Baam-e-Jahan

ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ، ایک عہد ساز شخصیت

انور خان یوسفزئی


ہر خاص و عام بڑے چھوٹے کو ہمیشہ اٹھ کر گلے ملنے اور دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرنے کے بعد دونوں ہاتھ اپنے سینے پر رکھ کر محبت اور عقیدت کا اظہار کرنے والی شخصیت ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کی پہچان انکی انکساری تھی لیکن اسی انکساری کے ساتھ ساتھ انکی آنکھوں میں موجود چمک ہر زمانہ ساز شخص کو یہ پیغام دیتی تھی کہ یہ ملنسار شخصیت کا مالک انسان اپنے اصولوں کی پیروی میں ایک پہاڑ جتنا مضبوط بلند اور مضبوط ہے اس بات کا ثبوت انہوں نے مختلف موقعوں پر دیا بھی۔ ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ نے میڈیکل کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد جب عملی سیاست میں قدم رکھا تو دوستوں کے اسرار پر الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا اور نیشنل عوامی پارٹی کی جانب سے ٹکٹ لیا۔ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ اس وقت کے کم عمر ترین ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوگئے ۔ یہ ذوالفقار علی بھٹو کا دور تھا۔ بھٹو صاحب نے جب 1973کے آئین کی منظوری کیلئے تگ و دو شروع کی تو نیشنل پارٹی کے سربراہ عبدالولی خان نے 1973کے آئین کی مخالفت کردیا اور اپنے تمام اراکین اسمبلی کو احکامات جاری کئے کہ کوئی بھی رکن آئین کی دستاویز پر دستخط نہ کرے اسی اثنا میں رابطوں کا سلسلہ شروع ہوا اور عبدالولی خان کو بھٹو صاحب نے قائل کر لیا کہ وہ سنہ 1973کے آئین کو تسلیم کر لیں اور قومی اسمبلی میں منظوری کیلئے حامی بھر لیں ایسا ہی ہوا عبدالولی خان 1973کے آئین کو منظور کرنے کیلئے راضی ہوگئے اور ایک بار پھر حکم صادر کیا کہ اب 1973کے آئین کی منظوری کر لی جائے۔ اسی حکم پر تمام اراکین اسمبلی نے سر تسلیم خم کیا لیکن ایک نوجوان رکن قومی اسمبلی نے عبدالولی خان نے عبدالولی خان سے سوال کیا کہ ـ”ایک ہفتے قبل تک جو آئین ناقابل تسلیم تھا ایک ہفتے بعد بغیر کسی ردوبدل کے کیسے قابل تقسیم ہوگیا؟” میں اس پر دستخط نہیں کرونگا آپکو مجھے قائل کرنا ہوگا کہ میں اب اس آئین کو کیوں تسلیم کروں۔ وہ نوجوان مبر قومی اسمبلی کوئی اور نہیں بلکہ ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ تھے۔ عبدالولی خان نے ڈاکٹر صاحب کو سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ دیکھو تم ابھی کم عمر ہو پاکستانی سیاست کے داؤ پیچ سے ناواقف ہو ایسا ہی ہوتا ہے۔ لیکن ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ ڈٹ گئی اور کہا کہ میں اپنا اصول نہیں چھوڑ سکتا آپ جب تک مجھے قائل نہیں کریں گے میں دستخط نہیں کرونگا۔ عبدالولی خان جب مکمل طور پر ناکام ہو گئے تو انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو حالات سے آگاہ کیا ذوالفقار علی بھٹو نے بھی پہلے مذاکرات کے ذریعے ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ صاحب ڈٹ چکے تھے جس پر ذوافقار علی بھٹو نے تشدد کا راستہ اختیار کیا۔ ڈاکٹر صاحب کو گرفتار کرکے دس دن تک قید میں رکھا گیا اور تشدد کیا لیکن تشدد ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ جیسے اصولی شخص کو توڑ نہیں سکا اور اسطرح ایک نوجوان قومی اسمبلی ممبر جس کا تعلق بلوچستان کے دور افتادہ علاقے اور غریب خاندان سے تھا اس نوجوان نے اصول کا سودا نہ کرکے تاریخ رقم کردی اور ہمیشہ کیلئے امر ہو گیا۔ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ نے ہمیشہ مظلوموں کے حقوق کیلئے جدوجہد کی بلوچستان کے حقوق کیلئے ہمیشہ سے اسمبلی کے اندر اور باہر آواز بلند کی لیکن انکا طریق ہمیشہ جمہوری رہا مجھے انکے ساتھ متعدد بار ملاقاتوں کا موقع ملا۔ میرے والد اعظم خان جو کہ ریلوے یونین کے سرکردہ رہنما رہے ہیں انکے اچھے اور قریبی دوست تھے۔ ڈاکٹر صاحب اکثر ہمارے ہاں آیا کرتے تھے ان سے پہلے ملاقات 1998میں ہوئی جب میں آٹھویں جماعت کا طالبعلم تھا۔ ہمارے گھر کی چھت پر منعقدہ کارنر میٹنگ میں شریک ہوئے اہل علاقہ میں سیاسی شعور ی بیداری کیلئے خطاب کیا۔ اسکے بعد سوالات و جوابات کا سلسلہ شروع ہوا۔ میں کم عمری اور شعوری طور پر ناپختہ تھا لیکن مجھے آج بھی ڈاکٹر صاحب کا پرخلوص اور مدلل انداز یاد ہے۔بعد ازاں کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ جب وہ سینیٹر منتخب ہوئے تو میں ان سے ملنے پارلیمنٹ لاجز اپنے والد صاحب کے ہمراہ گیا۔ انکے ساتھ ملکی سیاسی صورتحال پر تفصیلی بحث ہوئی۔ وہ ہر ایک کی بات کو نہایت غور سے سنتے اور انتہائی شفقت اور محبت سے جواب دیتے۔ وہ جب بھی ہمارے ہاں آتے رات گئے سیاسی بحث و مباحثے جاری رہتے۔ مشرف دور میں جب پرویز مشرف کے خلاف آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ چلائی گئی تو ڈاکٹر صاحب اسکے سرگرم کارکن رہے۔ ہم نے اپنے علاقے ڈھوک حسو میں راجہ نادر کے ڈیرے پر ایک کارنر میٹنگ کا اہتمام کر رکھا تھا۔ ہم انہیں لینے پارلیمنٹ لاجز گئے۔

ڈاکٹر صاحب ہمیشہ گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھ کر سفر کیا کرتے تھے اس روز بھی وہ فرنٹ سیٹ پر بیٹھے ہوئے تھے ۔ میں ،میرے والد اعظم خان صاحب اور ڈاکٹر صاحب کا ایک نوجوان دوست پیچھے بیٹھے تھے۔دوران سفر جب گاڑی پشاور موڑ سے گزر رہی تھی تو میں نے داکٹر صاحب سے سوال کر ڈالا کہ آپ پرویز مشرف کے خلاف بر سر پیکار ہیں۔ جب کہ ان دنوں ملک کی جی ڈی پی گروتھ تاریخ میں سب سے زیادہ ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ روزگار کے نئے مواقع پیدا ہو رہے ہیں دور دراز علاقوں میں بجلی اور گیس کی سہولیات پہنچ رہی ہیں۔ پورے ملک میں سڑکوں کا جال بچھا دیا گیا ہے۔ تو کیا اس وقت ملک احتجاج کا متحمل ہو سکتا ہے؟ اس سے ملک کی ترقی رک سکتی ہے۔ تو وہ چونک کر میری طرف مڑے انکی آنکھوں میں چمک اور غصے کے آثار واضح تھے انہوں نے کہا کہ میں آپکی تمام باتوں سے اتفاق کرتا ہوں پھر بھی کہوں گا کہ بہترین آمریت سے بدترین جمہوریت بہتر ہے۔ جب ہم دھوک حسو میں راجہ نادر کے ڈیرے پر پہنچے تو اہل علاقہ کی کثیر تعداد موجود تھی جنہیں دیکھ کر بلوچ صاحب بہت خوش ہوئے ۔ کسی بھی سیاستدان کیلئے عوامی رابطہ آکسیجن کی مانند ہوتا ہے۔ وہ بہت پرجوش دکھائی دے رہے تھے۔ میٹنگ کے اختتام پر ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ جب راجہ نادر، اعظم خان اور اپنے دوست کیکے ساتھ کھانا کھا رہے تھے تو میں ڈاکٹر صاحب کے بالکل سامنے بیٹھا تھا اسی دوران راجہ نادر جو کہ ڈھوک حسو کی ایک معروف سیاسی و سماجی شخصیت تھے انہوں نے ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ ہم آپ کی انقلابی سوچ کو بالکل صحیح مانتے ہیں آپ جو فارمولا بتا رہے ہیں وہی ملکی مسائل کا اور غریب طبقے کی مشکلات کا حل کا حل ہے۔ لیکن ہم بھی کیا کریں راولپنڈی جیسے شہر کو پھر ڈھوک حسو جیسے علاقے میں رہتے ہیں سفید کپٹرے پہنتے ہیں۔ تھانہ کچہری کی سیاست ہماری مجبوری ہے۔ ہم کیسے روایتی پارٹیوں کی حمایت چھوڑ کر انقلابی پارٹیوں میں شامل ہو جائیں۔ اس پر ڈاکٹر صاحب نے کچھ توقف کے بعد میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا راجہ نادر صاحب آپ کے پاس قلم کی طاقت موجود ہے۔ آپکو روایتی سیاسی پارٹیوں کی کیا ضرورت ہے۔ یہی قلم آپکی آواز بنے گا۔ ڈاکٹرصاحب کے اس بیان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ حقیقی معنوں میں جمہوریت پسند تھے۔ وہ ہرایک مسئلے کا حل جمہوریت میں تلاش کرتے تھے۔وہ صحافت کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور صحافت میں موجود بہت سے انقلابی سوچ کے حامی لوگ انکے قریب رہے۔ جمہوریت کی سربلندی کیلئے انہوں نے ہر طرح کی صعوبتیں برداشت کیں وہ ایک نڈر شخصیت کے مالک انسان رہے۔ لیکن وہ شخص جو کسی نہ کسی صورت میں ڈاکٹر صاحب کو جانتا تھا آج غم میں مبتلا ہے انہوں نے ساری زندگی ملک و قوم کی خدمت کی اور اپنے لئے کچھ نہیں بنایا انکے پاس نہ تو روایتی سیاستدانوں جیسی بڑی بڑی گاڑیاں تھی اور نہ اسلام آباد میں دفتر و بنگلے۔ انہوں نے اصولوں کی سودابازی نہ کی۔ مشرف دور میں انہیں کئی مرتبہ آفرز ملیں کہ وہ انکے ساتھ شامل ہوجائیں۔ لیکن ڈاکٹر صاحب نے اصولوں کو مقدم جانا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ دنیاوی مال و زر تو نہ جمع کر سکے لیکن مظلوم طبقوں کی آواز بن کر لوگوں کے دلوں میں ہمیشہ کیلئے امر ہو گئے۔ ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ جیسی شخصیات کسی بھی ملک و قوم کا اثاثہ ہوتی ہیں ۔ لیکن یہاں میں افسوس کے ساتھ کہوں گا کہ ہمارے کمرشل میڈیا نے انکو وہ مقام نہیں دیا جسکے وہ حقدار تھے۔ انکی وفات پر انکو جو کوریج ملنی چاہئیے تھی وہ یقینا نہیں دی جارہی اور یہ کوریج انکو ضرور ملنی چاہئیے۔یہی ہمارا المہ ہے کہ ہم بحیثیت قوم احسان فراموش بن چکے ہیں۔ ہم اپنے لئے قربانیاں دینے والوں کو ہمیشہ بھول جاتے ہیں اور انہیں وہ مقام نہیں دیتے جو انکا حق ہے۔ ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ صاحب یقینا ایک عہد ساز شخصیت تھے انکی کمی ہمیشہ محسوس ہوتی رہے گی۔ انکی وفات پر جو خلا ہماری سیاست میں پیدا ہوا ہے شاید ہی وہ کبھی پـر ہو سکے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں