خورشید ندیم
فیض صاحب کی رومان پرور طبیعت بھی محبوب کے حسنِ دل آویزسے نظریں چرانے لگی کہ غمِ روزگار اس سے زیادہ دل فریب تھا۔ساحر محبوب سے ملنا چاہتا تھا مگر تاج محل سے دور کہ سطوتِ شاہی کی یہ علامت اسے تاریک مکانوں کی یاد دلاتی تھی۔وہ مکاں جہاں ہر روززندگی کے چراغ گل ہوتے ہیں اور موت کی تاریکی مزید گہری ہو جاتی ہے۔میرا معاملہ مگر ان سے مختلف ہے۔
میری تو آنکھ ہی غمِ روزگار میں کھلی ہے۔محبوب کی حسن سے پہلے،غربت کے آنچل میں چھپی وہ زندگی دیکھی ہے جس کا زرد چہرہ حسن و جمال سے بیگانہ رہتاہے۔ قدرت حسن عطا کرتی ہے مگر اسے سنوانے کا ہنر نہیں دیتی۔میں نے وہ بڑھاپا دیکھا جس کی لاٹھی کو عوارض کی دیمک چاٹ جاتی ہے۔وہ بچپن دیکھا جس کی آنکھیں یہ بھی نہیں جانتی کہ حسین سپنے کیا ہوتے ہیں۔بڑا ہوا تو معلوم ہوا کہ اس دنیا میں وہ حسن بھی ہوتا ہے جس کی جستجو جینے کی امنگ دیتی ہے۔وہ آنکھیں بھی ہوتی ہیں کہ جن کے بارے میں آدمی گمان کرے کہ زندگی ان میں ڈوب جانے کا نام ہے۔وہ نغمے بھی ہوتے ہیں کہ ان کا ترنم قطرہ قطرہ آبِ حیات بن کر کانوں میں ٹپکتا رہتا ہے۔
دل نے یہی چاہا کہ غمِ روزگار سے نجات ملے اورکسی زلفِ سیاہ کے سائے میں زندگی بیت جائے۔غربت و افلاس کے بستی سے ہجرت کی جائے اور کسی مترنم شہر میں جا بسیرا کیا جائے،جہاں پرندے نغمہ حیات گاتے ہوں اور بادِ صبا انہیں کندھے پہ اٹھائے قریہ قریہ پھرتی ہو۔جہاں بڑھاپے کو دیمک زدہ لاٹھیوں کی ضرورت نہ ہو۔اسے وہ جوان ہاتھ میسر ہوں جو اپنی توانائی اس کے قدموں میں ڈال دیں اور ان میں حرکت پیدا ہو جائے۔سیاست کی زبان میں،کہیں تو ایک فلاحی ریاست جو استحصال پر نہیں،احسان کی بنیاد پر کھڑی ہو۔وہ ریاست جو زندگی بخش ہو۔یہ فیض صاحب سے مخالف سمت میں جانے کی کوشش تھی۔محبوب کے خیال سے غمِ روزگار کی طرف نہیں،غمِ روزگار سے خیالِ یار کی طرف۔
اس خواب کی تعبیر کے لیے ریاست ہی کیوں؟مجھے یہی بتایا گیا تھا کہ زندگی کو تبدیل کرنے کی باگ ریاست کے پاس ہے۔ایسی ریاست جہاں صالحین کا اقتدار ہو۔ جہاں قصرِ شاہی کے باہر ایک زنجیرِ عدل لٹک رہی ہو۔مظلوم اسے چھیڑے اور اگلے لمحے انصاف اس کی جھولی میں آگرے۔جہاں قانون کا اطلاق یکساں ہو۔ایسے ریاست چونکہ یہاں موجود نہیں،اس لیے برپا کر ناپڑتی ہے۔میں بھی اس جد وجہد میں جت گیا۔
ایک مدت کے بعد،مگر یہ معلوم ہوا کہ سیاست میں خوابوں کا گزر نہیں ہوتا۔یہ تو حقائق کی سنگلاخ زمین کا سفر ہے۔یہاں زندگی اپنی تمام تر تلخیوں کے ساتھ برہنہ کھڑی ہوتی ہے اور اسے ستر پوشی کی بھی فکر نہیں ہو تی۔یہاں پوشاک فروش نہیں ہوتے جو اس برہنگی کو ڈھانپ لیں۔یہاں خواب ہوتے ہیں مگر جنسِ بازار کی طرح۔یہاں خوابوں کا کاروبار ہوتا ہے۔سادہ لوح جنہیں عوام کہتے ہیں، ان کے خریدار ہوتے ہیں۔کبھی انقلاب کے نام پر،کبھی تبدیلی کے عنوان سے،کبھی آزادی۔۔۔یہ اہلِ سیاست کی لغت ہے جس میں انہوں نے تمام خوابوں کو نام دیے ہوئے ہیں۔جو سچ بولتا ہے،اس کا کاروبار نہیں چلتا۔کتنے آئے جو اپنی دکان بڑھا گئے۔وہ محبوب یہاں نہیں رہتا جس کی گھنی چھاؤں میں،میں سفرِ حیات طے کر نا چاہتا ہوں۔
پھر وہ کہاں رہتا ہے؟کیا کوئی ایسی جگہ ہے جہاں خواب فی الواقعہ تعبیر بنتے ہوں؟جہاں تمنائیں مشہودہوتی ہوں؟اہلِ علم سے پوچھا۔کتابوں کو کھنگالاتو ان سوالوں کے جواب کسی حد تک مل سکے۔ایک تو یہ انکشاف ہوا کہ اس زمین پر کوئی وادی ایسی نہیں جہاں خواب کی پوری تعبیر ملتی ہے۔یہ زندگی اس نہج پر استوار ہی نہیں ہوئی۔ہاں،یہ ممکن ہے کہ خواب کی کوئی ایک آدھ جھلک دکھائی دے جائے۔کوئی تعبیر مشہود ہو جائے۔ریاضی کے زبان میں اس کو ادا کریں تو دس، بیس یا تیس فیصد خواب حقیقت بن جا ئے۔
دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ خواب کے تعبیر بننے کا عمل، سیاست میں نہیں، معاشرت میں ہو تا ہے۔یہ ریاست نہیں، معاشرہ ہے جہاں خوابوں کی تعبیر کو واقعہ بنانے کاکام ہوتا ہے۔یہاں وہ سانچے بنتے ہیں،اہلِ سیاست اگر ان میں ڈھل جائیں تو ریاست،ان خوابوں کو تعبیر دینے کے لیے مددگار بن سکتی ہے۔سیاست کو کچھ اقدار کا پابند بنانا لازم ہے تاکہ ریاست عوام کی خادم بن سکے۔اقدار سازی معاشرے کا وظیفہ ہے۔
اقدار سازی کا کام مصلحین کرتے ہیں جو سماجی اخلاقیات پر پہرہ دیتے ہیں۔ وہ دانش ور جو اجتماعی سوچ کے زاویوں کے درست کرتے ہیں۔وہ استاد جو فرد کے اخلاق کی تعمیر کرتے ہیں۔وہ والدین جو اپنی آغوشِ تربیت میں جواہرڈھالتے ہیں۔وہ درس گاہیں جن کا مطمحِ نظر رجالِ کار تیار کرنا ہو۔وہ خانقاہیں جہاں تزکیہ نفس کا اہتمام ہو تا ہو۔ انہی اداروں سے نکلنے والے جب سیاست دان بنتے ہیں تو ریاست خوابوں کی تعمیر کے لیے جت جاتی ہے۔
ہمارے ہاں تربیت الٹ گئی۔ہم نے ریاست کے بطن سے معاشرہ جنم دینا چاہا۔اب بیٹی کی کوکھ سے ماں کیسے پیداہو؟ہم لیکن اسی پر تمام توانائیں صرف کر رہے ہیں۔ کبھی کسی حکیم سے رجوع کرتے ہیں کہ اس کا نسخہ اس انہونی کو ہونی کر دے۔کبھی کسی پیر سے تعویز لینے جاتے ہیں کہ کاغذ کوکوئی پرزہ ماورائے اسباب حاجت روا ئی کردے۔ کبھی کسی جدید ڈاکٹر تک رسائی چاہتے ہیں کہ علمِ جدید سے کوئی معجزہ سر زد ہو جائے۔کبھی کسی سائنس دان کا ہاتھ تھامتے ہیں کہ ’کلونگ‘ سے کوئی کرامت دکھادے۔کاش ہم ’پیرِ رومی‘ ہی کی سن لیتے جو اس کارِ لاحاصل کے بارے میں برسوں پہلے متنبہ کر گئے تھے:
دستِ ہر نااہل بیمارت کند
سوئے مادر آ کہ تیمارت کند
(نااہل کے ہاتھ میں شفا کہاں کہ وہ مزید بیمار کرتا ہے۔ماں سے رجوع کرو کہ وہی تیمارداری کا ہنر جانتی ہے)۔
سیاست ایک معاشرتی ضرورت ہے۔جب سیاسی ادارے موجود ہیں تو انہیں جیسے تیسے چلنا بھی ہے۔انہیں اہلِ سیاست ہی نے چلانا ہے۔اہلِ سیاست انہیں اپنی تربیت اور صلاحیت کے مطابق ہی چلائیں گے۔ان کی تربیت کے لیے اگر سماجی ادارے موجود نہیں یا اگر ہیں مگر اپنے اصل فرائض سے غافل ہیں تو پھر سیاست ویسے ہی ہوگی جیسے ہمارے ہاں ہوتی ہے۔اہلِ سیاست میں مسیحا نہیں تلاش کیا جاتا۔یہاں وہ دستِ ہنر ڈھونڈا جاتا ہے جو موجودمیں بہتر ہو اورمعاشرے کو سیاسی اعتبار سے زندہ رکھ سکے۔اس سے زیادہ کی طلب کا حاصل صرف مایوسی ہے۔
آج مایوسی پھیل رہی ہے۔ہم نے ساری توقعات سیاست اور اہلِ سیاست سے وابستہ کر لیں۔ہمارے خواب ہماری نظروں کے سامنے بکھر رہے ہیں۔ ہماری کیفیت وہی ہے جو غالب نے بیان کی:’نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پاہیں رکاب میں‘۔کچھ نہیں کہاں جا سکتا کہ رخشِ زندگی کہاں جا رکے۔مایوسی سے بچنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ توقعات کا مرکز تبدیل ہو جائے:سماج نہ کہ ریاست۔
میرے جیسے عام پاکستانی کا معاملہ فیض صاحب کی طرح یا ساحر جیسا نہیں۔میرا غم ان سے سوا ہے۔میرے پاس محبوب ہے نہ محبوب کی آنکھیں کہ ان سے بڑھ کر غمِ روزگار دل فریب ہو۔میں غمِ روزگار سے نکلنا چاہتا ہوں۔میں اس وادی میں بسیرا کرنا چاہتا ہوں جہاں محبوب کی گھنی زلفوں کے سائے میں زندگی بیت جائے۔مگر۔۔۔ یوں نہ تھا،میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائے۔