Baam-e-Jahan

صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں

Baltit fort hunza

جاوید احمد
ایڈووکیٹ سابق وائس چیئرمین گلگت بلتستان بار کونسل


جب 2019 میں سپریم کورٹ پاکستان کے فیصلے کی روشنی عبوری آئینی صوبہ پہ وفاق و گلگت بلتستان میں عبوری آئینی صوبہ پہ مشاورت شروع ہوئی تو وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر کی قیادت میں آزاد کشمیر اسمبلی میں پہلی بار گلگت بلتستان کو آزاد کشمیر جیسا نظام دینے کی قرارداد پیش ہوئی تھی اور آج کی تاریخ میں پچھلے دنوں اسلام آباد میں ایک ریلی میں سابق وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر نے گلگت بلتستان کو عبوری آئینی صوبہ کی بجائے آزاد کشمیر طرز کا نظام دینے کا مطالبہ ایک بار پھر دھرایا دیا ۔ اس تحریر میں اس بات پر روشنی ڈالنے کی کوشش ہوگی کہ آئینی عبوری صوبہ ہی کیوں آخر آزاد کشمیر طرز کے نظام میں کیا قباحت ہے ؟؟
آزاد کشمیر کے اس وقت کے وزیراعظم راجہ فاروق حیدر خود تو اس وقت آزاد کشمیر طرز کے ناقص نظام کے بانیوں کی قبر پر خود سوٹیاں مار نا چاہتے تھے اور گلگت بلتسان کے عوام کے لئے اسی آزاد کشمیر طرز جس کو عذاب کشمیر کہتے ہیں نافذ دیکھنا چاہتے ہیں رہی بات سٹیٹ سبجکٹ رول کی تو یہ صرف اب ایک افسانوی کہانی کا گمشدہ حصہ کے طور پہ تو لیا جاسکتا ہے آزاد کشمیر میں اصل حقیقت کچھ اور نظر آتی ہے ۔ آزاد کشمیر میں حالیہ سالوں میں نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ تعمیر ہوا ہے ۔ جس میں وہ دریا جو مظفرآباد تک جاتا تھا اس کا بڑا حصہ وادی نیلم سے موڑ کر جہلم میں نکلا گیا ہے اور اس پراجیکٹ اور اس میں سینکڑوں کنال اراضیات و تعمیر شدہ کالونیوں کی ملکیت واپڈا کو دے دی گئی ہے اس ضمن میں اسٹیٹ سبجیکٹ والی حکومت آزاد کشمیر کو نہ تو پوچھا گیا اور نہ اس سے کوئی معاہدہ ہوا اور دلچسپ امر یہ ہے کہ أس وقت آزاد کشمیر نظام کا وزیراعظم موصوف راجہ فاروق حیدر صاحب ہی تھے جو اسٹیٹ سبجیکٹ کی اتنے بڑے پیمانے کی خلاف ورزی پہ اف تک نہ کرسکے ۔ جبکہ آزاد کشمیر کے وکلا اپنی جگہ احتجاج کرتے رہے۔
باقی اصولی نکتہ نظر سے دیکھا جانا چاہئے کہ کیا آزاد کشمیر نظام واقعی عبوری آئینی صوبہ سے زیادہ خود مختار اور باآختیار ہے؟ آئیے آب ذرا اس بات کا جائزہ لیتے ہیں ۔
سب سے پہلے دیکھنا ہوگا کہ کیا ریاست پاکستان سے ایک آزاد خودمختار ریاست یعنی آزاد کشمیر طرز کے نظام کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے؟

ریاست سے حقوق کا مطالبہ تو قابل فہم ہے مگر کیا ایک ریاست کے آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے دوسری خودمختار ریاست کا مطالبہ بطور حق ہوسکتا ہے؟
جی نہیں اصولاً دنیا میں آج بھی کوئی ایک بھی ایسی جمہوری ، شاہی یا مذہبی ریاست ایسی نہیں جس کا آئین و قانون اپنے کسی حصہ کو یہ اختیار دے کہ وہ جب چاہے الگ آزاد و خودمختار ریاست بن جائے۔ آزادی و خودمختاری دی نہیں جاتی لی جاتی مطالبہ کیا نہیں منوایا جاتا ہے اور اسے حقوق کی نہیں علیحدگی یا آزادی کی تحریک کہا جاتا ہے۔
اور آزاد کشمیر میں مٹھی بھر قوم پرست تو کھل کر آزاد ریاست کشمیر کو عملا و حقیتا نہ صرف ریاست پاکستان سے بلکہ ہندوستان سے بھی مقبوضہ کشمیر بشمول گلگت بلتستان آزاد کرا کر سابقہ ریاست جموں کشمیر کی صورت گریٹر کشمیر کے ایجنڈے پہ کار بند ہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ راجہ فاروق حیدر بھی مسلم لیگ ن میں شامل ہونے سے پہلے انہی میں سے ایک تھے ۔ اور آزاد کشمیر نظام کے ناقص و ڈمی ہونے کا خود ہی سب سے بڑا معترف ہونے کے باوجود فاروق حیدر کا گلگت بلتستان کے لئے بھی آزاد کشمیر نظام کا مطالبہ کرنے گلگت بلتستان کی محبت کی بجائے ریاست پاکستان سے دوری کے برقرار رکھنے کا جزبہ کارفرما نظر آتا ہے ۔
اور آزاد کشمیر نظام کا مطالبہ حقوق کا نہیں بلکہ درپردہ علیحدگی اور آزادی کے لئے راستہ کو کھلا چھوڑنے کا ہی مطالبہ ہے اور یہی نام نہاد جملہ کشمری قوم پرستوں کا اور گلگت بلتستان میں ان کے جند پیدا کردہ بغل بجوں کا بھی ایجنڈا ہے اور یہ سب اپنے درپردہ علیحدگی و آزادی کے ایجنڈے کو برقرار رکھنے اور آگے بڑھانے کے لئے آزاد کشمیر نظام کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں تاکہ یہاں کے عوام کو ریاست پاکستان کے آئین کے اندر موجود جملہ حقوق سے محروم رکھا جائے جس عوام کی محرومیاں بڑھتی رہیں اور ان کے علحیدگی کا درپردہ ایجنڈا کی راہ ہموار ہوتی رہے۔
گلگت بلتستان کے وکلا ریاست پاکستان سے ریاستی شہریوں کو حاصل حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں آزادی یا علیحدہ خودمختار ریاست کا نہیں.
آزاد کشمیر کے قوم پرست اور راجہ فاروق حیدر اگر ریاست پاکستان کے اندر مقامی خود مختاری چاہتے ہیں تو سمجھ لینا چاہیے کہ یہ انہیں آئین پاکستان دے سکتا ہے کوئی دوسرا فورم یا وفاقی حکومت نہیں . جیسا کہ ایسا آئینی نظام آرٹیکل 370 کے تحت ہندوستانی آئین نے مقبوضہ جموں و کشمیر کو دیا تھا جو کہ استصواب رائے تک کا عبوری آئینی ریاست ہی تھی۔ جس کو 5اگست 2019 کو مودی سرکار نے ختم کیا۔ یہ ایسا نظام تھا جس سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں تنازعہ کشمیر پہ استصواب رائے کے انعقاد تک مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت متاثر ہونے کی بجائے مضبوط ہوتی تھی اور اس کے ساتھ مقبوضہ کشمیر کو ہندوستان میں داخلی آئینی خودمختاری آرٹیکل 370 کے تحت ہندوستان کے دیگر صوبوں سے بڑھ ملی ہوئی تھی
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ان کو داخلی خودمختاری تھی تو مقبوضہ کشمیر والے ہندوستان سے حالت جنگ میں کیوں تھے؟
حقیقت یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام نے ہندوستان اور مہاراجہ کشمیر ہری سنگھ کے الحاق کو ایک لمحے کے لئے بھی تسلیم نہیں کیا ہے ۔ وہاں کے عوام کسی صورت ہندوستان کے ساتھ رہنا ہی نہیں چاہتے انھوں نے ہندوستان سے حقوق یا دوسرے الفاظ میں داخلی خود مختاری کبھی نہیں مانگی ان کا ابتدا یعنی 1947 سے ایک ہی مطالبہ ہے اور وہ ہے آزادی ۔۔۔ ہندوستان سے ۔۔۔۔ وہ انڈیا سے علیحدگی و آزادی مانگتے ہیں اور اسی کی جدو جہد کرہے ہیں اور اپنی جنگ آزادی لڑ رہے ہیں.
آب وقت آچکا ہے کہ فاروق حیدر صاحب سمیت آزاد کشمیر کے نام نہاد قوم پرست اور گلگت بلتستان کے مٹھی بھر اس نظام کے حامی واضح کریں وہ کیا چاہتے ہیں؟؟ …
.داخلی خود مختاری جاہتے ہیں یا آزادی…. داخلی خود مختاری مقبوضہ جموں و کشمیر طرز کےعبوری آئینی نظام سے ہی مل سکتی چونکہ ہندوستان میں سیاسی اکائیوں کو ریاست کہتے ہیں اور پاکستان میں صوبہ اسی لئے اس نظام کو پاکستان میں عبوری آئینی صوبہ ہی کہا جائے گا
کیونکہ داخلی خود مختاری یا عام الفاظ میں اپنے وسائل پہ حق حاکمیت و حق ملکیت کا واحد راستہ آئین پاکستان کے اندر سے ہی مل سکتا ہے اور اس راستے کو قانونی زبان میں عبوری آئینی صوبہ کا نام ہی دیا جاسکتا ہے کیونکہ یہ آئین ہی جو انسانی حقوق اور علاقائی حقوق نہ صرف متعین کرتا ہے بلکہ ان کے تحفظ کے آئینی ادارے اور وفاق و اکائیوں کے مابین جملہ تنازعات کے حل کا آئینی طریقہ کار بھی وضع کرتا ہے ان اداروں کو آئین پاکستان میں مشترکہ مفادات کونسل قومی مالیاتی کمیشن وغیرہ، پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ آف پاکستان کہا جاتا ہے
آزاد کشمیر نظام کے حامی آئین پاکستان میں شامل ہوئے بغیر ان انسانی و علاقائی حقوق و وسائل سے متعلق معاملات ریاست پاکستان میں کہیں اور سے کسی صورت طے نہیں کرسکتے ۔ ہاں انہیں پاکستان میں حقوق نہیں پاکستان سے علیحدگی اور آزادی چاہئے تو کھل کر سامنے آئینی حقوق کی آڑ میں علحدگی و آزادی کا ایجنڈا چلاکر حقوق کی جدوجہد کرنے والوں کو گمراہ کرنے کی کوشش نہ کریں۔ پاکستان میں حقوق لینا ہے تو انہیں آئین پاکستان کے علاوہ کوئی اور ادارہ نہیں دے سکتا ہے
اور ہاں اگر پاکستان سے علیحدگی و آزادی چاہئیے تو ہمت ہے مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کی طرح کھل کر آزادی و علحیدگی کی تحریک چلائیں اور حقیقت یہ بھی ہے ایسا آپ نہیں کرسکتے کیونکہ آپ کو پتہ ہے کہ آزاد کشمیر ہو یا گلگت بلتستان ۔۔ عوام کی واضح اکثریت پاکستان کو ہی دل و جان سے اپنا محور و مرکز اور حتمی منزل مانتی ہے اور اپ کا علحیدگی کا ایجنڈا بری طرح مسترد ہوگا اسی لئے علیحدگی و آزادی کی بات کرنے کی بجائے نام فاروق حیدر سمیت نہاد قوم پرست بھیس بدل کر حقوق کی جدوجہد کرنے والوں کی صفوں میں گھس جاتے ہیں اور حقوق کے نام سے آزاد کشمیر جیسے ڈمی آزاد ریاست والے نظام کی بات کرتے ہیں اس ڈر سے کہ کہیں حقیقت میں حقوق دینے والا عبوری آئینی نظام نافذ ہوکر حقوق کا ایشو ہمیشہ کے لئے ختم نہ ہو جائے اس کے برعکس ان کی خواہش ہے کہ حقوق سے محرومی عوام میں آزاد کشمیر جیسے ڈمی ریاستی نظام میں میں ڑھتی رہے اور یہ مایوسی آگے جاکر ریاست پاکستان سے علیحدگی و ازادی کے ان کے درپردہ ایجنڈے کی راہ ہموار کردے ۔
لیکن قابل ستائش ہے گلگت بلتستان کے عوام جنھوں نے 2020 کے جی بی کے انتخابات میں عبوری آئینی صوبے کی کھل کر مخالفت کرنے والوں کی ضمانتیں ضبط کرواکر انہیں بری طرح مسترد کیا۔
اور تاریخ ہمیشہ یاد رکھے گی موجودہ ممبران جی بی اسمبلی اور گلگت بلتستان کے وکلا جنھوں نے مٹھی بھر علحیدگی پسندوں کے ایجنڈے کو بھانپنے ہوئے داخلی خودمختاری کے لئے عبوری آئینی صوبے کا فارمولا دیا جس میں گلگت بلتستان کی تنازعہ کشمیر کے تناظر میں خصوصی حیثیت اور داخلی خود مختاری آئین پاکستان کی آئینی گارنٹی کے ساتھ یقینی بنائی گئ ہے . حقیقت میں جائزہ لیا جائے تو آزاد کشمیر طرز کا موجود نظام اور گلگت بلتسان کا موجودہ آرڈرز کا نظام ایک ہی سکہ کے دو رخ ہیں دونوں نظام ہائے وزارت امور کشمیر کے ہی پیدا کردہ ہیں ۔ جو پاکستان کے آئین و قانون سے ماورا وفاقی انتظامیہ کا ایک انتظامی حکم نامہ ہے جس سے عام طور پہ ماتحت حکومتی محکموں کو چلایا جاتا ہے ۔ یہ نظام ہائے کبھی آئینی تحفظ دینے والا داخلی خودمختاری یعنی عبوری آئینی صوبہ کے متبادل نہیں ہو سکتے۔

ہاں ایک الگ خودمختار ریاست بنانا ہے تو منافقت نہیں کھل کر مقبوضہ جموں و کشمیر کے حریت پسند بھائیوں کی طرح علحیدگی و آزادی کا نعرہ لگاو حقوق کی نہیں۔ ہمت کرو منافقت چھوڑو ۔ میدان بھی آپ کا گھوڑے بھی آپ کے.

لیکن گلگت بلتستان کی اسمبلی , عوام اور وکلا کی واضح اکثریت اور نمائندے گلگت بلتستان کو مقبوضہ جموں و کشمیر طرز کی داخلی آئینی خودمختاری دلانے کی جدوجہد کرہے ہیں اور انشاءاللہ بہت جلد یہ منزل پا لی جائیگی. اور یہ بات آزاد کشمیر کے نام نہاد قوم پرست و ان کے گلگت بلتسان کے ہمنواوں جو اچھی طرح اب سمجھ لینا چاہیے کہ گلگت بلتستان کے عوام نے مہاراجہ کے کم وبیش سو سالہ جبری قبضہ سے 1947 میں اپنے زور بازو آزادی حاصل کرنے کے بعد مملکت خدادا پاکستان کے ساتھ اپنا مستقبل وابستہ اپنی مرضی و خوشی کیا ہے اور اسی لئے یہاں کے منتخب نمائندے اور باشعور وکلا پاکستان میں حقوق اور برابری کی جدوجہد کررہے ہیں پاکستان سےآزادی کی نہیں۔
عبوری آئینی صوبہ گلگت بلتستان
خوشحال و خودمختاری کا نشان۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے