Baam-e-Jahan

انسان اور کرہء ارض

MAN AND ENVIORNMENT

فرہاد یوسفی


ہم یہ پیشن گوئی کرسکتے ہیں کہ مستقبل کا انسان احساسات اور صلاحیتوں کے حوالے سے آدھا انسان اور آدھا جینیٹک انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی کا شہکار ہوگا۔

اس دعوے کو ہم پیشین گوئی یا صرف مفروضہ اس لیے نہیں کہہ سکتے کہ یہ اب خالی خیال نہیں رہا بلکہ اس پر عملی کاروائ شروع ھوکر زور و شور سے جاری بھی ہے اور یہ طے ہے کہ مستقبل کا انسان آرٹیفشلی انٹیلیجنٹ اور ٹرانس ھیومن ھوگا اور ٹرانس ھیومن کا مطلب ہے انسان کا دوسرا ورژن جس کو بیالوجیکل زبان میں ھوموسیپئن 2 بھی کہتے ہیں۔

مگر ٹھیرئیے! ابھی انسان کے اس دوسرے ورژن پر بحث کرنے سے پہلے ہم اس بات پر غور کریں کہ انسان کے آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے ساتھ ساتھ ٹرانس ھیومن کے مرحلے میں داخل ہونے تک خود اس زمین کی فضا کی حالت کیا ھوگی اور تب تک زندگی کی نشونما کے لیے زمین کی فضا کس حد تک سازگار رہے گا؟

انسانی زندگی کا دارومدار زمین کی فضا میں موجود مختلف گیسوں کی تناسب پر ہے مگر ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ماحول کی کثافت میں کاربن ڈائ آکسائڈ گیس کی زیادتی کیوجہ سے اضافہ ھوتا جارہا ہے اور اسی وجہ سے زمین کا درجہ حرارت دو ڈگری بڑھ گیا ہے، اس اضافے پر قابو پانے کے لیے اگر سنجیدہ اقدمات نہ کئے گئے تو پھر یہ کہنا مبالغہ نہ ھوگا کہ مستقبل میں انسانیت کی داستاں سنانے والا بھی زمین پر کوئی نہ رہے گا۔
اس حوالے سے آخری امیدیں کوپ 26 کانفرنس سے وابستہ تھیں جو کہ ” بسا اے آرزو کہ خاک شدی” کے مصداق دسمبر 2021 میں انتہائ غیر سنجیدگی کے مظاہروں کے ساتھ اختتام پذیر ھوا اور جہاں اس کانفرنس میں امریکہ کے صدر جوبائیڈن سوتے ھوے پائے گئے تو وہاں انڈیا نے بھی اپنی توانائ کا سب سے بڑا زریعہ یعنی کوئلہ جوکہ ھوا میں 46% آلودگی کی وجہ ہے کو جلانے سے دستبردار ھونے سے صاف انکار کر دیا اور یوں یہ کانفرنس تقریبا ” کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے” کے مصداق چند سو ملین ڈالرز کا فراغ دلانہ پیکج غریب ترقی پذیر ممالک کی جولی میں دھان کرکے اپنے اپنے تباہ کن سرگرمیوں میں پھر سے مصروف ھوگئے۔

ہم یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کاربن ڈائ آکسائڈ کی مقدار بڑھنے سے مستقبل میں جانوروں کی زندگی پر کیا اثرات مرتب ھوسکتے ہیں
زمین پر تین ٹریلین درختان موجود ہیں جو کہ زمین کی خشکی کا 31 فیصد حصہ بنتا ہے مگر اس کے باؤجود زمین کی فضا میں آکسیجن کا 70 سے 80 فیصد ہم سمندر سے حاصل کرتے ہیں جبکہ درختان سے ہم کو 20 تا 30 فیصد آکسیجن حاصل ھوتا ہے اور یوں ھوا میں آکسیجن کا تناسب 21 فیصد بنتا ہے پس یہ ثابت ھوا کہ اصل مسلہ درختان کی کمی کا نہیں بلکہ ماحول کی آلودگی کا ہے جس کا ارتکاب ترقی یافتہ ممالک انتہائ ہوس ناکی و بےحسی کے ساتھ کر رہے ہیں اور اس کے بدلے میں ترقی پذیر مجبور ممالک کو شجرکاری کی مد میں خیرات کے پیسے دیتے ہیں اور یوں غریب ممالک کو اپنے زاتی قدرتی وسائل کے استعمال سے محروم رکھ کر ان کی معیشت کو برباد کرنے کی سازشیں بھی کی جا رہی ہے حالانکہ اس مسلے کا حل دراصل شجرکاری نہیں بلکہ اصل مسلہ آلودگی کا ہے جس کے سبب سے ھوا کثیف ھوکر درجہ حرارت بڑھ رہی ہے اور ھوا میں کاربن ڈائی آکسائڈ کی مقدار بڑھنے کے ساتھ ساتھ مصنوعات کا زہریلہ مواد سمندر میں الجی اور دوسرے سمندری پودوں کو اور سمندری حیات کو تباہ کرنے کا سبب بن رہا ہے مگر اس کے باؤجود سرمایہ داروں کایہ ہوسناک گروہ انسانوں کی توجہ شجرکاری پر مرکوز کرکے خود بڑے آرام سے ھوا مٹی اور پانی کو تباہ کرنے کے خوفناک منصوبے پر عمل پیرا ہے۔

اس تباہی پر اعتراض کے جواب میں چند ملین ڈالرز شجرکاری کے نام پر بھیک کی شکل میں دے کر موت کے یہ سوداگر انسانوں کی کم علمیوں اور مجبوریوں کا فائدہ اٹھاکر اپنے ماحول دشمن سرگرمیاں پھر سے جاری رکھتے ہیں جبکہ موت کے ان سوداگروں کے خلاف بولنے کا یہ آخری موقع ہے کہ برائے خدا انسانوں کو سہولیات کا لالچ دے کر تباہی کے سامان مذید نہ بڑھائے جائیں، درخت لگانا بے شک ماحول اور زمین کی خوبصورتی کا سبب ہے مگر یہ کہنا کہ انسان صرف درخت لگاکر آکسیجن پیدا کرکے زندگی کو تباہی سے بچا سکتا ہے ایک ٹرک کی بتی کے پیچھے لوگوں کو لگانے کے سوا کچھ بھی نہیں اور اس کی مثال معدے کے اس مریض کی سی ہے جو معدے کے درد کے لیے اومیپرزول کی گولی کھاکر اوپر سے پیٹ کو بدپرہیزانہ الم غلم سے بھر دیتا ہے جس کا لازمی نتیجہ معدے کے شدید السر یا کینسر کی صورت میں ہی نکلے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے