Baam-e-Jahan

جنگ اور جدل کے معاشرے پر اثرات، قسط 2

اشفاق احمد ایڈوکیٹ


کہا جاتا ہے جنگ وجدل پاگل پن کی تمام شکلوں کے دروازے کھول دیتی ہے- جنگ انسانی حساسیت کو ختم کر کے انسانی تہذیب و تمدن کو بربریت اور وحشت کے اندھیروں میں دکھیل دینے کا باعثِ بنتی ہے اور جنگل کے دور کی یاد تازہ کرتی ہے۔

جنگ عظیم دوئم کی وجہ سے دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر بے روزگاری، لاقانونیت، بیماری، بھوک و افلاس، جسم فروشی، مایوسی، عدم رواداری، نفرت اور جرائم نے جنم لیا – دوسری جنگ عظیم نے انسانی سماج کو دوبارہ جنگل کے دور جیسے حالات سے دوچار کرنے کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر انقلابات کے دروازے بھی کھول دیے نتیجتاً پچھلی صدی تسلسل کے ساتھ انقلابات کی زد میں رہا، جن میں انقلاب روس، انقلاب چین، کیوبا اور انقلاب ایران نمایاں ہیں۔
جنگ میں نہ صرف بے گناہ انسانوں کا قتل عام کیا جاتا بعض اوقات جنگ میں شہر کے شہر تباہ کیے جاتے ہیں مثلاً دوسری عالمی جنگ عظیم میں جرمنی کے چانسلر ایڈولف ہٹلر کے نازی افواج نے روس کے مشہور شہر ماسکو اور برطانیہ کے شہر لندن کو مکمل طور پر تباہ کیا۔
اج کے جدید ایٹمی دور میں جنگ کا تصور بھی نہایت خوفناک ہے چونکہ جب دوسری عالمی جنگ میں امریکہ نے جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرا دیا تو چند منٹوں کے اندر لاکھوں بے گناہ انسان ہلاک ہوئے، ہیروشیما اور ناگاساکی نے موت کا منظر پیش کیا تھا اور اس دلخراش واقعے کے 73 سال گزرنے کے باوجود اج بھی جاپان کے ان علاقوں میں جنم لینے والے بعض بچے ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال سے پھیل جانے والی تابکاری اثرات کی وجہ سے معذور پیدا ہوتے ہیں۔

سرد جنگ 1945۔ 1991 کے دوران دو سپر طاقتوں امریکہ اور سابق USSR نے اپنے مفادات کی بنیاد پر دنیا کو سرمایہ دارانہ نظام اور اشتراکی نظام میں تقسیم کرکے دنیا کے مختلف حصوں میں پراکسی وارز شروع کیا اور دنیا کے بعض ملکوں جسے جرمنی کو ایسڑین اور ویسٹرن جرمنی میں تقسیم کر کے دیوار برلن تعمیر کیا جبکہ کوریا کے دو حصے کیے گئے جن میں آج تک تنازع چل رہا ہے اسی دوران نیٹو اور ڈبلیو ٹی او وارسا ٹریٹی کے نام سے فوجی تنظیموں کا قیام عمل میں لایا گیا اور انڑکانٹننٹل (بین البراعظمی) بلاسٹک میزائل اور سٹار وارز کی دوڈ شروع کرکے دنیا بھر میں خوف اور وحشت کو پروان چڑھایا، اور دیگر ممالک کو بھی جواز مہیا گیا گیا کہ وہ بھی ایٹمی ہتھیار حاصل کریں۔

یوں امریکہ، روس کے بعد ایٹمی ہتھیاروں کے دوڈ میں برطانیہ، فرانس، چین، انڈیا، پاکستان اور اسرائیل، اور نارتھ کوریا نے بھی ایٹمی صلاحیت حاصل کی، اس طرح ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ نے انسانیت کے مستقبل کو تباہی کے دہانے پر کھڑا کیا ہے، جو کہ باعث تشویش ہے چونکہ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ 1945 کے مقابلے میں آج کے ایٹمی ہتھیار پانچ ہزار گناہ زیادہ خطرناک بن چکے ہیں۔

لہذا اگر کسی غلط فہمی، حادثہ یا پھر کسی غیر دانشمندانہ فیصلہ یا غلطی کی صورت میں ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال ہوا تو ہماری یہ دنیا مکمل طور پر تباہ ہوسکتی ہے، ماضی میں دنیا اس طرح کی خطرناک ترین صورت حال سے بال بال بچ گئی ہے مثلاً اکتوبر 1962 کو کیوبن میزائل کرائسس کے دوران روس اور امریکہ میں ایٹمی جنگ کی خطرناک ترین صورت حال پیدا ہوئی تھی لیکن امریکہ کے صدر کینیڈی اور یو ایس ایس آر کے سربراہ خروشف کے درمیان مذاکرات نے رنگ لایا، اور ایٹمی جنگ کا خطرہ ٹل گیا لیکن اس طرح کی صورتحال مسقبل میں جنم نہ لے اس کی کوئی گرانٹی موجود نہیں ہے، کیونکہ آج قومی ریاستوں کے مفادات بھی بدل گئے ہیں۔
بدقسمتی سے آج بھی دنیا بھر میں نہ صرف ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری اور افزائش پر کروڑوں ڈالر سالانہ خرچ کیا جاتا ہے بلکہ دنیا میں ایٹمی ہتھیاروں کے حامل ملکوں کی تعداد میں بھی وقت کے ساتھ اضافہ ہوا ہے۔
آج دنیا میں ہر سال ایک سو بلین ڈالرز ایٹمی ہتھیاروں پر خرچ کیا جاتا ہے جبکہ دوسری طرف دنیا بھر میں کروڑوں انسان بھوک، افلاس اور بیماریوں میں مبتلا ہیں ’مثال کے طور پر اس وقت ساری دنیا کورونا وائرس کی زد میں آگئی ہے اب تک لاکھوں افراد اس موذی وبا کا شکار ہو چکے ہیں اور روزانہ ہزاروں افراد اس موذی وائرس کی وجہ سے مر رہے ہیں یہ الگ بات ہے کہ اس وبا سے بچنے والے افراد غربت اور انارکی اور مختلف دیگر بیماریوں سے مر سکتے ہیں۔
اور ناسمجھ لوگوں کی ایک بڑی تعداد جنگ و جدل کو ایک بہت ہی عظیم الشان اور خوبصورت شے کے طور پر پیش کرتی ہے اور سکولوں میں جنگی ہیروز کو پڑھایا جاتا ہے جبکہ امن کے بارے میں مجرمانہ خاموشی اختیار کی جاتی ہے.

اقوام متحدہ کی تنظیم کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق آج دنیا بھر میں سالانہ ساٹھ لاکھ بچے بھوک کی وجہ سے مر رہے ہیں، اور روزانہ سترہ ہزار بچے خوراک کی قلت سے مر رہے ہیں جبکہ گیارہ ملین بچے خوراک کی قلت کی وجہ سے پیدائش سے قبل ہی مر جاتے ہیں جبکہ دنیا میں ہر سال ایک سو بلین ڈالرز ایٹمی ہتھیاروں پر خرچ کیا جاتا ہے، جوکہ ایک سوالیہ نشان ہے؟
حیرت کی بات یہ ہے کہ جدید ہتیاروں کے حصول کے اس خطرناک کھیل میں دنیا کے غریب ترین ممالک بھی کسی سے پیچھے نہیں، جو ہر سال اپنی قومی آمدنی کا ایک کثیر حصہ جنگی سازو سامان کی خریداری میں استعمال کرتے ہیں، جبکہ ایسے ملکوں میں لوگوں کی اکثریت غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

مثال کے طور پر آج تیسری دنیا کے 149 میں سے 105 ممالک غذائی اجناس تک بیرونی طاقتوں ممالک سے درآمد کرنے پر مجبور ہیں اور ان ممالک میں اندرونی خانہ جنگی اور انارکی کی وجہ سے سماجی نظام درہم برہم ہو گیا ہے۔
مثلاً سوڈان میں خانہ جنگی کی وجہ سے اب تک بیس لاکھ لوگ ہلاک ہوچکے ہیں، جبکہ چالیس لاکھ لوگ بے گھر ہو گئے ہیں۔

اقوام متحدہ کی رفیوجی ایجنسی کے مطابق دنیا کے مختلف ممالک میں جاری اندرونی مسلح جھگڑوں، سیاسی تشدد اور خانہ جنگی کی وجہ سے مہاجرین اور انٹرنل ڈسپلسڑ لوگوں کی تعداد 2005 میں 24 ملین تھی جو کہ 2010 میں بڑھ کر 37 ملیین تک پہنچ گئی تھی جبکہ اقوام متحدہ کا ادارہ ہائی کمیشن برائے مہاجرین کے مطابق سال دو ہزار ستر میں دنیا میں مہاجرین کی تعداد بڑھ کر کل تعداد 65.6 ملین تک پہنچ گئی ہے، جو دنیا بھر میں مختلف تنازعات جھگڑے، قتل عام، تشدر اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں، جوکہ باعث تشویش ہے۔
تلخ حقیقت یہ ہے کہ ان جنگوں میں نہ صرف بے گناہ معصوم انسانوں کا قتل عام کیا جاتا ہے بلکہ اسکول کالج، فیکٹریاں، کارخانے ایئر پورٹس، ڈیمز، سڑکیں اور دیگر انفراسٹرکچر کے ساتھ ثقافتی ورثہ اور آثار قدیمہ کے اہم ترین تاریخی مقامات بھی تباہ کیے جاتے ہیں،
مثلاً 9 / 11 کے بعد دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کی شروعات ہوئی اور امریکہ نے اپنی فوجی اتحادی تنظیم نیٹو افواج کے ساتھ ملکر افغانستان کے طالبان حکومت پر حملہ کیا جواباً طالبان حکومت نے افغانستان میں موجود بدھا کے قدیم ترین مجسمے کو تباہ کیا، اور گزشتہ 19 سالوں تک افغانستان میں لڑی گئی اس جنگ میں بے شمار بیگناہ اور معصوم افراد ہلاک ہوئے ہیں اور وہاں کے عوام آج معاشی ابتری و افلاس کا شکار ہیں اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا ہے کہ اگر طالبان حکومت پر عالمی پابندیاں بدستور برقرار رہی تو وہاں لاکھوں بچے بھوک سے جاں بحق ہوسکتے ہیں.

یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ جنگوں میں تباہی وبربادی کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا، لیکن دنیا کے حکمران طبقے نے ابھی تک جنگ کی تباہیوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا ہے اور سالانہ کھربوں ڈالر جنگی سازو سامان اور خطرناک ترین ہتیار بنانے میں خرچ کرتے ہیں اور دنیا بھر میں تنازعات کو ہوا دے رہے ہیں تاکہ اسلحہ فروخت ہو.
گذشتہ دنوں یوکرائن اور دوس کی جنگ سے ایک نیو کولڈ وار ( نئی سرد جنگ )کا آغاز ہوا ہے۔ بلیک سی پر بحری تجارتی تسلط کی اس جنگ نے مشرقی یوکرائن کے علاقہ جات میں دو نئے ممالک کو جنم دیا ہے پتہ نہیں اب گرم پانیوں پر تسلط کی جنگ سے کیا نکل آئے گا یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن یہ طے ہے کہ گریٹ گیم کا مرکز ماضی کی طرح بدستور ایشیا ہی رہے گا چین اور امریکہ کے درمیان سرد جنگ کا آغاز تائیوان سے ہوگا یا کسی اور جگہ سے یہ عالمی حالات پر منحصر ہے .
اہم بات یہ ہے کہ اس سرد جنگ میں سب سے زیادہ نقصان تیسری دنیا یعنی ترقی پذیر ممالک کو ہو گا جو ماضی کی طرح پراکسی وار کا حصہ ہونگی اور غلط پالیسیوں کی وجہ سے وہ بدامنی اور افلاس کا شکار ہوتی ہیں. ماضی کی سرد جنگ میں جرمنی اور کوریا کے دو حصے ہوۓ تھے جبکہ ویت نام اور افغانستان میں قتل و غارت گری سے بے شمار معصوم انسانوں کا قتل عام کیا گیا اب روس نے یوکرائن پر حملہ کیا ہے اور اس وقت قتل عام کا بازار گرم کر رکھا ہے جو کہ ساری دنیا کے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے.
اس لیے وقت کا تقاضا ہے کہ دنیا کے ممالک کے درمیان تمام تنازعات کو بات چیت، مذاکرات اور ڈپلومیسی کے ذریعے پرامن بقاء باہمی کے تحت حل کیا جائے نہ کہ جنگ وجدل کے ذریعے، چونکہ تاریخ شاہد ہے کہ جنگ کے ذریعے تنازعوں کا فیصلہ غیر تسلی بخش اور عارضی ہوتا ہے، اور جنگ کا خطرہ بدستور برقرار رہتا ہے۔

لہذا آیئے ہم سب ملکر امن کے قیام کے لیے جدوجھد کریں اور اس سیارہ زمین کو جو کہ ہم سب کا گھر ہے، اسے جنگ کی تباہیوں سے بچانے میں اپنا کردار ادا کریں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں