Baam-e-Jahan

قدرتی آفات اور گلگت بلتستان حکومت کی غفلت

ہنزہ سیلاب hunza flood

اسرارالدین اسرار


گلگت بلتستان چاروں طرف بلند و بالا پہاڈوں، تند و تیز دریاوں، ندی نالوں اور دیو ہیکل گلیشرز میں گرا ہوا علاقہ ہے۔ یہاں سال بھر اور خصوصا موسم گرما میں گلیشرز کے پھٹنے اور برفانی تودوں کے گرنے کے واقعات کے علاوہ خوف ناک سیلابی ریلوں کی آمد ندی نالوں میں طغیانی، چھوٹے بڑے پہاڑوں کے سرکنے یا مٹی کے تودے گرنے یا زلزلے کے نتیجے میں ہونے والی سلائیڈنگ جیسی قدرتی آفات کا خطرہ ہر وقت موجود رہتا ہے۔ یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا گلگت بلتستان قدرتی آفات کی آماجگاہ ہے۔


مذکورہ قدرتی آفات کے نتیجہ میں علاقہ میں بنیادی مواصلاتی نظام درہم برہم ہونے کے ساتھ ساتھ سالانہ اہم سڑکوں ، پلوں، فصلوں، میوہ جات، نجی املاک اور انسانی جانوں کو ناقابل تلافی نقصان بھی پہنچتا رہتا ہے۔ سینکڑوں لوگ بے گھر ہوجاتے اور ان کی مشکلاقات میں بے پناہ اضافہ ہوجاتا ہے۔ ان حالات سے نمٹنے کے لئے آج تک حکومتی سطح پر باضابطہ کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئ ہے۔ جب یہ آفات وقوع پذیر ہوتی ہیں تو شور شرابہ ہوتا ہے اس کے بعد خاموشی چھا جاتی ہے۔ قدرتی آفات سے نمٹنے اور موسمیاتی تبدیلیوں کے نتجہ میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے متعلق آگاہی پر بظاہر چند سرکاری و غیر سرکاری ادارے کام تو کرتے ہیں مگر ان سب کے پاس جدید ٹیکنالوجی، مطلوبہ مشینری، ٹیکنکی و مالی اور انسانی وسائل دستیاب نہیں ہیں جن کے ذریعہ بروقت اقدامات سے ان آفات کے نقصانات کو کم سے کم کرنے یا ان کا کماحقہ ازالہ کیا جاسکے۔


گذشتہ روز مشہور ششپر گلیئشر کے پگھلنے سے حسن آباد نالے میں جو طغیانی پیدا ہوئی تھی اس کی وجہ سے شاہراہ قراقرم (سی پیک) میں حسن آباد کے مقام پر انتہائی سٹریٹیجک اہمیت کا حامل پل کے منہدم ہونے کے نتیجہ میں جہاں سی پیک پر آمد ورفت رک گئ ہے وہاں سیاحت متاثر ہونے کے علاوہ مواصلاتی نظام، واٹر چینلز، بجلی گھروں سمیت مقامی آبادی کی فصلوں، نجی املاک اور درختوں کو بڑا نقصان پہنچا ہے۔ دریں اثناء سیاحوں سے بھری ایک گاڑی متبادل اور تنگ راستے سے گزرتے ہوئے حادثہ کا شکار ہوئی ہے جس سے کئ سیاح ذخمی ہوئے ہیں۔ اس سے قبل ہنزہ میں عطاء آباد کا دلخراش واقع اور کئ دیگر واقعات کی بری یادیں اب تک لوگوں کے دلوں میں تازہ ہیں۔ بارہ سال قبل وقوع پذیر ہونے والے عطاء آباد کے واقع کے ہزاروں بے گھر افراد آج بھی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اسی طرح دیامر ، غذر ، بلتستان اور استور میں بھی قدرتی آفات سے متاثرہ سینکڑوں خاندان اب بھی عارضی پناہ گاہوں میں مقیم انتہائی مشکل حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔


ماضی میں دنیور آرسی سی پل اور جگلوٹ کے مقام پر کے کے ایچ پر واقع پل ٹوٹنے کے واقعات بھی آج تک لوگوں کو یاد ہیں ۔ گذشتہ سال بارشوں کی وجہ ہزاروں سیاح گلگت بلتستان میں پھنس کر رہ گئے تھے۔ جیسے حالیہ حسن آباد واقع کے بعد بھی سیاحوں کو بہت زیادہ مشکلات پیش آئی ہیں۔ ہنزہ میں اشائے خوردونوش اور تیل کی قلت کا سامنا ہے۔ متبادلہ راستہ پر خطر اور دشوار گزار ہونے کی وجہ سے مقامی لوگوں اور سیاحوں کو سفر میں شدید مشکلات کا سامناہے۔ ایسی صورتحال کا ہر سال اس علاقہ کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک طرف حکومت سیاحت کو فروغ دینے کے راگ الاپتی ہے دوسری طرف ان حادثات سے نمٹنے سے متعلق حکومت کی مجرمانہ غفلت ہمہ وقت عیاں رہتی ہے۔


ان تمام قدرتی آفات میں دیکھا یہ گیا ہے کہ بروقت تیاری اور منصوبہ بندی سے ممکنہ نقصانات کو کم سے کم کیا جاسکتا ہے لیکن حکومتی عدم توجہی اور نااہلی کی وجہ سے ان آفات کے نقصانات بڑھ جاتے ہیں۔ بروقت تیاری تو دور کی بات حادثات رونما ہونے کے بعد بھی حکومت اور ذمہ دار محکمے بروقت رسپانس کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ اگر بادل ناخواستہ افسر شاہی اور منتخب نمائندے قدرتی آفات سے متاثرہ جگہ پہنچ بھی جائیں تو ان کو اپنے پروٹوکول کی فکر لگی رہتی ہے۔ ماتحت عملہ ان کو ایسے مواقعوں پر بھی سرخ قالین بچھا کر استقبال کرنے کا بھر پور اہتمام کرتا ہے جو کہ متاثرہ لوگوں کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔ حالیہ حسن آباد واقع کے بعد بھی سرکار کا یہ عمل دیکھنے کو ملا ہے۔


ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت مذکورہ حادثہ کے نتیجے میں حسن آباد کے مقام پر پیدا ہونے والی صورتحال پر قابو پانے ، شاہراہ قراقرم پر آمدو رفت سمیت بجلی و پانی کا نظام بحال کرنے، امدادی سرگرمیوں کو تیز کرنے اور مقامی آبادی کے نقصانات کے ازالے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ حسن آباد پل کے ٹوٹنے کے واقع کی شفاف تحقیقات کرے اور ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا دے نیز مستقبل میں ایسے واقعات سے نمٹنے کے لئے مربوط اور ٹھوس منصوبہ بندی بھی کرے۔


موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجہ میں اب ایسی قدرتی آفات کے خدشات پہلے سے زیادہ بڑھ گئے ہیں جس کے لئے اگر بروقت تیاری و منصوبہ بندی نہیں کی گئ تو مستقبل میں مزید کئ گنا زیادہ نقصانات و مشکلاقات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ اس ضمن میں گلگت بلتستان ڈیزاسسٹر منیجمنٹ کا ادارہ غیر سرکاری اداروں کے ساتھ ملکر ایک حکمت عملی تیار کرے۔ جس کے لئے حکومت کو ان اداروں کی فعالیت کے لئے ترجیحی بنیادوں پر وسائل کی فراہمی کے علاہ اس شعبے کے ماہرین سے مشاورت کے ساتھ ایک مربوط اور جامع پالیسی مرتب کرنی ہوگی۔


اسرارالدین اسرار گلگت بلتستان کے سینئر صحافی، کالم نگار اور حقوق انسانی کیمشن پاکستان کے گلگت میں کوآرڈینیٹر ہیں۔


جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے