عمران خان
اس عظیم درسگاہ کے علم پھیلانے کے نہ ختم ہونے والے سفر کا میں بھی کئی طالب علموں کی طرح ایک مسافر رہا ہوں۔
مرحوم صلاح الدین نے تورکھوں جیسے دور دراز علاقہ کے نوجوانوں کو جدید تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے سالک سکولز کی بنیاد رکھی۔ ان کے اس اقدام سے پورے تورکھوں میں جدید تعلیم کے حصول تک رسائی ممکن ہوئی اور علم پھیلنا شروع ہوا۔ مرحوم صلاح الدین کی رحلت کے بعد ان کے بھائی محترم مظفر الدین نے علم پھیلانے کی اس سلسلہ کو جاری رکھا اور اپنی انتھک کوششوں سے اس درسگاہ کو آگے لے گئے۔
اُس وقت چترال بالخصوص تورکھوں میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کی تعداد بہت کم تھی اور مظفر الدین صاحب ان تعلیم یافتہ نوجوانوں میں سے ایک تھے۔ نوکریوں کے بہت سارے مواقع ہونے کے باوجود نوجوانوں کو جدید تعلیم سے آراستہ کرنے کا بیڑا اٹھانا میری نظر میں آسان کام نہیں ہوسکتا اور نہ ہی آسان فیصلہ۔
بہار کا موسم تھا اور سالک پبلک سکول نوغور میں داخلوں کا سلسلہ جاری تھا۔ والد صاحب گھر پر نہ ہونے کی وجہ سے مجھے میرے بھائی مرحوم رحمت نواز کیساتھ اسکول بھیجا گیا۔ اس وقت سالک اسکول کے درس و تدریس کا سلسلہ شاگرام نوغور میں ہوا کرتا تھا۔ سکول پہنچا اور نوغور کے بڑے گیٹ سے اندر داخل ہوا تو منظر بہت ہی دلچسپ اور حسین تھا جو لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔ اندر داخل ہوتے ہی اِدھر اُدھر نظر دہرائی تو سہانا منظر نظر آیا۔ کچھ سینئرز طلبا کلاس کے اندر اشرف نظار سر کے زیر نگرانی سبق پڑھ رہے تھے تو کچھ لمبے اور کشادہ درختو کے نیچے مطلوب الدین سر کے زیرنگرانی درس حاصل کر رہے تھے۔ بھائی نے دفتر میں نام وغیرہ لکھوانے کے بعد نرسری کلاس میں لے گئے جہاں محترم شیر وزیر سر درس دینے میں مصروف تھے۔ انہوں نے ہمیں بڑے پرجوش انداز میں خوش آمدید کہا اور یوں تعلیم کا اغاز ہوا۔
نوغور سکول کے پہلے سال سالک پبلک سکول کی نئی عمارت بن رہی تھی اور پرنسپل سر ہمیں کلاس میں آکر یہ بتایا کرتا تھا کہ اپ لوگوں کیلئے ایسی عمارت بنا رہے ہیں جس کی دیواریں اور فرش پکے اور کلاسز روشن اور ہوا دار ہوں گے۔ ہم یہ سب سوچ کر بہت خوش ہواکرتے تھے کیوں کے نوغور میں فطرت بہت اچھی تھی لیکن کلاسز تنگ اور تاریک تھے۔ کونے والا تاریک روم اج بھی سینئرز کو یاد ہوگا۔ پرنسپل صاحب نے چترال کی مختلف جگہوں سے ٹیچرز ہائر کیا جن میں لوئر چترال، بونی، گرم چشمہ وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سٹوڈنٹس کو مغربی تعلیم اور سوچ سے آشنا کرنے کے لیے تین چار دفعہ لندن سے ٹرینڈ ٹیچرز بلاکے سٹوڈنٹس کو مغربی سوچ اور مغربی تعلیم کے بارے میں سیکھنے کا موقع مہیا کیا۔ مجھے یاد ہے جب ہم پانچویں جماعت میں تھے تو انگریزی کے ٹینسز پڑھاتے ہوئے لندن سے آئی ہوئی ٹیچر نے ہمیں
critical thinking, problem solving,
وغیرہ کا بتایا جو بد قسمتی سے اب بھی قومی نصاب کا حصہ نہیں بن سکے ہیں۔ ظفر الدین صاحب نے بھی لندن سے مختلف کورسز کرکے واپس آکے اپنے شاگردوں اور علاقہ کی فلاح و بہبود کیلئے کام کیا۔
۲٠۱۹ میں جب ٹیچ فار پاکستان جوائن کیا اور ٹیچنگ ٹریننگ حاصل کرنے کیساتھ کچھ اصول سیکھے تو یہ احساس ہوا کہ ان میں سے بہت ساری چیزیں ہمارے ٹیچرز استعمال کیا کرتے تھے۔ مثلاً ایک دفعہ بریک ختم ہونے پر ہم چار دوست کلاس میں جا رہے تو صاحب خان سر نے ہمیں پاس بلایا اور علحیدہ علحیدہ ہمیں ہمارےمی خامیاں اور خوبیاں بتائے اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ کر ہمیں حوصلہ دیا کہ آپ سب قابل ہیں
اور ذندگی میں بہت اچھا کچھ کرسکتے ہیں۔ بعد میں پتہ چلا کہ اس طریقے کو آج کل کے دور میں
One on One with the students
کا نام دیا جاتا ہے۔
نوغدور میں جب سالک پبلک سکول کی نئی عمارت تیار ہوئی تو ہم سب بہت خوش تھے اور افتتاح سے ایک دن پہلے ہمیں اپنی اپنی کرسیاں شفٹ کرنے کو کہا گیا تو ہم سب کرسیاں اٹھائے دغار سے ہوکر بھاگ بھاگ کے سکول پہنچ گئے۔ افتتاح ہوا اور نئے اسکول میں درس شروع ہوا۔ اس اسکول سے بہت سارے سینئرز گریجویٹ ہوئے جو آج پاکستان اور پاکستان سے باہر اپنا لوہا منوا رہے ہیں۔
اسکے بعد سالک ڈگری کالج کی بنیاد رکھی گئی اور اس دوران سر دیدار مراد جو کہ پشاور یونیورسٹی سے ڈبل ماسٹرز کرکے آئے تھے اس درسگاہ کا حصہ بنا اور ساتھ ہی اسکول اور کالج کو مزید جدید کرنے کی کوشش کی جن میں ہاؤس سسٹم اور مختلف پروگرامات شامل ہیں۔
پرنسپل صاحب نے نوجوانوں کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے بی ایڈ، ڈی آئی ٹی وغیرہ کلاسز کا آغاز کیا اور یو سالک پبلک سکول سالک ایجوکیشن سسٹم میں تبدیل ہوا۔ محترم محمد علی صاحب نے طویل مدت تک اس درسگاہ میں گران قدر خدمات سرانجام دیے۔
تورکھوں میں تعلیم عام کرنے میں مرحوم صلاح الدین سر مظفر الدین اور ان تمام اساتذہ کرام کی خدمات گران قدر ہیں جو مختلف ادوار میں اس درسگاہ کے حصہ رہے۔ ساتھ ہی اور بھی پرائیوٹ اسکول ہیں جن میں اے کے ای ایس اسکول اور عارف پبلک اسکول شامل ہیں جن کی تورکھوں میں تعلیم کو عام کرنے میں گراں قدر خدمات ہیں۔
اس وقت بھی پرنسپل مظفر الدین صاحب اس سکول سسٹم کو مزید بہتر کرنے میں مصروفِ عمل ہیں اور اس کے لیے باہمی تعاؤن پر یقین رکھتے ہیں۔ اس سلسکے میں جو بھی این جی او یا دوسرے ادارے اس ادارے کیساتھ تعاؤن کرکے اس دور دراز علاقہ میں علم کی روشنی کو مزید پھیلانا چاہتے ہیں تو اُن کے لیے سالک ایجوکیشن سسٹم کے دروازے کھلے ہیں۔ اس درسگاہ میں بہت سارے ایسے سٹوڈنٹس ہیں اور گزرے ہیں جن کو سالک پبلک اسکول نے خود اپنی سکالرشپ میں پڑھایا۔ تعلیم میں تیزی کیساتھ اسٹوڈنٹس کے ضروریات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور اب بھی بہت سارے اسٹوڈنٹس ایسے ہیں جو نہایت مناسب اور کم فیس ہونے کے باوجود برداشت نہیں کرسکتے۔ اس سلسلہ میں بھی کوئی اسپانسر کرنا چاہے تو ڈیٹا آپ کو مہیا کیا جائے گا۔
بقول قا سم علی شاہ انسان علم حاصل کرتا ریے اور علم بانٹتا رہے تو صاحب علم کا درجہ پا لیتا ہیں۔