Baam-e-Jahan

علی زئی کی کہانی اور ایک غار میں معتکف دھیانی

fakhre alam article

فخرعالم


کُرم میں سفر کرتے ہوئے ٹل سے آگے پاڑہ چنار جاتے ہوئے راستے میں ایک چھوٹا سا گاؤں علی زئی پڑتا ہے۔ علی زئی میں اہل تشیع کی اکثریت ہے۔ مگر کُرم میں اہل تشیع کا اصل مرکز پاڑہ چنار ہے۔ پاڑہ چنار اور علی زئی کے بیچ صدا نام کا ایک قصبہ آتا ہےجس کی آبادی سُنی ہے۔ کُرم کسی زمانے میں ایجنسی ہوا کرتا تھا ،اب ضلع بن گیا ہے۔ پختونخواہ اور قبائل میں دہشت گردی کی عفریت نے لوگوں کو زک پہنچایا مگر کُرم کے ان علاقوں کی سیہ بختی دیکھیے کہ ان کے مقدر میں دہشت گردی کے ساتھ ساتھ فرقہ ورانہ فسادات بھی لکھے ہوئے تھے۔

اَسی کی دہائی میں اس علاقے میں مسلکی تصادم ہوئے۔ بے اعتباری کے ان موسموں میں پڑوسیوں کا پڑوسیوں پر سے اعتبار اٹھ گیا۔ یوں شیعہ اکثریتی علاقوں سے سُنیوں نے ہجرت کی اور سُنی اکثریتی علاقوں سے شیعوں نے۔ پاڑہ چنار سے سُنی نیچے آکر صدا کے قصبے میں آباد ہوئے اور صدا سے اہلِ تشیع نے گھروں کو تالے لگا کر پاڑہ چنار کا رُخ کیا۔ روس کے ساتھ ہم جو کر رہے تھے سو کر رہے تھے مگر جذبات کی رو میں ہم ایسے بہے جا رہے تھے کہ ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوئی کہ ہم اپنے ساتھ کیا کر رہے ہیں۔ یہ جلد ہی آشکار ہوگیا کہ ہم اپنے ساتھ جو کر رہے تھے وہ کچھ اچھا نہیں تھا۔

قبائلی علاقے دہشت گردی کی لپیٹ میں آئے تو 2006 میں طالبان نے پاڑہ چنار میں جڑیں پکڑنا شروع کی۔ پاڑہ چنار کی سرحد افغانستان کے تین صوبوں سے ملتی ہے اور کابل کا یہاں سے فاصلہ سب سے کم ہے۔ مقامی آبادی کو اندازہ تھا کہ پاڑہ چنارشدت پسندوں کے قبضے میں جانے کے بعد ان کا پہلا شکار وہ خود ہوں گے۔ انہوں نے معاملہ انتظامیہ کے سامنے اٹھایا مگر کوئی کارروائی نہ ہوسکی۔ اس پر انہوں نے خود ہی طالبان کے خلاف ہتھیار اٹھالیا۔ طالبان نے پاڑہ چنار سے تو پسپائی اختیار کی مگر نیچے صدا میں انہیں مقامی آبادی کی سپورٹ ملی اور انہوں نے وہی ڈیرہ جمالیااور انتقام کا پھندہ تیار کیا۔

پاڑہ چنار، صدا اور علی زئی

پاڑہ چنار کو ملک سے جوڑنے والی واحد سڑک انہی صدا اور علی زئی کے دیہات سے گزرتی ہے۔ طالبان نے اس سڑک پر پہرے بیٹھا لیے اور پاڑہ چنار آنے جانے والے مسافروں کے شناختی کارڈ پر نام اور کمر پر زنجیر زنی کے نشان دیکھ کر ان کی کھوپڑیوں میں گولیاں اُتارنے لگے۔ یہ وہ دور تھا جب اس سڑک پر سفر کرتے کسی شخص کے نام کے ساتھ محض رضوی، مہدی، رضا، علی، حسنین، ذولفقار وغیرہ جیسے لاحقوں کا ہونا ہی اُس کی گردن اتارنے کے لیے کافی سمجھا جاتا تھا۔

یہاں سے پاڑہ چنار کے طویل محاصرے اور گھیراؤ کا آغاز ہوتا ہے۔ المیوں اور سانحوں سے ہم اتنے مالا مال ہیں کہ ہم میں سے کسی کو اس دور میں پشاور میں مقیم پاڑہ چنار کے ان طالب علموں کا حزنیہ لکھنے اور محسوس کرنے کی فرصت نہ ہوگی جو ایک دفعہ بھی چھٹیوں پر گھر گئے بغیر اپنی چار سال کی ڈگریاں مکمل کرکے فارغ التحصیل ہوئے۔جو لوگ اتنے خوش قسمت نہ تھے کہ پاڑہ چنار سے ہجرت کرسکیں انہیں علاج معالجے یا کسی ضروری کام سے پشاور یا کہیں اور جانا ہوتا تو بجائے صدا سے جانے کے افغانستان سے ہوکر جاتے تھے۔

