گل حماد فاروقی
ضلع اپر چترال اور شندور کی سڑک کی تعمیر پر چالیس سال بعد کام شروع ہوا جس سے علاقے کے لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ ان سڑکوں کی تعمیر سے اگر ایک طرف لوگوں کو سفری سہولیات میسر ہوکر حادثات میں کمی آئے گی تو دوسری جانب اس سے اس پسماندہ ضلع کی سیاحت بھی فروغ پاکر ترقی کا باعث بنے گی۔ نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے زیر نگرانی بننے والی اس سڑک کی کل لمبائی 153 کلومیٹر ہے جبکہ اس کی چوڑائی 42 فٹ ہے۔ اس سڑک میں 23 پُل، کلوٹ، حفاظتی دیوار، نکاسی کا نالہ اور شولڈر بھی شامل ہیں۔ پراجیکٹ ڈائریکٹر این ایچ اے طارق موسیٰ میمن کے مطابق اس منصوبے کی پی سی ون کیلئے 16.55 ارب روپے منظور ہوچکے ہیں جو دو سال میں مکمل ہوگا اور انہیں چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ چترال میں سڑکوں کی تعمیر کیلئے جدو جہد کرنے والی غیر سیاسی تنظیم یعنی چترال ڈیویویلپمنٹ مومنٹ کے رضاکاروں نے زیر تعمیر سڑک کا معائنہ کرکے اس پر تسلی کا اظہار کیا۔ سی ڈی ایم کے اراکین نے ضلع اپر چترال کے ڈپٹی کمشنر منظور احمد افریدی سے بھی ملاقات کرکے مطالبہ کیا کہ اس سڑک میں آنے والی لوگوں کی نجی زمینات کی ادایگی کیلئے فوری اقدامات اٹھایا جائے تاکہ کام میں کوئی رکاوٹ نہ آسکے۔ اور لینڈ کمپینسیشن کے سلسلے میں سڑک میں آنے والی زمین کا سروسے کیا جائے تاکہ ان کو زمین کی معاوضہ کی بروقت ادایگی ہوسکے۔ڈپٹی کمشنر نے ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کے ساتھ ساتھ ان رضاکاروں کا بھی شکریہ ادا کیا جو علاقے کیلئے بے لوث خدمات انجام دے رہے ہیں۔
دی ڈی ایم کا وفد چئیرمین وقاص احمد ایڈوکیٹ، شبیر احمد، عنایت اللہ اسیر، مولانا اسرار الدین الہلال،لیاقت علی،شیر حکیم وغیرہ پر مشتمل تھا تنظیم کے اراکین نے کام پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ چترال کی دیگر وادیوں کی سڑکوں پر بھی کام شروع کیا جائے اور اسے بلدیاتی انتحابات کے بعد بھی جاری رکھا جائے تاکہ چترال کے لوگوں کی مشکلات میں بھی کمی آسکے جو آئے روز حادثات میں کئی قیمتی جانیں ضائع ہوتی ہیں۔
این ایچ اے کے کنسلٹنٹ احمد خان لنگا کا کہنا ہے کہ یہ کام دو سالوں میں مکمل ہوگا اور کام بھی نہایت معیاری ہے۔ سی ڈی ایم کے اراکین نے چترالی عوام کی جانب سے وفاقی حکومت اور این ایچ اے حکام کا بھی شکریہ ادا کیا جو عوام کے اس دیرینہ مطالبے پر عملی طور پر کام کررہے ہیں جس سے حادثات میں کمی بھی آئے گی اور سیاحت بھی فروغ پاکر اس پسماندہ علاقے کی ترقی کا باعث بنے گا۔ ہمارے نمائندے سے باتیں کرتے ہوئے سی ڈی ایم کے چئیرمین وقاص احمد ایڈوکیٹ نے بتایا کہ اس سڑک کی تعمیر میں سرکاری اراضی پر کام تو ہورہا ہے جس کی ہم تعریف کرتے ہیں مگر جہاں لوگوں کی ذاتی زمین ہے اس کا بھی سرو ے کرکے ان کو بروقت معاوضہ دیا جائے تاکہ کام میں کسی قسم کا رکاوٹ نہ آئے۔ انہوں نے کہا کہ تورکہو سڑک پر پچھلے بارہ سالوں سے کام ہورہا ہے مگر حال ہی میں ٹھیکدار چھٹی گیا ہوا ہے اب چونکہ موسم کافی گرم ہے تو سی اینڈ ڈبلیو کے ارباب احتیار سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ ٹھیکدار کو واپس بلاکر کام فوری شروع کروایا جائے۔ انہوں نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا کہ بروغل کی سڑک پر کام شروع کیا جائے تاکہ اس علاقے کی سیاحت کو بھی فروغ دیا جاسکے۔ انہوں مطالبہ کیا کہ اوویر سڑک، کوشت پل،ارندو سڑک، کریم آباد، گرم چشمہ اور آیون بمبوریت وادی کیلاش کی سڑکوں پر بھی فوری طور پر کام شروع کیا جائے۔ انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ پچھلے سال تباہ کن سیلاب کی وجہ سے ریشون کا خوبصورت علاقہ سیلاب کی وجہ سے تباہ ہوا تھا مقامی لوگوں نے اپنی زمین سڑک کی تعمیر کیلئے دیا ہے کیونکہ پرانا سڑک دریابرد ہوچکا تھا مگر ان لوگوں کو ابھی تک زمین کا معاوضہ نہیں ملا ہے ان کو بھی فوری طور پر معاوضہ دیا جائے۔ سی ڈی ایم کے اراکین مستوج سڑک کا تعمیراتی کام کا جائزہ لینے کے بعد واپس لوئیر چترال روانہ ہوئے۔