Baam-e-Jahan

مولانا مودودی کا پاکستان کے بارے میں خیالات

maulana maududi and kamat islami on pakistan and quid azam

وجاہت مسعود کے مضمون سے اقتباسات


مولانا مودودی صاحب نے جماعت اسلامی ہفت روزہ ’کوثر ‘ 16 نومبر 1947ء میں لکھا کہ

ہم اس تحریک کو آج بھی صحیح نہیں سمجھتے جس کے نتیجے میں پاکستان بنا ہے اور پاکستان کا اجتماعی نظام جن اصولوں پر قائم”
ہو رہا ہے ان اصولوں کو اسلامی نقطہ نظر سے ہم کسی قدر و قیمت کا مستحق نہیں سمجھتے“۔

،مولانا مودودی نے جماعت اسلامی (لاہور )کے اجتماع میں فرمایا
(بحوالہ روز نامہ انقلاب 9 اپریل 1948ء)
"ہماری قوم نے اپنے لیڈروں کے انتخاب میں غلطی کی تھی اور اب یہ غلطی نمایاں ہو کر سامنے آگئی ہے۔ ہم چھ سال سے چیخ رہے تھے کہ محض نعروں کو نہ دیکھو بلکہ سیرت اور اخلاق کو بھی دیکھو۔ اس وقت لوگوں نے پروا نہ کی لیکن اب زمام کار ان لیڈروں کو سونپنے کے بعد ہر شخص پچھتا رہا ہے کہ واہگہ سے دہلی تک کا علاقہ اسلام کے نام سے خالی ہو چکا ہے“۔

،ترجمان القرآن نے جون 1948ء کے اداریے میں لکھا

"یہ عین وہی لوگ ہیں جو اپنی پوری سیاسی تحریک میں اپنی غلط سے غلط سرگرمیوں میں اسلام کو ساتھ ساتھ گھسیٹتے پھرے ہیں۔انہوں نے قرآن کی آیتوں اور حدیث کی روایتوں کو اپنی قوم پرستانہ کشمکش کے ہر مرحلے میں استعمال کیا ہے…. کسی ملک و قوم کی انتہائی بدقسمتی یہی ہو سکتی ہے کہ نااہل اور اخلاق باختہ قیادت اس کے اقتدار پر قابض ہو جائے“۔

،اسی شمارے میں مزید فرمایا

” جونہی انگریز اور کانگرس کی باہمی کشمکش ختم ہوئی۔ تو اس قیادت عظمیٰ نے اپنے آپ کو ایسی حالت میں پایا جیسے اس کے پاﺅں تلے زمین نہ ہو۔ اب وہ مجبور ہو گئی کہ جو کچھ جن شرائط پر بھی طے ہو اسے غنیمت سمجھ کر قبول کر لیں۔ بنگال و پنجاب کی تقسیم اسے بے چون و چرا ماننی پڑی۔ سرحدوں کے تعین جیسے نازک مسئلے کو اس نے صرف ایک شخص کے فیصلے پر چھوڑ دیا۔ انتقال اختیارات کا وقت اور طریقہ بھی بلاتامل مان لیا۔ حالانکہ یہ تینوں امور صریح طور پر مسلمانوں کے حق میں مہلک تھے۔ انہی کی وجہ سے ایک کروڑ مسلمانوں پر تباہی نازل ہوئی اور انہی کی وجہ سے پاکستان کی عمارت روز اول ہی سے متزلزل بنیادوں پر اٹھی“۔

،حمید نظامی نے 4 جولائی 1948ء کو نوائے وقت میں اداریہ لکھا

”ہم ان لوگوں کے حامی نہیں جو محض اپنی لیڈری چمکانے کے لیے شریعت کا نعرہ بلند کر رہے ہیں۔ …. (بہتر ہو گا کہ) شہر بہ شہر جلسوں میں قائداعظم کو گالیاں دینے اور سوقیانہ تقریروں میں وقت ضائع کرنے کی بجائے اسلامی نظام حکومت کا ایک خاکہ مرتب کیا جائے ۔“

،مولانا مودودی نے ترجمان القرآن کے شمارہ جولائی 1948ءمیں لکھا
”مسلمانوں نے اپنی ساری قومی طاقت، ذرائع اور جملہ معاملات اس قیادت کے سپرد کر دیے جو ان کے قومی مسئلہ کو اس طرح حل کرنا چاہتی تھی۔ دس برس بعد اس کا پورا کارنامہ ہمارے سامنے ہے ۔ جو کچھ ہو چکا وہ تو ان مٹ ہے۔ البتہ اس پر بحث کرنا ضروری ہے کہ جو مسائل اب ہمیں درپیش ہیں ۔ کیا ان کے حل کے لیے بھی وہی قیادت موزوں ہے جو اس سے پہلے ہمارے قومی مسئلے کو اسی طرح حل کر چکی ہے۔ کیا اس کا کارنامہ یہی سفارش کرتا ہے کہ جو نازک مسائل ہمارے سر پر آ پڑے ہیں۔ جن کا بیشتر حصہ خود اسی قیادت کی کارفرمائیوں کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے، انہیں حل کرنے کے لیے ہم اس پر اعتماد کریں“۔

اس کے جواب میں حمید نظامی نے 31جولائی 1948 ءکو اداریہ لکھا

”حضرت مولانا نے دس سال کے عرصے میں پہلی مرتبہ دل کی بات کھل کر کہی اور صاف لفظوں میں مسلمانوں سے کہا کہ محمد علی جناح کی جگہ مجھے قائداعظم مانا جائے۔ اب صرف اتنا کرم فرمائیں کہ مسلمانوں کو یہ بتا دیں کہ آپ کا ٹھوس سیاسی پروگرام کیا ہے…. اپنا پروگرام نہ بتانا اور نعروں سے مسلمانوں کا دل بہلانا یا قائداعظم کو احمق ، غلط کار اور دین میں ہلکا ثابت کرنے کی کوششوں میں لگے رہنا ہرگز آپ کے شایان شان نہیں۔ قائداعظم کا ریکارڈ قوم کے سامنے ہے۔ آپ کو ابھی قوم نے آزمانا ہے۔ آپ قائداعظم کو ہزار گالیاں دیجئے ۔ مسلمان آپ کے دست مبارک پر بیعت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔“

،مولانا ابو اعلیٰ مودودی نے 9 اگست 1948ءکو جھنگ میں کہا

”لیگ کی جنگ کفر و اسلام کی جنگ نہیں تھی۔ مسلم لیگ نے اب تک یہ نہیں کہا کہ پاکستان کا خطہ اس لیے حاصل کیا جا رہا ہے کہ وہاں پر اسلامی خلافت چلائی جائے گی بلکہ یہ قومیت کی جنگ تھی۔ قومیت کی جنگ کو اسلام کی جنگ سے کوئی واسطہ نہیں۔ لیگ کی قراردادوں کا جائزہ لیجئے ۔ لیگ نے آج تک تسلیم نہیں کیا کہ پاکستان میں شریعت کا نفاذ ہو گا۔“۔

،اس کے جواب میں نوائے وقت نے 18اگست 1948ء کو اداریہ سپرد قلم کیا

”پاکستان میں آپ کو ایسے لوگ بھی مل جائیں گے جن کی تقریر و تحریر کا زور یہ ثابت کرنے پر صرف ہو رہا ہے کہ (مسلمانوں) کی اس مصیبت کی ذمہ داری قائداعظم کی لیڈرشپ پر عائد ہوتی ہے۔ قائداعظم نے پے در پے مہلک غلطیاں کیں اور مسلمانوں کو تباہی و بربادی کے اس غار میں لا پھینکا جس کا نام پاکستان ہے“۔

،ایک ہفتے بعد 25اگست 1948ء کو نوائے وقت کے اداریے میں حمید نظامی نے لکھا

”بظاہریہ جماعت کہتی ہے کہ ہم قائداعظم کے خلاف پراپیگنڈہ نہیں کر رہے ۔ لیکن معاف کیجئے یہ بیان صحیح نہیں ہے۔ مسلمانوں کی موجودہ قیادت کو مسلمانوں کی تباہی کا ذمہ دار ٹھہرانا دراصل قائداعظم اورصرف قائداعظم کی ذات ہی پر حملہ ہے“۔

اپنا تبصرہ بھیجیں