنگی جنون میں بطور ایندھن کام کیا مثلاً ایسے لاکھوں نوجوانوں نے جرمنی کی بدترین شکست کے بعد ایڈولف ہٹلر کی نازی پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور نازی اور فاشزم کی حمایت کی اور دنیا کو دوسری جنگ عظیم میں دھکیل دینے کا باعثِ بن گئے۔

پہلی جنگ عظیم کی تباہی کو دیکھتے ہوئے دنیا بھر کے امن پسند لوگوں نے امن کی اھمیت پر بہت زور دیا اور دنیا میں امن وامان کے قیام اور ممالک کے درمیان تمام تنازعات کا پرامن حل کے لئے امریکی صدر ووڈرو ولسن کی قیادت میں لیگ آف نیشنز کا قیام عمل میں لایا، لیکن فرانس اور برطانیہ نے اپنے قومی مفادات کے لیے لیگ آف نیشنز کو یرغمال بنایا اور امریکہ کی اس تنظیم میں عدم شمولیت کی وجہ سے اور روس اور جرمنی کو اس تنظیم میں شمولیت نہ دینے کی وجہ سے لیگ آف نیشنز کی اھمیت اور دنیا میں اس کی اثر کم ہوئی اور جب پہلی جنگ عظیم کے فاتح ممالک نے لیگ آف نیشنز کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا تو اس تنظیم پر تبصرہ کرتے ہوئے دنیا کے سب سے بڑے عظیم روسی سوشلسٹ انقلاب کے بانی ولادیمیر لینن نے لیگ آف نیشنز کو چوروں کا باورچی خانہ قرار دیا۔

اس صورتحال میں لیگ آف نیشنز جرمنی کے ایڈولف ہٹلر اور اٹلی کے مسولینی کی جارحیت کو روکنے میں ناکام ہوئی اور دنیا دوسری جنگ عظیم کا شکار ہوئی اور کروڑوں معصوم انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔

بقول پال کینڈی، 1939 سے 1945 کے درمیان 2 کروڈ پچاس لاکھ افراد براہ راست جنگ عظیم دوئم میں ہلاک ہوئے، جبکہ دنیا بھر میں غربت بھوک افلاس اور مہلک امراض سے کروڑوں انسان متاثر ہوئے۔

جاری ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں