Baam-e-Jahan

اسلام آباد میں مقیم نوجوان شاعر شعیب کیانی صاحب کی نظم جس نے جاوید اختر کو اپنا گرویدہ بنا لیا

ویب ڈیسک


اسلام آباد میں مقیم نوجوان شاعر شعیب کیانی صاحب جنہوں نے اپنی نظم "بے حیا” سے جاوید اختر کو اپنا گرویدہ بنا لیا ہے۔ جاوید اختر نے یہ نظم پڑھنے کے بعد ٹویٹر پر شاعر کا نمبر مانگا اور انہیں فون کرکے ان کی حوصلہ افزائی کی۔

انکی مشہور نظم "بے حیا” پڑھیں۔

ہمیں تو ہیں وہ
جو طے کریں گے
کہ ان کے جسموں پہ کس کا حق ہے

ہمیں تو ہیں وہ
جو طے کریں گے
کہ کس سے ان کے نکاح ہوں گے
یہ کس کے بستر کی زینتیں ہیں

وہ کون ہو گا جو اپنے ہونٹوں کو
ان کے جسموں کی آب دے گا

بھلے محبت کسی کے کہنے پہ
آج تک ہو سکی، نہ ہو گی
مگر یہ ہم طے کریں گے
ان کو کسے بسانا ہے اپنے دل میں

ہم ان کے مالک ہیں
جب بھی چاہیں
انہیں لحافوں میں کھینچ لائیں
اور ان کی روحوں میں دانت گاڑیں

یہ ماں بنیں گی
تو ہم بتائیں گے
ان کے جسموں نے کتنے بچوں کو ڈھالنا ہے

ہمارے بچوں کے پیٹ بھرنے
اگر یہ کوٹھے پہ جا کے اپنا بدن بھی بیچیں
تو ہم بتائیں گے
کس کو کتنے میں کتنا بیچیں

ہمیں کو حق ہے
کہ ان کے گاہک (جو خود ہمیں ہیں) سے
ساری قیمت وصول کر لیں

ہمیں کو حق ہے کہ ان کی آنکھیں،
حسین چہرے، شفاف پاؤں،
سفید رانیں، دراز زلفیں
اور آتشیں لب دکھا دکھا کر
کریم، صابن، سفید کپڑے، اور آم بیچیں
دکاں چلائیں، نفع کمائیں

یہ کون ہوتی ہیں
اپنی مرضی کا رنگ پہنیں
سکول جائیں، ہمیں پڑھائیں
ہمیں بتائیں
کہ ان کا رب بھی وہی ہے جس نے ہمیں بنایا
برابری کے سبق سکھائیں

یہ لونڈیاں ہیں یہ جوتیاں ہیں
یہ کون ہوتی ہیں اپنی مرضی سےجینے والی؟

بتانے والے ہمیں یہی تو بتا گئے ہیں

جو حکمرانوں کی بات ٹالیں
جو اپنے بھائی سے حصہ مانگیں
جو شوہروں کو خدا نہ سمجھیں
جو قدرے مشکل سوال پوچھیں
جو اپنی محنت کا بدلہ مانگیں
جو آجروں سے زباں لڑائیں
جو اپنے جسموں پہ حق جتائیں
وہ بے حیا ہیں۔

~شعیب کیانی

اپنا تبصرہ بھیجیں