یدِ بیضا
عمران خان ایک ہائبرڈ رجیم کا تھوپا گیا نمائندہ تھا جس نے جاتے جاتے نہ صرف اپنی عزت کو داو پر لگایا بلکہ اپنے لانے والوں کے لئے بھی سبکی کا باعث بنا اور یہ بہت اچھی نظیر تھی۔ مشکل مگر یہ ہے کہ عمران خان نے ایک ایسی نسل کو پروان چڑھایا جس کی دلیل بدکلامی سے شروع ہوتی ہے اور گالی پر ختم ہوتی ہے۔ افسوس ناک ہے مگر یہ وہ نسل ہے جس کے سامنے پاکستان کا نقشہ رکھیں اور سوال کریں کہ لورالائی کہاں واقع ہے تو یہ اوبر کا ایپ کھول کر ڈیسٹینشن میں لورالائی لکھ لیتے ہیں مگر دیانتداری سے سمجھتے ہیں کہ عمران خان حکومت میں رہے تو نہ صرف کشمیر و فلسطین فتح کرے گا بلکہ استنبول سے ریاض تک ان کا طوطی بولتا رہے گا۔ ان کی معاشی سمجھ بوجھ کی حقیقت یہ ہے کہ ایسیٹ اور لائبیلیٹی میں تمیز کرنے سے قاصر ہیں مگر سمجھتے ہیں کہ جو شخص ایک خیراتی ہسپتال چندے سے بنا سکتا وہ ملک کی معیشت کو نہ صرف درست سمت پر گامزن کر سکتا ہے بلکہ باہر کے ملکوں میں پڑے دو سو ارب ڈالر بھی واپس لے کر آئے گا۔ آپ پوچھیں انقلاب فرانس کب برپا ہوا تھا، چرچل کون تھا، نیٹو کیا ہے تو جواب میں فرماتے ہیں آپ نے کل رات ارشاد بھٹی کا کلپ دیکھا؟ ان سے آئین کے تقدس کا سوال پوچھیں تو جواب میں فرماتے ہیں کہ اگر چور لٹیروں کو آئین کہتے ہیں تو بے شک مارشل لاء آجائے۔
ایک دوسری نسل عمران خان کے حامیوں کی ایسی بھی ہے جو یا تو خیراتی اداروں سے ڈالر کماتے ہیں یا سرکاری نوکری میں پچیس سال مال بنا کر اب چشم زدن میں ملک ٹھیک کرنا چاہتے یا پھر مغربی ملکوں مقیم رہ کر تمام آسائیشیں اور آزادیاں انجوائے کر کے پاکستان کو نہ صرف ٹھیک کرنا چاہتے ہیں بلکہ اسے ریاست مدینہ کا ماڈل بھی بنانا چاہتے ہیں۔ یہ عبقری معروض کی حقیقت اور سیاست کے ابجد سے یکسر ناواقف ہیں۔ ان کے خیال میں معاشرہ کوئی نامیاتی مظہر نہیں ہے بلکہ لاٹھی چارج سے ٹھیک کرنے والا ہجوم ہے۔
آپ نے اکثر ان کی زبان سے سنا ہو گا کہ خان نہیں تو کون۔ ان دونوں طبقات میں یہ فکر راسخ کر دی گئی ہے کہ خرابی کی اصل جڑ سیاسی جماعتوں کی بدعنوانی ہے۔ ان کے خیال میں پیپلز پارٹی سے لے کر مسلم لیگ نون تک اور اے این پی سے لے کر بی این پی تک سب جماعتیں اس ملک کو لوٹنا چاہتی ہیں۔ آپ سنجیدگی سے کبھی ان کے سامنے سوال رکھیں کہ چلیں آپ کا یہ مفروضہ ہم بغیر کسی سوال کہ تسلیم کرتے ہیں کہ نوازشریف سے لے زرداری تک سب چور ہیں اور پیپلزپارٹی سے لے کر بی این پی تک سب اس ملک کو لوٹنا چاہتے ہیں تو آپ بتائیں کہ ان سیاسی جماعتوں اور ان سیاستدانوں سے اس ملک کو نجات کیسے دلائی جائے؟ ان کے متوقع جواب دو ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ دو درجن سیاستدانوں کو لٹکاو تو ملک ٹھیک ہو جائے گا اور دوسرا یہ کہ مارشل لاء کے علاوہ ان کا کوئی علاج نہیں۔ ایسے دلائل صرف یہ ریٹائرڈ بابو نہیں دیتے بلکہ چالیس سالہ روشن صحافت کے دعویدار لوگ نیشنل ٹیلیویژن پر بیٹھ کر باقاعدہ رعونت سے دیتے ہیں۔ آپ بربنائے بحث بات آگے بڑھائیں کہ چلیں دو درجن سیاستدانوں کو لٹکا دیتے ہیں مگر ان کے کروڑوں سیاسی کارکنوں کا کیا کرنا ہے؟ یہاں تک پہنچ کر ان کی منطق تمام ہو جاتی کیونکہ ان علم ہی نہیں کہ معاشرہ کیسے بنتا ہے، آئین کیوں بنایا جاتا، ریاست حکومت اور معاشرے کا باہمی تال میل کیا ہے، سیاسی جماعتوں کیوں وجود میں آتی ہیں جمہوری عمل کس چڑیا کا نام ہے۔
انہیں یہ علم ہی نہیں کہ نذیر عباسی کون تھا، حیدرآباد سازش کیس کیا تھا، بے نظیر بھٹو کی شہادت نے کونسا خلا پیدا کیا، جمہوری عمل پر چار مرتبہ ڈاکے ڈالنے کے کیا نقصانات ہوئے۔ ان کو بس چشم زدن میں ملک ٹھیک کرنا ہے گویا ملک نہیں ہے بلکہ کمپیوٹر کا سافٹ وئیر ہے جسے صرف ری انسٹال کیے جانے کی دیر ہے۔
یہ طرز فکر، علم اور کتاب کی دین نہیں بلکہ طاقت پر قابض طبقات نے جان بوجھ کر اس ملک میں جمہوری مکالمے اور سیاسی عمل سے انکار کے روئیے پر طویل سرمایہ کاری کی تاکہ جمہوری عمل کو کمزور رکھ اقتدار کو سلب کرنے راستہ ہمیشہ ہموار رہے۔
پاکستان بننے کے بعد مشکل یہ پیش آئی کہ یہاں سیاسی جماعتیں اور سیاسی عمل دونوں کمزور تھے جبکہ افسر شاہی اور فوج دونوں تاج برطانیہ کے تربیت یافتہ تھے جن کا بنیادی کام تاج برطانیہ کا تسلط برقرار رکھنا تھا۔ تاج برطانیہ کی پسپائی کے بعد سیاسی نظام میں موجود خلا سے ان طبقات کے لئے سیاسی میدان میں اپنا تسلط جمانے کا کھلا میدان میسر ہوا۔ یوں پاکستان کے آغاز ہی سے جمہوری عمل پر ان کا تسلط قائم ہوا اور جمہوری عمل کو مستقل بنیادوں پر سبوتاژ کرنے کی راہ ہموار ہوئی۔ جب جب جمہوری عمل نے اپنے پاوں پر کھڑا ہونے کی کوشش کی تب تب میرے عزیز ہم وطنوں کی بازگشت سنائی دی۔ پھر وہی پرانا راگ الاپا جاتا کہ سیاسی جماعتوں ملک کا بیڑا غرق کر دیا اور یہ سیاستدان سب بدعنوان ہیں، اب ہم بنیادی جمہوریت لائیں گے جس سے نئی روشنی پھیلے گی، اب ہم غیر جماعتی جمہوریت لائیں گے جس سے اسلام کا بول بالا ہو گا، اب ہم روشن خیال جمہوریت لائیں گے جس سے ہم دنیا کی عظیم قوم بنیں گے اور اب ہم ہائبرڈ جمہوریت لائیں گے جس میں لوگ باہر سے آکر نوکریاں مانگیں گے۔
اب سیاسی جماعتوں کے خلاف پھر وہی بیانیہ بنایا جارہا ہے کہ سیاسی جماعتوں نے ایک بار پھر غیر جمہوری قوتوں سے سازباز کر لی۔ دیکھیے سیاسی عمل سماجی عمل کی طرح ہی ایک نامیاتی عمل ہے۔ سیاسی جماعتوں نے جب بھی جمہوری عمل کی جانب سفر کا آغاز کیا تو سیاسی عمل منقطع کیا گیا۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ اس بیچ سیاسی جماعتوں نے اقتدار میں شمولیت کے لئے ان غیر جمہوری قوتوں سازباز کی۔ تاہم یہ ساز باز ہر بار مفاد کے لئے نہیں ہوئی بلکہ آمریت کے ہاتھ سے حق حکمرانی کا اختیار عوامی نمائندوں کو منتقل کرنے کے لئے طاقت و اقتدار پر قابض طبقات سے مفاہمت ان کی مجبوری رہی کیونکہ حق حکمرانی کا عوامی اختیار سلب آغاز ہی سلب کیا گیا تھا۔ اس اختیار کی واپسی کے لئے سیاسی جماعتوں نے وہ قربانیاں دیں جس کی نظیر ملنا کم ہے۔ عرض مدعا یہ ہے کہ اس ملک کی سیاسی جماعتوں نے ہزاروں کارکنوں اور سینکڑوں رہنماؤں کی قربانیاں دی ہیں۔ یہ لوگ اس سماج کی حقیقت ہیں۔ آپ لاکھ سیاسی جماعتوں کو بدعنوان اور چور کہتے رہیں مگر یہی سیاسی جماعتیں عوام کے حق حکمرانی، جمہوری عمل کے تسلسل اور آئین کے تقدس کے ضامن رہیں گی۔