ویب ڈیسک
پاک فوج کا نام استعمال کر کے پولیس کے ٹاؤٹوں کی ڈی پی او اور پی آر او ٹو ڈی پی او اٹک کی ذاتی خواہش پرپولیس کے حق میں ریلی نکالنے کے خلاف فوری قانونی کاروائی کی جائے۔ تا کہ آئندہ کوئی پاک فوج کا نام اپنے ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی جرأت نہ کرسکے پاک فوج کے حق میں ریلی کا نام لینے والوں نے ڈی پی آفس جانے اور پُرامن احتجاج کرنے والے صحافیوں کے خلاف جھوٹے، من گھڑت اور بے بنیاد مقدمے درج کرانے کی روایت کو برقرار رکھا۔ تفصیلات کے مطابق اٹک کے صحافیوں کی جانب سے ڈی پی او ٹو پی آر او طاہر اقبال کے خلاف چار روز سے پرامن احتجاج کرنے والے تین صحافیوں کے خلاف جھوٹے، بے بنیاد مقدمہ پر تشویش کا اظہارکیا گیا۔ صحافیوں کا کہنا تھا کہ ہم اپنے تحفظات پر پی آر او سے معاملات خوش اسلوبی سے طے کر رہے تھے اور دو سینیئر صحافی وقوعہ کے روز بھی صحافیوں کا احتجاج کال آف کر وا کے مثبت بات چیت میں مصروف تھے۔ پی آر او کی جانب سے یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ مخالف گروپ کو ریلی نہیں نکالنے دی جائے گی۔ سینیئر صحافی ڈی پی او آفس سے باہر نکلے تو ایک ریلی نے شدید نعرے بازی کر کے حالات کو خراب کرنے کی کوشش کی اور جس کی فوٹیج سوشل میڈیا پر بھی موجود ہے۔ ریلی کے شرکاء کے ساتھ آئی ہوئی خاتون نے کچھ دیر قبل چوک فوارہ میں اپنے وڈیو بیان کے برعکس پی آر او کے کمرے میں تحریر کرائی گئی درخواست میں کسی اور کو اپنی قمیض پھاڑنے کا ملزم قرار دے دیا۔ ان کا متضاد بیان اس مقدمے کے بے بنیاد اور جھوٹا ہونے کی واضح دلیل ہے۔ لیکن اس کے با وجود پولیس نے عجلت میں بغیر تفتیش کیے صحافی ایاز خان کو گرفتار کر لیا جس سے پی آر او طاہر اقبال کی جانب داری واضح ہو جاتی ہے۔ ضلع کی صحافی برادری نے وفاقی و صوبائی وزیرِ داخلہ، وفاقی و صوبائی وزیرِ قانون، آئی جی پنجاب، ڈی آئی جی (احتساب)، آر پی او راولپنڈی سے مطالبہ کیا ہے کہ واقعے کی فوری عدالتی تحقیقات کرائی جائے۔ اور ذمہ داران کے خلاف بلا تفریق کاروائی کی جائے۔عرصہ دراز سے تعینات جانب دار پی آر او طاہر اقبال کا اٹک سے فوری تبادلہ کیا جائے تا کہ حالات کو انتشار کی جانب جانے سے بچایا جا سکے۔