Baam-e-Jahan

قراقرم یونیورسٹی گلگت کے انتظامیہ کی طرف سے خواتین کے لئے ڈریس کوڈ، سوشل میڈیا پر شدید رد عمل

ویب ڈیسک


قراقرم یونیورسٹی گکگت کے انتظامیہ نے حال ہی میں خواتین کے لئے ڈریس کوڈ کا اعلان کیا ہے۔ جس پر سوشل میڈیا میں شدید رد عمل آیا ہے۔ سول سوسائٹی اور خواتین کے حقوق کے کارکنوں نے اس پر تنقید کیا ہے اور اسے واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ عوامی ورکرز پارٹی کے رہنماوں نے اس نئے ضوابط کے اطلاق کو حدف تنقید بنایا ہے اور اسے بیمار ذہنیت اور دقیانوسی کی عکاسی قرار دے ہے۔ عوامی ورکرز پارٹی کے رہنماوں بابا جان، اخون بائے، آصف سخی اور واجد نے کہا ہے کہ اس قسم کے فرسودہ پابندیوں کے ذریعے خواتین کو آزادانہ سوچ اور اپنی صلاحیتوں کے اظہار سے روکنا اور انہیں قرون وسطی کے جہالت کے دور میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔ انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی انتظامیہ خواتین کے خلاف بڑھتے ہوئے ہراسگی کو روکنے اور طلباء کے شعور کو بلند کرنے اور گرتی ہوئی معیار تعلیم کو بہتر کرنے کی بجائے اس قسم کے مصنوعی اور فرسودہ طریقوں سے خواتین کو ترقی اور اعلی تعلیم سے روکنے کی کوشئش ہے جس کی ہم مذمت کرتے ہیں۔ سماجی کارکن جوبلی بانو نے اپنے سوشل میڈیا پیج پہ اس ڈریس کوڈ پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ صرف لڑکیوں کے لئے اس قسم کی پابندیاں کیوں، لڑکوں کے لئے بھی اس طرحکاش یہ منافق تنگ زہن ، نشے کا استعمال، چوری چکاریوں، تعصب اورعورتوں کو ہراسان کرنا اور دیگر بد فعلیوں کو روکنے میں بھی متحرک نظر آتے۔ ایسے ہدایات جاری کر رہے جیسے یو نیورسٹی سے آئین سٹائین نکلنے والے تھے کہ عورتوں کے لباس نے سارے مردوں کی قابلیت پر سلاسل لگا دئیے۔ جب ادارے اپنے مینڈیٹ ڈلیور کرنے میں ناکام ہوتو ایسے شو شا مذہب اور ثقافت کی ٹھیکداری سے کام چلا لیتے ہیں ۔ اسکی وجہ ان کاموں پر محنت نہیں لگتی اور آپکی کمپنی کی مشہوری بھی🤔🤔🤔 میری دوخواست ہے اب لڑکیاں بھی لڑکوں کے لیے ڈریس کوڈ کا انتخاب کرئے –
تعلیمی ادارے کا مینڈیٹ معیاری تعلیم مہیا کرنا ہے جو کوئی خاص نظر نہیں آرہا ، اسطرح کے بے تکی احکامات سے خواتین کو ہراسان اور ڈرانے دھمکانا کا لائسنس بھی مل جائے گا اور یہی حرکت مودی کرئے اپنے تعلیمی اداروں میں لباس کا چناؤ تو یہ لوگ واویلا کرتے ہیں۔ عدالت میں چیلنج کریں کہ ایک تعلیمی ادارہ اپنے مینڈیٹ کے مطابق کام کرئے کوئی خاص گروپ پریشر میں یہ کام کروا رہا تو ایکشن لے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں