Baam-e-Jahan

بروسکت زبان کی دریافت؟

عزیز علی داد

عزیز علی داد


جب ہمیں کسی چیز کا علم نہیں ہوتا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس چیز کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ کسی چیز کو نیست سے ہست میں لانا ایک الوہی عمل ہوتا ہے۔ اسی طرح دریافت کا دعوی یا عمل ایک اعلی ذہن کی نشانی سمجھی جاتی ہے یا کولمبس کی طرح ایک مہذب بندے کی علامت ہوتا ہے جو ایک گمنام مگر نئی دنیا کو دریافت کرلیتا ہے۔ پاکستان میں یہ رویہ پڑھے لکھے لوگوں میں بھی عام ہے۔ سوشل میڈیا کے پھیلاو کے ساتھ یہ رجحان اور بڑھ گیا ہے۔ پاکستان میں آن لائن اخباروں اور بلاگز کی بہتات سے جہاں معلومات تک رسائی اور ان کی ترسیل میں آسانی پیدا ہوئی ہے وہاں پر کچھ الگ نظر آنے اور وکھرا سنانے کے بھی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں بغیر تصدیق کئے بہت سارے دعوے کئےجاتے ہیں اور کہانیاں سنائی جاتی ہیں جن کو لوگ چیلنج بھی نہیں کرتے کیونکہ ایسی کہانیاں عموما دور دراز اور ایک رومانوی جگہوں کے متعلق ہوتی ہیں۔ ایسا ہی ایک دعوی پاکستان کے ایک معتبر بلاگ انڈیپنڈنٹ اردونے ایک ویڈیو رپورٹ میں کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں ایک نئی زبان بروسکت کے نام سے دریافت ہوئی ہے۔ یہ زبان بلتستان کے علاقے کھرمنگ میں انڈیا بارڈر کے قرہب گاوں گلوخ میں بولی جاتی ہے۔یہ کوئی نئی دریافت نہیں ہے۔پاکستان میں مقامی زبانوں پر ریسرچ کرنے والوں کا اس زبان کے متعلق علم ہے۔اب پاکستانی حکومت اس زبان کو مردم شماری میں شمار ہی نہیں کرتی ہے اور اہل علم اس کے متعلق نہیں جانتے ہیں تو وہ کاغذی طور تو وجود نہیں رکھیں گے، مگر ایک معاشرتی حقیقت کے طور پر تو اس کا وجود تو ضرور ہوتا ہے۔
زبان کے ایک لہجے کا خود زبان بن جانا ایک قدرتی اور لسانیات کی تاریخ کا ایک ثابت شدہ حقیقت ہے۔ بروسکت شینا کا ایک لہجہ ہے جو اب اہک زبان بن چکی ہے۔ اسی طرح لداخ میں بلتی زبان کا پرگہ لہجہ الگ زبان کی شکل اختیار کر گیا ہے۔بروسکت شینا زبان کی ایک قسم ہیں جس نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک خاص جغرافیے اور انتظامی انتظام میں اپنے خدوخال کو جنم دیا ہے۔اس لے اس کو اب ایک الگ زبان سمجھا جاتا ہے۔ اس میں شینا اور بلتی زبان کی آمیزش ہے۔یہ زبان لداخ اور کشمیر میں بولی جاتی ہے۔بلتستان اور لداخ میں شینا زبان بولنے علاوں کو بروکپا کہا جاتا ہے۔ بروسکت ان بروکپا لوگوں کی زبان کو کہا جاتا ہے۔بروسکت کو انڈیا میں الگ زبان تسلیم کیا گیا ہے مگر پاکستان میں نہیں۔ کارگل سے بعض شینا زبان کے ایکٹیوسٹ کا کہنا ہے کہ وہاں برسکت کو شینا زبان میں شامل کیا گیا تو احتجاج ہوا اور اس کو الگ زبان قرار دینا کا مطالبہ کیا گیا۔ بعد میں اس مطالبے کو تسلیم کیا گیا۔
اس زبان کو انڈیا نے اپنی زبانوں کی فہرست میں شامل کیا ہے۔ مگر پاکستان معاملہ مختلف ہے۔ پتہ نہیں پاکستان کی ریاست کو مقامی زبانوں سے اتنی چڑ کیوں ہے کہ ان کے وجود کو تسلیم کرنے سے ہی گریزاں ہے۔پچھلی مردم شماری میں گلگت بلتستان کے ساری زبانوں کو "دیگر” کے زمرے میں ضم کیا گیا۔یوں بہت ساری زبانوں کو دیگر کے قبر میں دفن کردیا گیا۔ اسی طرح خبر ہے کہ اس مرتبہ بھی بہت سی مقامی زباموں کو مردم شماری میں شامل نہیں کہا جارہا ہے۔جب سرکاری طور پر زبان کو تسلیم ہی نہیں کیا جائیگا تو زبان اپنی شناخت کیسے بنا پاۓ گی۔ بدقستی سے بروسکت پاکستان کے سیاسی نظام میں حاشیۓ پر موجود ایک ایسے علاقے سے تعلق رکھتی جس کا اپنی وجود گمنامی کے برزخ میں ہے۔ ایسے میں چھوٹی زبانیں پاکستان کے علمی اور ابلاغی مراکز میں گمنام ہی ہونگی۔ انڈیپنڈینٹ نے اس معاملے کو قومی میڈیا کے سامنے لایا ہے جو کہ قابل ستائش مگر اس دوران وہ بھی دریافت کی رومانویت کا شکار ہوا جس کا پاکستان کے اکثر بلاگ شکار ہوتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے