ڈاکٹر پرویز ہودبھائی
ب جبکہ ملک اور معیشت دیوالیہ ہونے کے قریب ہیں، ڈالر آسمان سے باتیں کر رہا ہے اور دھرنوں کا موسم پھر آن پڑا ہے تو ہر طرف افرا تفری مچی ہوئی ہے۔ اگر تو دوحہ میں وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل کے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کامیاب ہو گئے تو یہ خطرہ چند مہینوں کے لئے ٹل جائے گا۔ پھر اس کے بعد کیا ہو گا؟ ملک کا مستقبل تاریکیوں میں گھرا ہوا ہے۔
دہائیوں سے جاری آمدن سے زیادہ اخراجات کا سلسلہ اورپیدوار میں کمی کا مسئلہ ایک دن میں حل نہیں کئے جا سکتے۔
ہر نئی آنے والی حکومت پچھلی حکومت کو تمام مسائل کی جڑ قرار دے دیتی ہے۔ اگلے انتخابات، اگر ہوں گے اور جب بھی ہوں گے، کے بعد بھی جو حکومت بنے گی، اسی قسم کی الزام تراشی کا بچگانہ سلسلہ جاری رکھے گی۔ ذمہ داری دوسروں پر ڈالنے کا نتیجہ یہ ہے کہ آج پاکستان جنوبی ایشیا کا مرد بیمار بن چکا ہے۔ حقیقت سے انکار کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ ہم اس مرض کومرض تسلیم بھی نہیں کرتے۔ آج پاکستان بھارت اور بنگلہ دیش سے ہر اہم شعبے میں پیچھے رہ گیا ہے خواہ وہ معیشت ہو، سیاسی استحکام ہو یا انسانی ترقی۔
پاکستان کی بد حالی کے تین اہم اسباب ہیں۔
پہلی وجہ ہے ملٹری ازم۔ 1947ء سے پاکستان جنگی معیشت چلا رہا ہے۔ اس ہی وجہ سے پاکستان چار جنگیں لڑ سکا۔ ان میں سے ایک جنگ تو پاکستان پر مسلط کی گئی البتہ باقی تین پاکستان کا اپنا فیصلہ تھا۔ 1965ء اور 1999ء میں پاکستان جنگ کی عیاشی کا متحمل اس لئے ہو سکا کہ امریکہ سے معاشی و فوجی مدد مل رہی تھی۔ اب جبکہ امریکہ ناراض ہے، ادہر وہ دوست جس سے ہماری دوستی ہمالیہ سے اونچی ہے، وہ بھی زیادہ پر جوش نہیں تو ایسے میں کشمیر کے سوال پر بھارت سے نہ ختم ہونے والی جنگ پاکستان افورڈ نہیں کر سکتا۔
اس میں شک نہیں کہ کشمیر پر بھارتی قبضے کی وجہ سے کشمیری ایک المئے سے دو چار ہیں۔ اس المئے کو کئی دہائیں گزر چکی ہیں۔ بھارت کی یہ غلط حرکت بہرحال وہ جواز بن گیا ہے جس کی آڑ میں ادارہ جاتی مفاد کے لئے کشمیر میں آگ بجھنے ہی نہیں دی جاتی۔ اس عمل کے نتیجے میں کچھ خاص بھلا تو نہیں ہوا مگر نقصان ہر طرف پہنچا ہے۔ خود پاکستان کو اس کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ مجاہدین کی سرپرستی ایک ایسی ہی غلطی تھی۔ جن کو بندوق چلانا سکھایا گیا، انہوں نے پھر پاکستان پر ہی بندوق تان لی۔ لشکر طیبہ کے امیر حافظ سعید کو 31 سال قید اس بات کا اعتراف ہے
کہ پرانی پالیسی غلط تھی۔ فوج کی اعلیٰ قیادت میں اب یہ احساس پایا جاتا ہے کہ سرحد پار جہاد ترک کرنے میں ہی عافیت ہے۔ اس نئی سوچ کے پیچھے فیٹف کا بھی کافی ہاتھ ہے۔
کچھ اور پرانی پالیسیاں بھی ترک کرنا ہوں گی۔ ہر دفعہ پانچ فروری کو چھٹی کر کے پہلے سے مفلوج معیشت کو مزید زک پہنچا نا کیا کوئی عقل مندی ہے؟ یا سرکاری ملازمین کو سرکاری دفتروں کے باہر اور سکول کے طلبہ کو سکول کی عمارت کے سامنے پانچ منٹ کے لئے جمعے کے جمعے پانچ منٹ خاموش کھڑا کرنا دانشمندی ہے؟ (ویسے یہ ڈرامہ پہلی کوشش کے بعد ہی ناکام نہیں ہو گیا تھا؟)۔ یا کشمیر ہائی وے کا نام سری نگر ہائی وے رکھ کر یہ سمجھنا کہ اس طرح ہم کشمیر کے دل تک پہنچ جائیں گے کہاں کی عقل مندی ہے؟
علاج: پاکستان مصائب سے دوچار کشمیریوں کو انڈیا سے خود نپٹنے دے اور اپنا کردار وہیں تک محدود رکھے جہاں تک ہم نے وعدہ کر رکھا ہے یعنی کشمیریوں کی سفارتی و سیاسی مدد کی جائے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ اگر علاقائی امن قائم ہوا تو امید کی جا سکتی ہے کہ پاکستان میں سویلین بالا دستی قائم ہو سکے گی، دفاعی اخراجات میں میانہ روی آ سکتی ہے اورہم خود انحصاری کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔
چین سے کمر توڑ قرضے لینے کی بجائے بھارت سے تجارت کے ذریعے ہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔ اگر چین اور بھارت حریف ہونے کے باوجود اربوں کی تجارت کر سکتے ہیں تو انڈیا اور پاکستان کیوں نہیں؟
دوسری وجہ ہے پاکستان کی بے ہنگم بڑھتی ہوئی آبادی۔ شہر بے لگام بڑھتے جا رہے ہیں اور چاروں اطراف گاؤں کے گاؤں اور زرعی اراضی ہڑپ کر گئے ہیں۔
جس حساب سے آبادی بڑھ رہی ہے، اس حساب سے ہر دو سال کے بعد اسرائیل کی آبادی جتنا ایک ملک وجود میں آ سکتا ہے۔ 25 سال بعد 40 کروڑ افراد کے پاس پاکستان کا قومی شناختی کارڈ ہو گا۔ ماہر معیشت ڈاکٹر حفیظ پاشا نے اپنی نئی کتاب ’چارٹر آف اکانومی‘ میں بے ہنگم بڑھتی آبادی کے اثرات کا جائزہ پیش کیا ہے۔ 1990-91ء سے لے کر 2020-21ء کے دوران پانی کی دستیابی میں 49 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ 1961ء میں بے روزگاری 1.7 فیصد سے بڑھ کر 1981ء میں 3.1 فیصد جبکہ 2018ء میں یہ شرح 5.8 فیصد تک پہنچ چکی تھی۔
اسی طرح، 1947ء میں دیہی آبادی میں فی کس 6 ایکڑ اراضی تھی جو کم ہو کر 0.49 فیصد رہ گئی ہے۔ معیار زندگی کے حساب سے کراچی دنیا کے 231 شہروں میں 210 ویں درجے پر ہے۔
پرانے زمانے کے کیتھولکس کی طرح رجعت پسند مسلمان آبادی پر کنٹرول کے خلاف ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ہر پیدا ہونے والے بچے کا رزق اس کی قسمت میں لکھا ہوتا ہے۔ فرض کیجئے یہ درست ہے کہ ہر پاکستانی مرد، عورت اور بچے کا رزق معجزاتی طور پر آسمان سے نازل ہو گا۔ تو؟
بڑھتی ہوئی آبادی کا مطلب ہے کہ اصولی طور پر پاکستان میں چند دہائیوں بعد مزید آبادی کے رہنے کی گنجائش ہی نہیں رہے گی۔ پانی اس سے پہلے ہی ختم ہو جائے گا۔ انسانی آبادی جو کوڑا کرکٹ پیدا کرتی ہے اسے ٹھکانے لگانے بارے تو کبھی کسی نے سوچا تک نہیں۔ اس خوفناک صورت حال کے باوجود چند سال پہلے پاکستان نے بہبود آبادی کی وزارت ہی ختم کر دی۔
تیسری بڑی وجہ ہے پاکستان کا پست ترین سطح کا نظام تعلیم۔ ہر آجر آپ کو بتائے گا کہ ڈگریوں اور تعلیمی سرٹیفکٹس کی وقعت کیا ہے۔ اچھے معیار کے ہنر مند پیدا کرنے کے لئے محض سکول، کالج اور یونیورسٹی کی عمارتیں تعمیر کرنا کافی نہیں۔ تنقیدی سوچ والے طالب علم ہی کار آمد اور نوکری دینے کے قابل ہوتے ہیں۔ میٹرک اور ایف ایس سی کرانے والے نظام میں یہ ہنر بالکل بھی نہیں پایا جاتا، صرف اے لیول یا او لیول کرانے والے اعلی درجے کے نجی سکولوں میں یہ ہنر سکھایا جاتا ہے۔ رٹے بازی اور مذہبی ذہن سازی نے تنقیدی سوچ اور ذہنوں کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔
یہ حقائق ہمارا منہ چڑا رہے ہیں۔ بیرون ملک مزدور برآمد کرنے والا پاکستان دنیا میں دسواں بڑا ملک ہے۔ یہ افرادی قوت پاکستان کے لئے زر مبادلہ کا بڑا ذریعہ ہیں۔ ان میں لیکن صرف 1 فیصد اعلیٰ پیشہ وارانہ قابلیت کے حامل ہیں (انجینئر، ڈاکٹر، اکاؤنٹنٹ، کمپیوٹر انالسٹ، فارماسسٹ)، 2 فیصد اعلیٰ سطح کے ہنر مند ہیں (نرس،استاد، منیجر)۔ باقی 97 فیصد یا تو ہنر مند (ویلڈر، پینٹر، کارپینٹر وغیرہ) یا کم ہنر یافتہ (زرعی مزدور، مزدور) ہیں۔ اعلیٰ سطح کے سائنسی اور انجینئرنگ کے شعبے میں پاکستانی عالمی سطح پر غائب ہیں۔
آگے کا منظر نامہ: ایک کٹھن وقت ہمارا منتظر ہے۔ سمندری طوفان کے دوران چٹان کے قریب بحری جہاز کا ہونا خوفناک ہوتا ہے۔ اور بھی خطرے کی بات ہے کہ جہاز کا عملہ جہاز کو بچانے کی بجائے باہم دست و گریباں ہے۔ اس سے بھی بڑا خطرہ یہ ہے کہ منزل کا ہی پتہ نہیں۔ پاکستان کو اپنی منزل کا از سر نو تعین کرنا ہو گا۔ جب تک ہم ملٹری ازم، آبادی اور تعلیم کے مندرجہ بالا خوفناک مسائل حل نہیں کرتے، ہمیں مستقبل سے پرُامید ہونے کاحق نہیں ہے۔