بخشل تھلہو
ملکی سیاسی منظرنامے میں بھونچال مچا ہوا ہے، اس سے پہلے عالمی منظرنامہ پر بھی ایک طائرانہ نظر۔ چونکہ ممالک مختلف لیکن نظام تقریباً ایک ہے۔ توانائی کے سستے زرائع کی کمی، اقتصادی بحران اور مہنگائی نے تمام دنیا کو اپنے اثر تلے جکڑ کر رکھا ہے۔ تیسری دنیا، سندھ کے گوٹھوں کی طرح قرضوں اور قبضہ خوروں کی پکڑ میں ہے۔ افریکا بھی بحرانات، خانہ جنگلیوں (لبیا، اتھوپیا، سوڈان) اور قحط (سومالیہ) کا شکار ہے۔ پڑوس پر نظر ڈالتے ہیں تو افغاستان کے عوام اپنے بچے بیچنے پر مجبور دکھائی دیتے ہیں اور سری لنکا میں تو کل بھی کرفیو توڑ کر مہنگائی اور سرکار کے خلاف احتجاج کیا ہے۔ چین تو پہلے ہی اقتصادی اور عسکری تنگی کو منہ دے رہا تھا اور مشرقی وسطیٰ (شام، عراق، یمن) میں تو کئی دہائیوں سے آگ پہلے سے ہی لگی ہوئی تھی مگر اب یوکرین کے جلنے سے، سینٹرل ایشیائی ریاستوں کے ساتھ، یورپ اور امریکہ بھی جنگ کی تپش کو محسوس کر رہے ہیں، جس سے بین الاقوامی سطح پر ایک نئی صف بندی کا عمل بھی شروع ہو چکا ہے۔ حال ہی میں صرف لاطینی امریکہ سے اچھی خبریں سننے کو ملی، جہاں پر چلی اور کولمبیا میں بائیں بازو کی پارٹیوں نے اقتدار تک رسائی حاصل کی۔ نہیں تو اپنے ملک کی طرح بائیں بازو کی سیاست تقریباً خود کو سنھبالنے میں اور دایاں بازو ہی دائیں بازو سے لڑنے میں مصروف ہے۔
کہا کرتے ہیں کہ کسی گاون میں رات کے وقت ایک بکری ایک بڑے رھائشی کمرے میں داخل ہوئی تو سوئے ہوئے ایک بزرگ نے بکری کو باہر نکالنے کا حکم دیا، انکے بیٹوں میں سے ایک پاگل بیٹا اٹھا کھڑا ہوا اور بکری کے پیچھے بھاگتے ہوئے لالٹین سے ٹکرایا، وہ گرانے بعد پھر جا کر گھر کا سامان بکھیر دیا اور بلا آخر بکری کو پکڑنے کی کوشش میں اپنا گھٹنا بزرگ کی منہ پر اتنی زور سے دے مارا کہ بزرگ کے جبڑا نکنے والا تھا، بزرگ اپنی بچی ہوئی طاقت سمیٹ کر چلایا کہ ‘حرامخورو بکری کو چھوڑو پہلے اس پاگل کو باہر نکالو۔’ بدانتظامی، مہنگائی اور کرپشن کی بکری کے ہاتھوں ملکی معیشت کی تباہی بھی اپنی جگہ مگر ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کے سوال پر پاگل کا گھٹنہ عسکری اسٹیبلشمنٹ کو لگا تو انہوں نے پیچھے ہٹ کر اس بزرگ کی طرح آخری آواز دی۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ ڈپٹی اسپیکر کی طرف سے عدم اعتماد کو منسوخ کرنا، ردعمل میں حزب اختلاف کا خود کارروائی چلا کر عمران پر عدم اعتماد کی تحریک کامیاب کر کرے انہیں معزول کرنا اور صدر کی جانب سے اسیمبلی تحلیل کرنے بعد حکمرانوں کی سیاست بحران کی جانب تیزی سے جا رہی ہے۔ معزول حکومت نے اپنے طور پر اس امریکہ کی عالمی سازش کو ناکام بنایا ہے جس کے ایک اور ادارے ‘آئی ایم ایف’ کو اپنی اسٹیٹ بینک لکھ کر پہلی ہی دے دی تھی۔ حزب اختلاف کے معزول اسیمبلی ممبران نے آئینی بحران کا رونا رو رہے ہیں۔ اور آخر عدالت عظمیٰ نے بھی اتوار کے دن آ کر خود کو ظاہر کیا۔
لیکن کیا یہ معاملہ آئینی تشریح یا ان کے بحران کا ہے؟ کیا موجودہ صورتحال، اسٹیبلشمنٹ کے اندرونی تضاد (جنرل باجوہ اور فیض حمید)، ان کی فریق بننے یا خاص وقت میں غیر جانبدار بننے کا نتیجہ ہے؟ یا پھر واقعی امریکی اور چین روسی تضاد ہے جو اس ملک کے اندر سب کچھ طے کرتا ہے۔ یہ تمام تضادات، اسباب اور علامتیں بھی ہونگیں لیکن صرف یہاں تک رہنا ایسا ہے جیسے بنیادی اسباب کو چھوڑ کر علامتوں کو پکڑے رکھنا۔ یہ تاریخ کے اس اہم سبق کو بھولنے کے برابر ہے کہ تبدیلی کا بنیادی محرک بیرونی نہیں اندرونی، اوپر نہیں نیچے، ریاست نہیں سماج، حکمران نہیں محکوم طبقہ، آقا نہیں غلام ہوتے ہیں۔ مہنگائی، بیروزگاری، دربدری، بدامنی، ناانصافی اور غیر یقینی کے منہ میں عوام ہیں، جس کی بے چینی کی بھاپ کو حکمرانوں کی پرانی بنی ہوئی انجن سنھبال نہیں سکتی، جس کے نتیجے میں ایک گراری بیکار ہونے سے دیگر گراریاں بھی آہستہ آہستہ خراب ہونے لگتی ہیں، لیکن اب بھی معاملہ حکمرانوں کے ہاتھ میں ہے۔ چونکہ ریاست کو حقیقی معاشی بحران لگا ہوا ہے، لیکن ریاست کے معاشی بحران کی سیاسی صورت ابھی پنپ رہی ہے۔ گیم عمران خان کے ہاتھوں سے نکل کر اپوزیشن کے ھاتھہ آئے یا اپوزیشن کے ہاتھوں سے نکل کر عدلیہ کے پاس آئے یا اس سے بھی نکل کر ملک کی عسکری اسٹیبلشمنٹ (جسے نواز شریف جیسے غیر نظریاتی پنجابی نے بھی ‘ڈیپ اسٹیٹ’ کے نام سے پکارا) کے ہاتھ میں آئے لیکن گیم اب بھی حکمران طبقے یا کافی حد تک محنت کے خلاف سرمایہ کے ہاتھ میں ہے جو ریاست اور معیشت کے ساختیاتی مسئلے کو اسکرپٹ بنا کر، باہر باہر سے، جگاڑ اور جوڑ توڑ کر کے حل کرنا کا جتن کرتا ہے۔
مسلم لیگ (ن) اپنی سادگی یا غصے کی صورت میں پی ڈی ایم کے ذریعے پنجاب کو اسٹیبلشمنٹ کے خلاف موبلائیز کر رہی تھی اور ایک قدم آگے جا کر کھیلنے کیلیے تیار تھی لیکن پیپلز پارٹی ایسی جمہوریت میں یقین نہیں رکھتی جس میں عوام متحرک ہو کر احتساب کرنے کی پوزیشن میں آئے۔ اس طرح اس سے پہلے کہ پی ڈی ایم خود کے اندر غیرپارلیامانی عوامی سیاسی قوتوں کو شامل کرے پی پی پی اس اتحاد سے نکل کر ایک طرف اسٹیبلشمنٹ کی نظر میں اچھی بنی اور دوسری طرف ن لیگ کو صبر کی تلقین کر کے عمران کو ہٹانے کا یقین دلایا۔ ایسے ہی ایک اسکرپٹ بنا جس کی بڑی باتوں کے اندر ایک بات اسٹیبلشمنٹ کا اک قدم پیچھے جا کر ‘نیوٹرل’ بننا تھا۔ عمران خان نے تو کہہ بھی دیا کہ نیوٹرل جانور ہوتا ہے، لیکن ریاست کے ایک ادارے کی جانب سے خود کے بارے میں نیوٹرل ہونے کی بات کرنے سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ سویلین طاقت کے ترازو کے دونوں پلڑوں میں سے کسی ایک کے نیچے مقناطیس لگانے کی طاقت کس کے پاس ہے۔
سواروں پر سواری فوج کی ہے
زمين ساری کی ساری فوج کی ہے
ميں ايسے کھيل کے ميدان ميں ہوں
جہاں ہر ايک باری فوج کی ہے۔
ایسے ہی اس اسکرپٹ پر عمل تو پہلے سے ہی شروع ہوگیا لیکن بات اکتوبر 2021 میں بیرونی حلقوں میں کھل کر سامنے آنے لگی۔ اس اسکرپٹ کے مطابق حزب اختلاف کی جماعتوں کو اپنی اپنی باری پر اربوں روپے کی سرمایہ کاری کر کے اسلام آباد میں پاور شو کرنا تھا اور اور مزید زیادہ سرمایہ کاری کرکے الیکٹبلز کا دام لگانا تھا اور اس عمل کو ضمیر کی بیداری کا خوبصورت نام دیا گیا۔ یہ کہانی کم و بیش تبدیلی سے اسلام آباد کے تھیٹر میں اب بھی چلے گی اور عمران کے اعتماد کھونے کے بعد نئی صورت میں جاری رہے گی، شاید ایک مزید بڑے سیاسی بحران کی طرف لے کر جائی گی اور ایسے عوام آہستہ آہستہ تاریخی جبر تلے تماشبین سے بڑھ کر خود ڈائریکٹر اور اداکار بنے گی۔ لیکن اس کیلیے ضروری ہے کہ موجودہ سیاسی بحران میں قوم، عوام، محنت کش، عورت اور ماحول دوست سیاسی قوتیں پہلے سے زیادہ سرگرم کردار ادا کریں۔ محکوموں اور مظلوموں کی نمائندگی کر کے تنظیمی طور پر عوام اور بائیں بازو کے وسیع تر اتحاد کو سیاسی طور پر منظم کریں تاکہ ایک جمہوری وفاق، ریاست اور سماج کی ساختیاتی تبدیلی یا ایک نئے عمرانی معاہدے کی جانب ٹھوس اقدامات اٹھائیں جا سکے۔ اس عمل کے دوران یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ کسی آمر کے برعکس ہم آئین کی بالادستی کا مطالبہ تو کرتے ہیں لیکن ہم کانسٹیٹوشنلسٹ نہیں ہیں۔ ہم اسٹوڈنٹس یونین کی بحالی، نجکاری کے خاتمے، آئینی اور زرعی اصلاحات سمیت تمام اصلاحات کے حق میں ضرور ہیں لیکن ہم اصلاحات پسند نہیں ہیں۔ دوسری طرف وہ انقلابی جو کپڑے خراب ہونے کے خوف سے صفائی کے عمل کا حصہ نہیں بنتے اور اگر بنتے ہیں تو ایسے کہ ہاتھ میں صرف جھاڑو تھام کر تمام زور دوسروں کو درست صفائی کے طور طریقوں ہر بھاشن دے۔ ان کا تعلق انقلابی لفاظی سے تو ہو سکتا ہے مگر انقلابی عمل سے نہیں۔ کہتے ہیں کہ ایک بادشاہ کو معلوم ہوا کہ اس کے راج میں ایک سیانہ فقیر ہے، انہیں خیال آیا کہ جا کر ان سے کوئی گیان حاصل کروں۔ تو زندگی کی معنی سمجھنے کیلیے اس فقیر کے پاس آیا، فقیر نے انہیں کچھ کہے بنا صرف گندم کا ایک دانہ دیا۔ بادشاہ نے اس دانے کو سونے اور جواہر سے بنی چھوٹی صندوقچی میں رکھ دیا اور ہر روز اٹھ کر اسے دیکھتا تھا کہ وہ دانہ انہیں کچھ سمجھا سکے۔ مہینے کے اواخر میں جب انہیں کچھ سمجھ نہیں آیا تو پھر سے فقیر کے پاس گیا کہ بات تو وہیں کی وہیں پر ہے۔ فقیر کی طرف سے دانے کے بارے میں پوچھنے کے بعد بادشاہ نے پیٹی آگے کی تو فقیر نے کہا کہ جاؤ پہلے اس دانے کو زمین میں ڈالو جہاں اس کی جگہ ہے، پھر جا کر وہ دانہ تجھے زندگی کی معنی بتائے گا جو ہے اپنی نفی کر کے پیداوار دینا۔ اسی طرح ہمارے کچھ قومپرست، مارکسسٹوں اور جمہوریت پسندوں کو اپنی ترقی پسندی اور قوم دوستی اتنی پیاری ہے کہ ان کی وہ دانش (سونے) کی صندوقچی میں بند پڑی ہوئی ہے۔ وہ ہر اس ترقی پسندی اور قوم دوستی پر تنقیدی ہوتے ہیں جو زمین سے ایک ھوکر تھوڑی میلی ھوئی ہے۔ قطعی اور پیور انقلاب کے خیال سے اس حد تک پیار کہ زمین پر موجود ہر انقلاب کے امکان کو دیکھ کر رد انقلاب کا گمان گزرے، افلاطونی انقلابیت ہے۔ جس سے ہمارہ کوئی تعلق نہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام تک آتے آتے ‘آزادی’ کا فرد کی انفرادی اور آئینی حق کی حیثیت میں اظہار ہونا تاریخی طور خود ہی ایک بڑا انقلاب ہے۔ حتیٰ کہ اس آزادی کو حقیقی سیاسی معاشی حیثیت میں حاصل کرنے کا خواب ابھی شرمندہ تعبیر نہیں ھوا، جب ذاتی ملکیت کے خاتمے کے بعد ان تمام غلامیوں کا خاتمہ ہوگا جن کے پاس ایک نہیں دوسری شکل میں عالم انسانیت کی آزادی آج بھی گروی پڑی ہوئی ہے۔ صوفی فقیر اپنی زبان میں کہتے کہ "دکھدی رہسی تہ ٻل پویسی”۔ اس معنی میں آزادی ایک خاص سیاسی سماجی کایاپلٹ سمیت ایک تاریخی عمل ہے۔ سائیں جی ایم سید بھی آزادی کے سوال پر اس بات کی روح کو پکڑ کر لطیف کا بیت گنگنایہ کرتے تھے کہ
جي قِيامَ مِڙَنِ، ته ڪَرَ اوڏا سُپِرِين؛
تِهان پَري سُڄَنِ، واڌايُون وِصالَ جُون
(اگر محبوب کا دیدار یوم حساب کو بھی ھو تو یہ بھی قریب لگتا ہے. کیونکہ وصال کا گمان تو اور دور کی بات لگتی تھی/ھے)
اس کا مقصد اصلاحات پسندی یا گریجوئلزم میں پھنسنا نہیں ہے۔ مقصد بڑا اور قدم چھوٹا اٹھاؤ، میر کے الفاظ میں کہ :
نگاہ بلند۔ سخن دلنواز۔ جان پر سوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لئے
یہ بھی سچ کہ عوام میں جڑیں اور تاریخ کا شعور رکھنے والی تنظیمیں بخوبی جانتی ہیں کہ کیسے لمحے خطا کرتے ہیں اور صدیاں سزا پاتی ہیں۔