ایک زمانے میں سردیوں میں پشاور جاتے ہوئے ہم چترالیوں کو بھی افغانستان سے گزرنا پڑتا تھا مگر ہمارے اور پاکستان کے دوسرے حصوں کے درمیان حائل رُکاؤٹ لواری کا درہ تھی جب کہ پاڑہ چنار کے لوگوں کی راہ دہشت کی انسانی عفریت روکے کھڑی تھی۔ لواری ٹاپ سے ہماری عداوت پہاڑ کے بیچ سے گزرتی سرنگ بننے کے بعد ختم ہوگئی ہے جس کے بعد سردیوں میں بھی لواری سے سفر ممکن ہوا مگر پاڑہ چنار کی شاہراہ پر بہتے خون کے دھبوں کو دھلنے میں امن و آشتی کی کئی دہائیاں لگیں گی۔

اس محاصرے کے روزنامچے میں یوں تو کئی خونچکاں داستانیں رقم ہیں مگر ایک باب اس میں مارچ 2011 کا بھی آتا ہے جب 2008 میں بند کی گئی سڑک پر سے مذاکرات کے بعد شدت پسندوں نے پہرہ اٹھانے کا اعلان کیا۔ حکومت کی یقین دہانی کے بعد یہاں سے لوگوں نے قافلوں میں آنا جانا شروع کیا۔ حالات سازگار ہونے کی امید دیکھائی دینے لگی۔مگر اس امید کو ایک بھیانک خواب میں بدلتے زیادہ وقت نہیں لگا۔ کچھ دنوں بعد ہی پاڑہ چنار جاتی گاڑیوں کو راستے میں روکا گیا اور اس میں سوار چالیس سے زائد مسافروں کو طالبان اٹھا کر اپنے ساتھ لے گئے۔ بچوں اور خواتین کو تو چھوڑ دیا گیا مگر سات مسافر اسی وقت قتل کیے گئے اور باقی مسافروں کو مہینوں بعد بھاری رقم لے کر چھوڑ دیا گیا۔ پاڑہ چنار والوں کو محاصرے سے نجات کے خواب کی بھاری قیمت چکانی پڑی۔

گزشتہ عید کی چھٹیوں پر ہمارے ایک عزیز نے ہمیں علی زئی بلایا جن کی وہاں ملازمت کے سلسلے میں پوسٹنگ ہے۔ عید سے دو دن پہلے برادرم توقیر کو لے کر اسلام آبا د سے چل پڑا۔ علی زئی پہنچ کر مجھے اندازہ ہوا کہ میرے علاوہ اس گاؤں بلکہ پورے خطے میں پتلون شرٹ اگر کوئی پہنتا ہے تو وہ ایف سی کے جوان ہیں مگر اس بات کا احساس عید والے دن ہوا کہ عید مناتے ہوئے پتلون شرٹ وہ بھی نہیں پہنتے۔ ادھر میرے پاس کپڑوں کی جو چھوٹی سی پوٹلی تھی اس میں پینٹ شرٹ تو تھے مگر شلوار قمیص کوئی نہ تھا۔ یوں عید کی نماز کسی مسجد میں نہیں پڑھی جاسکی۔ عید کے دن دوپہر تک یوں ہی فارغ بیٹھے رہے۔ پھر ارد گرد کا علاقہ دیکھنے گئے۔ ایک جگہ ڈیم دیکھا جس کے پاتال میں بارش کا پانی جمع تھا۔ بچے پنجروں میں اپنے پرندے اٹھائے آس پاس پکنک منا رہے تھے۔ وہاں سے واپسی پر علی زئی کے بازار اور آبادی کے بیچ گھومتے رہے۔ کسی نے بتایا کہ اوپر ایک گیسٹ ہاؤس ہے جہاں سے گاؤں کا اچھا نظارہ ملتا ہے۔ گیسٹ ہاؤس بند تھا۔

ہم وہاں لان میں بیٹھے تھے کہ ایک نوجوان آیا۔ پشتو میں ہم سے کچھ باتیں کیں جو ہماری سمجھ میں نہ آئیں۔ وہ ہمیں ساتھ لے کر اس ٹیلے سے نیچے اترا اور ایک لان کے گیٹ پر لے آیا۔ وہاں حیران کردینے والی ایک چیز گیٹ کے اوپر لگا بڑا سا مسیحی صلیب تھی۔ مجھے لگا شاید یہ انگریزوں کے زمانے کی کوئی عمارت ہو جس طرح علی زئی میں ان کا بنایا ہوا قلعہ ہے۔ ایک بابا بھی گیٹ کے باہر موجود تھا جس نے ہم سے ہاتھ ملایا۔ ہم گیٹ سے اندر آئے تو اونچے اونچے درختوں کے سایے میں لوٹ پوٹ ہوتے کتے ہمارے استقبال کو آگے آئے۔ یہاں ایک ٹیلہ تھا جس کے سامنے کے رُخ پر سفید دیوار اٹھائی گئی تھی اور اس دیوار کے بیچ ایک محرابی صدر دروازہ ایستادہ تھا۔ بابا جو اب تک ہمیں اس جگہ کا چوکیدار یا مالی لگ رہا تھا اور جس سے اردو بولنے کی ہمیں بالکل توقع نہیں تھی، نے نہایت شائستہ انداز اور شستہ اردو میں ہمیں بتایا کہ اس دروازے کے پار مصنوعی غار ہے جہاں ان کی رہائش ہے۔ ذہن میں اب تک ایک الجھاؤ سا تھا جو اب حیرانی میں تبد یل ہوا۔ بابا اب ہم سے آگے تھے اور بتا رہے تھے کہ یہ غار نویں کی دہائی میں بنایا گیا تھا۔

درمیان میں نثار حسین

"دراصل یہاں افغان مجاہدین آئے ہوئے تھے جو مجھے اپنا پیر سمجھتے تھے۔ انہوں نے یہ رہائشی سرنگ میرے لیے بنائی تاکہ میں یہاں سکون سے رہ سکوں۔”

وہ ہمیں لے کر دروازے کے اندر داخل ہوئے جس کے اوپر قرآنی کلمات درج تھے۔ اندر کچھ کرسیاں پڑی تھیں اور دیوار پر ٹی وی لگی تھی۔ داہنی طرف ایک کیچن تھا۔ کیچن سے آگے ایک سرنگ مرکزی سرنگ سے الگ ہوکر دائیں طرف جارہی تھی۔ بابا ہمیں لے کر اس میں داخل ہوئے۔ وہاں ایک طرف کتابیں بکھری پڑی تھیں۔ دوسری طرف ایک بندوق اور گھریلو ضرورت کی دوسری چیزیں تھیں۔ سرنگ کے سرے پر ایک مناسب سائز کا کمرہ تھا۔ ایک طرف تخت سا تھا جس کے سامنے میز پر تصوف کی کچھ کتابیں پڑی تھیں۔ ساتھ میں ایک الماری تھی جس کے کواڑ آدھ کھلے تھے اور اندر سے مزید کتابیں باہر جھانک رہی تھیں۔ دیواروں پر بنے طاقوں میں کچھ تصویریں رکھی تھیں جو ان کے ذاتی تعلقات کے ساتھ ساتھ ان کی فکری، مذہبی اور سماجی نسبتوں کا بھی پتہ دیتی تھیں۔

اس غار میں داخل ہوتے ہی لگتا ہے جیسے زمانہ چند صدیاں پیچھے سرک گیا ہو۔ اندر کے ماحول میں قدامت اور روایت کا رنگ گھلا ہوا تھا۔ یہاں کی دیواروں اور محرابی چھتوں پر کوئی پلستر نہیں تھا۔ ان پر نیلا رنگ چڑھایا گیا تھا۔ روشنی کے لیے ٹیوب لائٹ لگائے گئے تھے جن کی سفید روشنی در دیواروں کی نیلے رنگ کے ساتھ مل کر دل آویز آمیزیش بنا رہی تھی۔ یہاں کی ہر شے عجیب اور حیران کن تھی اور تحیر کو سب سے زیادہ مہمیز کرنے والا خود یہاں کا بابا تھا۔ میں نے ان سے ان کا نام پوچھا، بتایا نثار حسین۔ وہ اس غار میں گوشہ نشینی اختیار کرنے سے قبل علاقے میں سر سید احمد خان نام کا ایک اسکول چلاتے تھے۔ اب ایک لمبے عرصے سے اس غار میں گوشہ نشین تھے۔ ان کی میز پر مذہبی اور صوفیانہ کتابوں کے بیچ ایک کتاب فکشن ہاؤس کی چھپی ہوئی بھی تھی جس میں مذہب اور خدا کے تصور پر نقد کی گئی تھی ۔ میں نے اس کتاب کی طرف اشارہ کرکے ان سے پوچھا،

"آپ نے یہ بھی پڑھی ہے؟”

انہوں نے تحمل بھری مسکراہٹ سے جواب دیا،

"جی۔ میں سب کی کتابیں پڑھتا ہوں۔ میں ایک شیعہ ہوں مگر ساتھ میں ایک صوفی بھی۔ میں یہاں آنے والوں سے ان کا مسلک پوچھتا ہوں اور پھر انہیں انہی کے مسلک کی کتابیں دیتا ہوں۔ سب اپنے آپ کو جانے تو ساری لڑائیاں ختم ہوجائیں گی۔”

بابا ہمیں اس کمرے سے باہر لے آئے۔ راہداری کے آخر پر ایک ہال بنا ہوا تھا۔ وہاں آرام دہ صوفے اور فرشی نشستیں بچھی تھیں۔ یہ کسی عالیشان دربار سے کم نہ تھا۔ بائیں طرف چند سیڑھیاں اوپر اٹھ رہی تھیں اور وہاں ایک مسجد تھی۔ روح اور غار کا رشتہ بڑا پرانا ہے۔ انسان کو اپنا رشتہ دنیا سے توڑ کر روح سے جوڑنے کے لیے خاموشی، شانتی اور عجز و انکساری کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ساری چیزیں پہاڑی کے اندر اس غار اور اس کی کوکھ میں بنی اس مسجد میں بدرجہ اتم موجود تھیں۔

غار کے اندر بیٹھک

نثار حسین بتا رہے تھے کہ اس غار میں ان سے ملنے بہت سے لوگ آتے ہیں جن میں فوجی اور سول افسر بھی ہوتے ہیں۔
"وہ میری کچھ خدمت کرنا چاہتے ہیں مگر میں ان سے صرف کتابیں مانگتا ہوں جو یہاں نہیں ملتیں۔”

مجھے دیوار پر مہاتما گاندھی کی تصویر نظر آئی۔ میری حیرانی دیکھ کر بولے،
"بیٹا گاندھی صاحب ہمارے قبیلے کا آدمی ہے! وہ بڑا آدمی تھا، صوفی تھا۔ وہ عدم تشدد، انسان سے محبت اور نفس پر ضبط کا جو درس دیتا تھا۔ ہمارے صوفیہ نے بھی انہیں چیزوں کا پرچار کیا۔ گاندھی بڑا آدمی تھا۔ بہت بڑا۔”

اس طلسم خانے کی ہر چیز متحیرکن تھی۔ یہاں وقت کا بہاؤ رُکا ہوا تھا۔ یہاں کی فضا امن و شانتی میں گندھی ہوئی تھی۔ یہاں عجز کا راج تھا اور تکبر و تفاخر کے احساس کا گزر نہ تھا۔

نثار حسین میٹھے لہجے میں براہ راست دلوں سے کلام کر تے رہے۔ اندر وقت اور موسم کی گردش ناجانے کب سے تھمی ہوئی تھی مگر گھڑی بتا رہی تھی کہ باہر شام اتر رہی ہوگی۔ ہم اس وقت ضلع کرم میں علی زئی کا گاؤں کے بجائے قدیم خراسان کے کسی دور افتادہ پہاڑ کے غار میں معتکف کسی شیخ کی خانقاہ میں موجود تھے۔ نماز کا وقت ہوگیا تھا۔ نثار حسین کا اصرار تھا کہ ہم آج رات ان کے مہمان بنے۔ دل میرا اور توقیر کا بھی یہی کر رہا تھا مگر کچھ دوست تھے جو رات کھانے پر انتظار کر رہے تھے۔ نثار حسین نے دوبارہ آنے کا کہہ کر گرم جوشی سے ہمیں باہر آکر رخصت کیا۔

علی زئی جیسی جگہ جہاں کسی زمانے میں مسلک پوچھ کر کھوپڑی میں گولیاں اتاری جاتی تھیں وہاں ایک ایسا درویش بھی ہے جو مسلک پوچھ کر ذہن میں محبت، تحمل اور ایک دوسرے کو قبول کرنے کا گیان اتارتا ہے۔ میں نے گیٹ پر ایستادہ صلیب کے نیچے کھڑے ہوکر پیچھے دیکھا تو نثار حسین اپنے گوشہ عزلت میں داخل ہوچکے تھے۔ ہم اس عجوبہ روزگار شخصیت کی تاثیر سے بھیگے وہاں سے رخصت ہوئے۔


فخرعالم ہائی ایشیا کا معاون مدیر ہے۔ alam.fakherhss@gmail.com

اپنا تبصرہ بھیجیں