Baam-e-Jahan

مقامی سیاسی ٹاوٹ کی خصوصیات

محمد زادہ


۔ تھانیدار سے واقفیت
۔ تحصیلدار سے علیک سلیک
۔ چند پٹواریوں سے تعلقات
۔ لوکل گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھ کر بازار آنا جانا
۔ نماز جناز ہ میں شرکت اور بعد میں ایک دو بار تعزیت پر آتے جاتے رہنا
۔ بارات کے ساتھ آنا جانا اور بغیر دعوت دیئے ہر ایک کے پروگراموں میں گُھس جانا
۔ مختلف محکمہ جات کے اہلکاران کے فون نمبرز اپنے پاس محفوظ رکھنا
۔ دو بندوں کے درمیان زمین کا یا کوئی اور تنازعہ پیدا کرکے دونوں طرف سے پولیس محکمہ مال اور عدالتی اخراجات کے نام پر پیسے کمانا اور جب وه مالی طور پر تھوڑے کمزور ہو جایئں تو خانگی فیصلہ کے نام پر پانچ سات مرتبہ جرگے رکھ کر دعوتیں اڑانا
(مگر مسئلہ جوں کا توں ہی رہتا ہے )
۔ لوکل گورنمنٹ سے سکیم لینا اور بعد میں بنا کام کیئے پیسے کھا لینا
۔ خا لصے اپنے نام کرانا
۔ ہر الیکشن میں مضبوط امیدوار کی پارٹی میں شامل ہونے کا اصولی فیصلہ کرنا اور انتخابی دفتر میں دو تین ماہ تک مفت کی روٹیاں کھانا اور لوگوں کو کنبہ قبیلہ اور برادری کی بنیاد پر لڑاناگاوں کے باسیوں کے ہر کام میں ٹانگ آڑانا اور کبھی ایک اور کبھی دوسرے کے کان بھر کر شیطانیاں کرنا

الیکشن کے بعد اپنے کسی عزیز کی نوکری لگوانا یا تگ و دو کرنا۔

کالی کوٹی پہننا۔

کوئی بھی گاوں کا باسی بیرون ملک سے آجائے تو وہاں پہنچ کر پرفیوم اور کپڑے مانگ لینا یا وہاں بڑھائی کرکے کچھ چیزیں بٹورنا
پر ایسا کب تک چلے گا نہ یہ قوم جاگ اُٹھی اور نہ یہ گاوں کے باسی اس ڈرامائی زندگی سے واقف ہوئے مگر پھر بھی ان جیسے لوگوں کو سپورٹ کرتے ہیں یا گاوں کا مُکھیاں بنا دیتے ہیں تو ذرا ہوش سے کام لے اور اپنے پاوں پر کھڑا ہونا سیکھیئے۔۔۔
میرا یہی فرض بنتا ہے کہ حقائق آپ کے سامنے رکھوں
دلائل سے بات کروں پر پڑھے لکھے جاہلوں کو سمجھانا اونٹ کو رکشے میں بیٹھانے کے مترادف ہے۔۔۔۔
نوٹ : اگر آپ کے ارد گرد کسی شخص میں مندرجہ بالا علامات میں سے کوئی ایک بھی علامت ظاہر ہو رہی ہوں تو سمجھ لیجئے کہ وه شخص لوکل سیاسی لیڈر بننے والا ہے اور آنے والے وقت میں آپ کے گاوں کا اتفاق اور اتحاد خطرے میں نظر آرہاہے۔۔

2 تبصرے “مقامی سیاسی ٹاوٹ کی خصوصیات

  1. پاکستان یا مسائلستان
    #تحریرکامریڈمحمدذادہ
    ویسے پاکستان پہلے ہی مسائلستان بن چُکا ہے اور یہاں کی جنتا بے توکی چیزوں میں پڑ کر سوشل میڈیا پر جھوٹ نفرت پھیلانے میں دو قدم آگے ہیں اور سچائی سے کوسوں دور ہیں نہ یہ محب وطن نہ ایک پرچم کے سائے تلے ایک ہیں نہ حقیقت پر مبنی حقیقی مذہبی عقائد کے نزدیک ہیں بس ہر وقت سوشل میڈیا پر آپنے آپ کو مجاہد تو کہتے ہیں پر جقیقت میں اس کے برعکس ہیں سوشل میڈیا پر طرح طرح کی پوسٹیں ٹرانس جینڈر بل پر لکھی جارہی ہے یہ خواجہ سراوں کا بل اتنا بڑا ایشو نہیں وہ ان کا آئینی حق ہے ورنہ ہم اس سماج میں ان کو کس نظر سے دیکھتے ہیں یا سلوک کرتے ہیں وہ ہر بندہ اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھے اس پر بحث شاید کوئی برداشت نہ کرسکے یہ ٹرانس جینڈر کوئی بلا نہیں اور نہ اس ملک کی سالمیت کیلئے خطرہ ہے
    یہاں خطرہ نہ اسلام کو ہے اور نہ پاکستان کو نہ آمریکہ ہم سے ڈرتا ہے اور نہ باقی ممالک ہمارے ڈر سے کانپتے ہیں یہاں آگر ڈر ہے یا خطرہ ہے وہ یہاں کے مسلمانوں کا مسلمانوں سے ہیں یہاں دن دیہاڑے بنت حوا محفوظ نہیں اس کا ریپ کرنے نہ کوئی آنگریز آتا ہے اور نہ کسی اور دیش کا باسی آتا ہے بس اس سماج میں پلے بڑے انسان ہی کرتا ہے یہاں سکول و مدارس میں چھوٹے بچوں کو حوس کا شکار بنانے والے بھی یہاں کے استاد اور قاری حضرات ہیں درآصل وہ مسلمان ہوتے ہیں جو روزانہ کی بُنیاد پر آخباروں کی ہیڈلائنز میں رہتے ہیں یہاں معمول کے مطابق ہر چیز میں ملاوٹ کافر نہیں کرتے پر یہاں کے دوکاندار تاجر اور ذخیرہ اندوز کرتے ہیں دراصل وہ بھی محمدؑ کے پیروکار ہوتے ہیں یہاں خواتین طلباء و طالبات محنت کش اور مزدوروں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے والے سرمایہ دار یا حکومت وقت بھی اس اسلامی جمہوریہ پاکستان کے باسی ہیں یہاں عام پبلک پلیس مسجد ومدرسوں سکول و کالجوں چوک و چوراہوں اور بازاروں میں دہشت پھیلانے اور عام عوام کو سرعام قتل کرنے والے بھی اسی ملک کے باسی اور درآصل مسلمان ہیں یہاں مذہب فرقے اور نسل پرستی کے نام پر اس ملک میں عام شہریوں کی زندگیوں سے کھیلنے والے بھی باہر سے نہیں بلکہ یہاں اسلامی جمہوریہ پاکستان کی پیداوار ہیں
    یہاں روزانہ کی بُنیاد پر سٹریٹ کرائم آغوا برائے تاوان قتل و غارت لڑائی جھگڑے فرقہ پرستی نسل پرستی کے نام پر واویلا مچانے والے بھی اسی اسلامی جمہوریہ کے باسی ہیں یہاں ہری نیلی سفید پگڑیاں پہن کر ایک دوسرے پر فتوے لگانے والے بھی کسی یورپی دیش سے نہیں آئے
    یہاں سینکڑوں دنوں اور سالوں سے لاپتہ کیئے گئے آفراد باہر کی دنیا نے نہیں کیئے بلکہ یہ کارستانی بھی اس مٹی کی ہی ہے جو ہم بُھگت رہے ہیں
    یہاں معمول کے مطابق نہ حوا کی بیٹیاں محفوظ ہیں اور نہ سکول و مدرسوں میں پڑھنے والے بچے کیونکہ یہ درندوں کا سماج ہے
    یہاں دیواروں پر جسمانی طاقت بےاولادی کا علاج محبوب کو قدموں میں لانا یہ اشتہار باہر ممالک کے باسیوں نے نہیں لگائے بلکہ اس سماج کے باسیوں نے لگائے ہیں جو آپنے اپ کو مذہب کے محافظ سمجھتے ہیں اور دین اسلام سے کوسوں دور ہیں
    یہ دنیا کا ساتواں جوہری مُلک اور اسلام کا قلعہ تصوراتی الفاظ ہیں یہاں کی حکومت بھی بھیگ مانگنے والی ہیں اور یہاں بسنے والے بھی بھکاری بن چُکے ہیں اور بینظیر انکم سپورٹ اور احساس کے نام پر خواتین کی لمبی لمبی قطاریں بناکر دنیا کو ہم کیا دکھاتے ہیں وہ آپ خود اندازہ لگادیں
    بیرون ممالک میں بسنے والے باسی بھی عجیب ہیں جو وہاں رہ کر بھی ان سرمایہ داروں چوروں ڈاکووں کی حمایت کرتے ہیں اور وہاں رہ کر کچھ سیکھ بھی نہ سکے کہ دنیا کا سسٹم کس طرح چلتا ہے بس اپنی اندھی تقلید اور ذہنی غلامی کو عیاں کرتے ہیں
    ہمارے ملک میں نہ کوئی بل نہ کوئی سسٹم مذہب کو نقصان پہنچاسکتے بلکہ ہم خود اس عقیدے کو نقصان پہنچاتے ہوئے ارہے ہیں یہاں ریاست کو نقصان پہنچانے والے بھی ہم ہیں نہ کہ آمریکہ یا یورپی ممالک کیونکہ ہم 75 سالوں سے حقائق نہیں سمجھ سکے اور ہمیشہ ان سرمایہ داروں کے چُنگل میں آجاتے ہیں جن کا مذہب عقیدہ صرف اور صرف سرمایہ ہے وہ سرمائے کے پُجاری اور ہم تالیاں بجانے والے بےتوکی چیزوں پر یقین کرنے والے ذہنی غلام نسل و زبان میں بٹے ہوئے حقائق سے بھاگنے والے جھوٹ پر مبنی سلیبس پڑھنے والے اپنے آپ کو تیس مار خان اور دوسروں کو پاوں کی دھول سمجھنے والے جھوٹے بھاشن پر یقین کرنے والے سیاسی پنڈتوں کے کرتوتوں پر پردہ ڈالنے والے نفرت پھیلانے والے سب سے زیادہ حج کرنے والے الحاج اور سود کو فروغ دینے والے ہر چیز میں ملاوٹ کرنے والے غریب کا حق مارنے والے خواتین کو چوک چوراہے اور سڑکوں پر گھورنے والے بچہ بازی زناخوری رشوت دینے اور لینے والے مہنگی چیزیں بیچنے والے ذخیرہ اندوزی کرنے والے بات بات پر ایک دوسرے کو قتل کرنے والے بس ایک بڑا دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم #مسلمان ہیں یہ آپنے اپ کو اور دوسروں کو دھوکہ دینے والا بڑا ہتھیار ہے
    خُدارا ان چیزوں سے باہر نکل کر حقائق کا سامنا کیجیئے انسانیت کا ساتھ دیجیئے مذہب کو ریاست سے الگ کیجیئے اور اس عقیدے کو مزید نقصان پہنچانے کے بجائے اپنے گریبان میں جھانک کر حق اور سچ کا ساتھ دے پہلے انسان بنیئے جب آپ پوری طرح انسانیت کے دائرے میں آگئے تو اپ ایک سچے مذہبی کہلائے جاوگے
    کیونکہ مذہب انسانیت کا درس دیتا ہے
    آپنے کالم کا کچھ حصہ آپ کی نظر کر رہا ہوں دل آذاری کیلئے معذرت چاہتا ہوں آپنی قیمتی آراء سے اگاہ کیجیئے۔۔۔!

  2. آئین اور آئین شکنی اور مبارکباد دینے والو ذرا سوچیئے
    #تحریرکامریڈمحمدذادہ
    پاکستان کو بنے 75 سال گُزرگئے پچھلے ایک ہفتے سے سوشل میڈیا پر کچھ آئین و قانون کا بھاشن دیتے ہیں کوئی کہتا ہے کہ آئین و قانون کی پامالی ہوئی ہے تو کوئی کہتے ہیں کہ عدالت اور قانون کی جیت ہوئی ہے تو کوئی ججز کو ہیرو سمجھتے ہیں تو کوئی زیرو کہ آئین کو بچالیا تو کوئی کہتے نہیں عدالت نے فیصلہ بیرونی دباوں میں آکر دیا ہے کچھ مبارکبادیں دیتے ہوئے زرداری شہباز او مُلا کیلئے تالیاں بجاتے ہیں اور کچھ یہ کہتے ہیں کہ عمران خان کیساتھ زیادتی کی ہے مگر میں یہ سوچ رہاہوں کہ آپ کس آئین کی بات کر رہے ہو یہ آئین ان سرمایہ دار طبقے اور آمیروں کا ہے اسلیئے اُن کے مفاد جُڑے ہوں تو نہ چھٹی بھی دیکھی جاتی ہے اور نہ پٹیشن بس عدالت آزخود نوٹس لیئے جاتے ہیں مُلک دو فیصد سرمایہ دار طبقے کے مفاد کیلئے عدالت بروقت فیصلے سُناتی اور %98 محنت کشو کے مُفاد سے جڑے ہوئے کیس سالہا سال عدالتوں کے اندر ردی کے ٹوکریوں میں پھینکے جاتے ہیں اور عوام انصاف کی منتظر رہتی ہے۔
    اس آئین کے تحت ان سرمایہ دار طبقے نے چاہے وہ آپوزیشن میں ہو حکومت وقت یا اس ریاست کے اداروں نے کبھی بھی ان ارٹیکل پر بحث کی ہے جس سے عام جنتا عوام اور محنت کشو کے مفاد جُڑے ہوں۔
    کبھی اس ریاست سُپریم کورٹ اور اداروں نے آرٹیکل 3 پر حکومت وقت سے پوچھا ہے یا کوئی حُکم نامہ جاری کیا ہے
    جس میں ہر شہری کو بہتر روزگار بہتر رہائش صحت و تعلیم اور زندگی کے بُنیادی ضروریات شامل ہیں اس پر اس عدالت عالیہ نے آزخود نوٹس لیا ہے۔۔
    بالکل نہیں۔۔۔!
    کبھی بھی اس ریاست کی عدالت اور اداروں نے ملک میں %98 محنت کش مزدوروں کیلئے لیبر قوانین کا اطلاق کروایا ہے۔
    بالکل نہیں۔۔۔!
    کبھی بھی ملز کمپنی فیکٹری گارمنٹس سٹور شاپس مالز میں کام کرنے مرد و خواتین ورکرز کو سوشل سیکیورٹی الاونس بونس میڈیکل پر اس عدالت یا اداروں نے عمل کروایاہے
    بالکل نہیں۔۔۔!
    کبھی بھی اس عدالت عالیہ نے ملک میں لاپتہ آفراد زرعی اصلاحات بڑھتی ہوئی مہنگائی بے پناہ کرپشن ریپ بدآمنی بیروزگاری پر آزخود نوٹس لیا ہے۔
    ہرگز نہیں؟
    سپریم کورٹ اور عام عدالتوں میں لاکھوں پینڈنگ کیس ہیں ان پر فیصلے سُنائے گئے ہیں۔
    کسی عام شہری کو ان عدالتوں نے بروقت انصاف فراہم کیاہے
    بالکل نہیں۔۔۔!
    تو ذرا آپ بھی سوچے اس ریاست کو چلانے کیلئے اسٹیبلشمنٹ ویسٹ کے سامراجی قوتوں کے اشاروں پر چلتی ہے آگر کوئی بھی حکومت پاکستان میں آتی ہے وہ اسٹیبلشمنٹ اور آمریکی سامراج کے اشاروں پر آتی ہے اور جب حکومت اس بنے بنائےآمریکی سامراجی فریم سے ادھر اُدھر ہوجاتی تو اسٹیبلشمنٹ اور آمریکی سامراج اُن کو کک مارتی ہے اور دوسرے گروپ کو آگے لاتی ہے یہ پاکستان کا تاریخ ہے اسلیئے یہاں ادارے چُھٹی کے دن بھی لبیک کہہ کر آز خود نوٹس لیتی ہے۔
    ورنہ اس عدالت میں ہزاروں کیس پینڈنگ ہیں جن سے عام عوام کے مفاد جُڑے ہیں اس عدالت میں پچھلے تین سالوں زرعی اصلاحات کا کیس عوامی ورکرزپارٹی کے بانی مرحوم فانوس گوجر نے جمع کیاہے جس کی پیروی AWP کے بانی عابدحسن منٹو صاحب کر رہے ہیں جو اس پارلیمنٹ کو 10 دفعہ لیکچر دے چُکے ہیں یہاں زرعی اقتصادی اور فارن پالیسیوں پر
    تو خدارا ہوا کے جھونکے کے ساتھ جانے سے بہتر ہے زمینی حقائق بھی دیکھا کریں اس آئین میں 22 کروڑ عوام کے مفادات سے جُڑے ان ارٹیکل کو حکومت اپوزیشن ملٹری ادارے اور سرمایہ دار طبقے اور یہ عظیم عدالتیں پچھلے 75 سالوں سے روندتے ہوئے آرہے ہیں اور آپ عوام کبھی ٹس مس نہیں ہورہےہو بس دوسروں کی جیت اور مفاد کیلئے بس تالیاں بجاتے رہتے ہو
    سرٹیفیکٹس باٹنے والے یہ %2 سرمایہ دار جاگیردارطبقہ
    محب وطن بھی یہ %2 سرمایہ دار جاگیردار طبقہ
    آئین قانون ریاست حکومت اپوزیشن اور عدالتیں اور ادارے بھی ان %2 جاگیرداروں اور سرمایہ داروں
    ہم %98 ورکنگ کلاس محنت کش اور 22 کروڑ عوام ان مداریوں کے بندروں کا ناچ دیکھنے والےتالیاں بجانے والے صرف تماشائی۔۔۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں