بشکریہ ہم سب نیوز
ممتاز قانون دان عابد حسن منٹو نے پانچ صفحات پر مبنی ایک اہم خط چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس عمر عطا بندیال کو لکھا ہے۔ اس خط میں اس صدارتی ریفرنس پر بات کی گئی ہے جو صدر پاکستان نے آرٹیکل 186 اور ایک پیٹیشن جو 184 / 3 کے تحت سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے دائر کی ہے، پر بات کی ہے۔
منٹو صاحب نے لکھا ہے کہ آئین کے دونوں آرٹیکل، پیٹیشن کو عوامی اہمیت کا حامل ہونا لازم قرار دیتے ہیں۔ اس صورت میں کوئی وجہ نہیں ہونی چاہیے کہ اس کی کارروائی عوام کے سامنے نہ ہو اور کیوں عوام کو اس مقدمے میں فریق بننے کے لیے مناسب موقع نہیں دیا گیا جبکہ جس رفتار سے اس مقدمے کو چلایا گیا ہے اس نے عوام کے لیے اس کا حصہ بننے کو عملی طور پر ناممکن بنا دیا ہے۔
منٹو صاحب نے کہا کہ ایک شہری، ووٹر اور سیاسی پارٹی کا ممبر ہونے کے علاوہ وہ ایک ٹیکس دہندہ ہیں اور گزشتہ ساٹھ برس سے زائد مدت سے سپریم کورٹ کے وکیل ہیں۔ اس کے باوجود وہ مقدمے کا فریق بننے سے قاصر ہیں تو اس لیے ان کے پاس اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں کہ وہ یہ خط لکھیں اور اپنا موقف واضح کریں۔
اس خط میں بہت سے اہم قانونی اور آئینی معاملات پر بات کی گئی ہے۔ خاص طور پر آئین کے اخلاقی پہلو اور انحراف کی صورت میں شق 63 اے کے تحت اسمبلی سے اخراج کو شق 62 سے جوڑ کر رکن کو تاحیات نا اہل کرنے کا معاملہ اٹھایا گیا ہے۔
یہ اہم سوال زیر بحث لایا گیا ہے کہ اگر کوئی ممبر 63 اے کے دائرہ کار میں آتا ہو لیکن وہ کارروائی سے پہلے ہی پارٹی اور اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دے تو کیا اس کے خلاف 62 الف کے تحت نا اہلی کی کارروائی ممکن ہے؟