بی بی سی اردو
پاکستان میں تیل کمپنیوں کی جانب سے موجودہ سال کے آغاز سے ڈیزل کی کم درآمد کا رجحان دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ملک میں کام کرنے والی تیل کمپنیوں نے رواں برس جنوری سے اب تک، ان تخمینوں سے کم ڈیزل درآمد کیا ہے جو حکومت کی جانب سے ایک کمیٹی کے فیصلوں کے تحت اُنھیں درآمد کرنا ہوتا ہے۔
پاکستان کی سرکاری تیل کمپنی پاکستان سٹیٹ آئل (پی ایس او) کی دستاویزات کے مطابق جنوری سے اب تک ٹارگٹ سے دو لاکھ میٹرک ٹن کم ڈیزل درآمد کیا گیا ہے۔ پی ایس او نے وزارت توانائی کو ایک خط میں اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ آنے والے ہفتوں میں ملک کو ڈیزل کی کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس خط میں کہا گیا ہے کہ اس صورتحال کا ملک میں گندم کی کٹائی کے سیزن پر اثر پڑ سکتا ہے جب ملک میں ڈیزل کی مانگ بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔
پاکستان میں تیل و گیس کے نگران ادارے آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے بھی وزارت توانائی کے نام ایک خط میں زور دیا ہے کہ گندم کی کٹائی کے موسم میں ڈیزل کی طلب بڑھنے والی ہے۔ اوگرا نے سفارش کی ہے کہ بینکوں کی جانب سے تیل کمپنیوں کو زیادہ رقم فراہم کی جائے تاکہ وہ ملک میں زیادہ ڈیزل درآمد کر سکیں۔
تاہم وزیر توانائی حماد اظہر نے ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں اس خدشے کو مسترد کیا کہ ملک میں پیٹرول و ڈیزل کا کوئی بحران ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ ملک میں تیل کے ذخائر ایک ماہ کے لیے کافی ہیں اور میڈیا میں آنے والی خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے۔
مگر اوگرا اور پی ایس او کے وزارت توانائی کو لکھے گئے خطوط کے مطابق ملک میں تیل، خاص طور پر ڈیزل کی سپلائی چین بہت دباؤ کی شکار ہے اور اگر فوری طور پر اقدامات نہیں اٹھائے گئے کہ ملک میں ڈیزل کا ایک بڑا بحران سامنے آ سکتا ہے۔
رواں ماہ کے اوائل میں وفاقی حکومت کے کیے گئے ایک فیصلے کے مطابق پاکستان میں پیٹرول و ڈیزل کی قیمتیں اگلے مالی سال کے بجٹ تک منجمد کر دی گئی ہیں، تاہم عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں روس اور یوکرین کے درمیان تنازع کی وجہ سے بلند ترین سطح پر ہیں جس کی وجہ سے تیل کمپنیاں مہنگا تیل خرید رہی ہیں۔
حکومت کی جانب سے تیل کمپنیوں کو مہنگا تیل خرید کر ملک میں سستا بیچنے پر سبسڈی کا اعلان کیا گیا ہے تاہم تیل کمپنیاں ماضی میں حکومتی وعدے مبینہ طور پر پورے نہ ہونے پر اس خدشے کا اظہار کرتی ہیں کہ سبسڈی کی رقم کے جاری کرنے میں تاخیر ہونے کی صورت میں اُن کے لیے کام کرنا ممکن نہیں ہو گا۔
اگرچہ حکومت کی جانب سے ایک طریقہ کار اپنایا گیا ہے جس کے تحت سبسڈی کی رقم ایک مہینے میں ادا کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے تاہم تیل کمپنیاں اس پر پوری طرح مطمئن نہیں ہیں۔
پاکستان میں تیل کے شعبے کے ماہرین کے مطابق عالمی منڈی میں تیل، خاص طور پر ڈیزل کی قیمت میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں ڈیزل درآمد کرنے والی کمپنیاں مشکلات کا شکار ہیں۔
ان کے مطابق امیر ممالک زیادہ ڈیزل خرید رہے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان جیسے ملکوں کو مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ اس پر زیادہ پریمیئم یعنی اضافی رقم ادا کرنی پڑ رہی ہے جو کمپنیوں کے لیے مالی مشکلات پیدا کر رہی ہے۔
تیل کے شعبے کی عمومی صورتحال
وفاقی حکومت نے رواں ماہ کے آغاز میں ایک فیصلے کے تحت ڈیزل اور پیٹرول کی قیمتوں میں 10 روپے کی کمی کا اعلان کرتے ہوئے پیٹرول کی قیمت 150 روپے فی لیٹر کر دی تھی اور ڈیزل کی قیمت 114.15 روپے مقرر کی تھی۔
حکومت کی جانب سے تیل کی کم قیمت کو برقرار رکھنے کے لیے تیل کمپنیوں کو سبسڈی فراہم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ تیل کمپنیوں کو کہا گیا ہے کہ وہ عالمی منڈی اور ملکی سطح کی قیمتوں کے درمیان فرق کا حساب دے کر حکومت سے بقایا رقم وصول کریں۔
اس کے لیے حکومت کی جانب سے ایک طریقہ کار مقرر کیا گیا ہے اور اس کے لیے 20 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔ تاہم تیل کمپنیوں کے مطابق عالمی اور ملکی قیمتوں میں فرق اتنا زیادہ ہو گیا ہے کہ صرف 15 دن کا فرق 25 ارب سے زائد بن رہا ہے۔
اس صورتحال میں اوگرا نے سفارش کی ہے کہ پاکستان کی سرکاری تیل کمپنی پاکستان سٹیٹ آئل (پی ایس او) بین الاقوامی مارکیٹ سے ڈیزل خرید کر مقامی تیل کمپنیوں کو فراہم کرے، لیکن پی ایس او نے اپنے ایک خط میں ایسا کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
پی ایس او کے مطابق ادارے کے گردشی قرضوں اور بین الاقوامی سطح پر بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے یہ مالی طور پر ممکن نہیں کہ وہ عالمی منڈی سے تیل خرید کر مقامی سطح پر تیل کمپنیوں کو فروخت کرے۔
اس حوالے سے آئل انڈسٹری کے ماہر اور ایک مقامی ریفائنری کے منتظم زاہد میر نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ دنیا میں اس وقت ڈیزل کی طلب بہت زیادہ ہے اور زیادہ تر ڈیزل یورپ برآمد کیا جا رہا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ ایک جانب ڈیزل کی قیمت بڑھی ہے تو اس کے ساتھ اس پر پریمیئم میں بھی اضافہ ہوا ہے یعنی طلب زیادہ ہونے کی وجہ سے آپ اضافی پیسے ادا کر کے ڈیزل خرید سکتے ہیں۔ اُنھوں نے بتایا کہ دنیا کے حالات کی وجہ سے تیل کی مصنوعات کی قیمتوں میں زیادہ اضافہ ہوا ہے اور پاکستان بھی اس سے متاثر ہو رہا ہے۔
تیل و گیس کے شعبے کے ماہر اور عارف حبیب لمٹیڈ کے ہیڈ آف ریسرچ طاہر عباس نے بتایا کہ پریمیئم ایک اضافی رقم ہوتی ہے جو جلد خریداری کے لیے ادا کرنی ہوتی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ یہ حقیقت ہے کہ دنیا میں ڈیزل کی قیمت بہت زیادہ بڑھی تاہم گذشتہ کچھ روز سے تیل کی قیمتوں میں کمی واقع ہوئی ہے اور اس کا مثبت اثر پاکستان پر بھی پڑے گا۔ کیونکہ خام تیل کی قیمت جو 125 ڈالر فی بیرل سے اوپر چلی گئی تھی وہ اب 110 ڈالر فی بیرل سے نیچے آ گئی ہے۔ اور روس اور یوکرین کے درمیان کسی امن معاہدے کی صورت میں یہ 100 ڈالر سے بھی نیچے جا سکتی ہیں۔
تیل کمپنیوں نے ڈیزل کیوں نہیں خریدا؟
پی ایس او کے وزارت توانائی کو لکھے گئے ایک خط کے مطابق ملک میں 12 تیل کمپنیوں کی جانب سے جنوری سے لے کر مارچ کے مہینے تک کم ڈیزل خریدا گیا ہے۔
پی ایس او کے مطابق ڈیزل کی کم درآمد کی وجہ سے ان کمپنیوں کے ساتھ ملک میں ڈیزل کے ’ڈے کور‘ یعنی کتنے دن کے لیے ڈیزل کافی ہو گا، اس میں پانچ دن کی کمی آئی ہے۔
عارف حبیب لمیٹڈ کے طاہر عباس نے بتایا کہ فی الحال ڈیزل کا کوئی بحران نظر نہیں آ رہا کیونکہ وزیر توانائی کے مطابق ایک مہینے کا ذخیرہ موجود ہے۔ اُنھوں نے کہا عالمی منڈی میں قیمتوں میں کمی ہوئی ہے جس کا فائدہ پاکستان کو ہو گا اور تیل کمپنیوں کو کیش فلو اور درآمدی لاگت کے لیے اضافی پیسے نہیں چاہیے ہوں گے۔
فصل کی کٹائی ڈیزل کی کمی سے متاثر ہو سکتی ہے؟
تیل کمپنیوں کی جانب سے ڈیزل کی کم درآمد کی وجہ سے حکومتی ادارے پی ایس او نے ملک میں گندم کی کٹائی کے سیزن کے متاثر ہونے کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا ہے۔
اوگرا نے بھی اس سلسلے میں خدشات کا اظہار کیا ہے کہ مارچ سے لے کر جون تک ڈیزل کی طلب بہت زیادہ ہوتی ہے جب ملک میں فصل کی کٹائی ہو رہی ہوتی ہے اور اس لیے اس عرصے کے دوران طلب کو پورا کرنے کے لیے زیادہ ڈیزل درآمد کیا جائے۔
سندھ آباد گار بورڈ کے سینیئر نائب صدر محمود نواز شاہ نے کہا گندم کی کٹائی اور ترسیل میں استعمال ہونے والے کمبائنڈ ہارویسٹر، تھریشر،ٹریکٹر ٹرالیاں اور ٹرک ڈیزل استعمال کرتے ہیں۔ سندھ میں مارچ سے گندم کی کٹائی شروع ہوتی ہے جو ملک کے بالائی حصوں میں جون تک چلی جاتی ہے۔
پاکستان میں تیل کمپنیوں کی نمائندہ تنظیم آئل کمپنیز ایڈوائزری کمیٹی کے اعداد و شمار کے مطابق مئی میں جب گندم کی کٹائی کا موسم عروج پر ہوتا ہے تو اس وقت ڈیزل کی کھپت نو لاکھ ٹن تک ہو جاتی ہے جو عموماً دوسرے مہینوں میں سات لاکھ ٹن کے لگ بھگ رہتی ہے۔