وسعت اللہ خان
جب پرانی پیڑھی کے سیاستدان پارلیمان کے لیے منتخب ہو جاتے تھے تو پھر جلسے جلوسوں کی شعلہ بیانی گیٹ سے باہر رکھ کر پارلیمانی روایات کی چادر اوڑھ لیتے تھے۔
پوائنٹ آف آرڈر، تحریکِ استحقاق، تحریکِ التوا، سیلیکٹ کمیٹی، پرائیویٹ ممبرز ڈے، محترم، محترمہ، جنابِ والا، کسٹوڈین، آنر ایبل ممبر سمیت درجنوں پارلیمانی اصطلاحات و القابات معزز اراکینِ پارلیمان کے روزمرہ کا حصہ بنتے چلے جاتے اور سینیٹ، قومی و صوبائی اسمبلی کی عمر پوری ہونے تک پہلی بار منتخب ہونے والے ارکان بھی پارلیمانی ادب سے کماحقہ واقف ہو چکے ہوتے۔
یقین نہ آئے تو متحدہ ہندوستان کی پارلیمانی تاریخ میں لوٹنے کے بجائے سنہ ستر کے انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آنے والی اسمبلیوں کی پارلیمانی کارروائی کی تفصیلات ہی سرسری پڑھ لیجیے تاکہ آپ کو اندازہ ہو سکے کہ ارکانِ پارلیمان کا تعلق بھلے کسی بھی نظریاتی و غیر نظریاتی کیمپ سے ہو، وہ پارلیمانی آداب کے دائرے سے بہت کم باہر نکلتے تھے۔
یوں پارلیمان کو اپنی کارروائی جاری رکھنے کے لیے جس طرح کا غیر کشیدہ، پیشہ ورانہ و سنجیدہ ماحول درکار ہوتا ہے اس کے تقاضے بہت حد تک پورے ہو جاتے۔
اس دور کی اسمبلیوں میں بھی کبھی کبھار تو تو، میں میں کی نوبت آ جاتی تھی۔ قرار دادیں بھی پھاڑی جاتی تھیں اور واک آؤٹ بھی ہوتے تھے۔ موافقت و مخالفت کے اجتماعی اظہار کے لیے ڈیسک بھی مسلسل بجا کرتے تھے۔ غوغائی ماحول بھی برپا ہوتا تھا۔ مگر یہ سب ایوان کے اندر تک ہی رہتا۔
اجلاس کے دوران یا بعد کیفے ٹیریا میں ارکانِ پارلیمان ایک دوسرے سے اسی طرح گھلتے ملتے جو مہذب انسانوں کا وطیرہ سمجھا جاتا ہے۔ کسی کی اچھی تقریر یا نکتہ رسی یا پارلیمانی بذلہ سنجی پر داد دینے میں بھی بخل نہیں برتا جاتا تھا۔
چنانچہ کشیدگی و اختلاف کے باوجود رابطہ کاری و بات چیت کا کوئی نہ کوئی دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا۔ حزبِ اقتدار کو ایوان کی کارروائی آگے بڑھانے کی زیادہ فکر ہوتی کیونکہ قانون سازی بہرحال حزبِ اقتدار کی ہی بنیادی ذمہ داری تھی۔
لہذا یہ معمول کی بات تھی کہ ناراض اپوزیشن کو منانے کے لیے حزبِ اقتدار مخالفین کی تھوڑی میں ہاتھ ڈالنے، کندھے پر ہاتھ رکھ کر ایوان میں دوبارہ لے جانے اور دوستانہ انداز میں ہاتھ پکڑ کر کھینچنے یا ملک و قوم یا اللہ، رسول کا واسطہ دے کر منانے کی کوشش کو کبھی انا کا مسئلہ نہیں سمجھتی تھی۔ گویا روٹھنا منانا بھی پارلیمانی روایات کا غیر رسمی حصہ تھا۔
آج کی نئی پارلیمانی پود کی اکثریت کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ پرانی پود کے برعکس سڑک، گالی اور جلسے کا سٹیج ایوان سے باہر نہیں چھوڑتی بلکہ اسے گھسیٹ کر اندر لے آتی ہے۔
جو زبان جلسوں جلوسوں میں استعمال ہوتی ہے وہی پارلیمانی کارروائی میں بھی بلا ججھک استعمال ہونے لگی ہے۔
باہمی عدم اعتماد اور رابطوں کے فقدان کا یہ عالم ہے کہ موجودہ وزیرِ اعظم کی آج تک حزبِ اختلاف یا قائدِ حزبِ اختلاف سے پچھلے پونے چار برس میں ایک بھی باضابطہ ملاقات نہیں ہو پائی۔
پارلیمانی و ذاتی دشمنی، رکیک حملوں اور سیاسی طنز میں فرق تیزی سے مٹتا جا رہا ہے۔ یا تو آپ ہمارے اتحادی ہیں یا پھر دشمن۔ یہ ذہنی کلچر اوپر سے نیچے تک نہایت تیزی سے سرائیت کر چکا ہے۔
نتیجہ یہ ہے کہ تحریکِ اعتماد یا عدم اعتماد جسے دنیا بھر میں پارلیمانی کلچر کا معمول سمجھا جاتا ہے، اس کے ارد گرد اس قدر بارودی سرنگیں بچھا دی گئی ہیں کہ جمہوری ڈھانچہ ہی بھک سے اڑ جانے کا خدشہ روز بروز مستحکم ہوتا جا رہا ہے۔
تحریکِ عدم اعتماد کے حق کو غداری، بیرونی آلہ کاری اور چوروں اور ڈاکوؤں کے راج کی کوشش سے جوڑا جا رہا ہے۔
عام لوگوں اور اداروں کو بھی اس دھما چوکڑی میں گھسیٹنے کی بھرپور کوشش ہو رہی ہے۔ گھیراؤ جلاؤ کی گفتگو شروع ہو گئی ہے۔
ماحول کچھ ایسا بن گیا ہے گویا تحریکِ عدم اعتماد نہ ہو روس کی یوکرین پر چڑھائی کی تیاری ہو یا انڈین فوج کا پاکستانی سرحد پر اجتماع ہونے لگا ہو یا حزبِ اختلاف وہ خود کش بمبار ہو جو پوری سرکار اور پارلیمانی ڈھانچے کو اڑانے کے لیے جیکٹ کا لیور کھینچے پر تیار ہو۔
جو تصویر ابھرتی جا رہی ہے اس سے یہ تاثر مل رہا ہے گویا پارلیمنٹ نہ ہو کمیلا ہو جہاں قصاب چھریاں لے کر اس کو کاٹوں کس کو کاٹوں چیختے دوڑ رہے ہوں اور جمہوری گائے کونے سے چپکی کھڑی ہو۔
یہ کیا جگہ ہے دوستو یہ کون سا دیار ہے
حدِ نگاہ تک جہاں غبار ہی غبار ہے
(شہریار)