بشکریہ روزنامہ جدوجہد
اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اشرافیہ، کارپوریٹ سیکٹر، جاگیرداروں اور فوج کو دی گئی اقتصادی مراعات ایک اندازے کے مطابق 17.4 ارب ڈالر یا ملکی معیشت کا تقریباً 6 فیصد کے برابر ہیں۔
ملک میں مراعات حاصل کرنے والا سب سے بڑا سیکٹر کارپوریٹ سیکٹر ہے جو مجموعی طور پر 4.7 ارب ڈالر کی مراعات یا سبسڈیز حاصل کررہا ہے۔ ان مراعات میں ٹیکس بریکس، چیپ ان پٹ پرائس، اعلیٰ آؤٹ پٹ پرائس یا سرمائے تک ترجیحی رسائی، زمین اور خدمات تک ترجیحی رسائی سمیت دیگر مراعات شامل ہیں۔
دوسرے اور تیسرے نمبر پر سب سے زیادہ مراعات ملک کے امیر ترین 1 فیصد حاصل کرتے ہیں جو ملک کی مجموعی آمدنی کے 9 فیصد کے مالک ہیں اور جاگیردار، جو آبادی کا 1.1 فیصد ہیں، لیکن تمام قابل کاشت زمین کے 22 فیصد کے مالک ہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پاکستانی پارلیمنٹ میں جاگیرداروں اور کارپوریٹ مالکان کی مضبوط نمائندگی ہے، زیادہ تر بڑی سیاسی جماعتوں کے امیدوار جاگیردار یا کاروباری طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی مراعات کو ختم کرنے کی بات کی جاتی ہے تو غریب عوام کو دی جانیوالی مراعات اور سبسڈیز کے خاتمے پربحث کی جاتی ہے۔ اشرافیہ کو ملنے والی مراعات زیر بحث ہی نہیں آتیں کیونکہ پارلیمان میں موجود نمائندگان اشرافیہ سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ملک کی طاقتور فوج، جو کاروباری اداروں کا سب سے بڑا گروپ ہے، کو بھی کاروباروں کیلئے سالانہ 1.7 ارب ڈالر کی مراعات دی گئی ہیں۔ یہ مراعات زمین، سرمائے اور انفراسٹرکچر تک ترجیحی رسائی کے ساتھ ساتھ ٹیکسوں میں چھوٹ کی صورت میں دی گئی ہیں۔ پاکستانی فوج کاروباری گروپ ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی سب سے بڑا شہری رئیل اسٹیٹ ڈویلپر اور منیجر بھی ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان کے سب سے امیر 1 فیصد کے پاس 2018-19ء میں ملک کی 3.14.4 ارب ڈالر کی آمدن کا 9 فیصد تھا، جبکہ غریب ترین 1 فیصد کے پاس صرف 0.15 فیصد ہی پہنچ پایا۔
مجموعی طور پر 20 فیصد امیر ترین پاکستانی قومی آمدنی کا 49.6 فیصد رکھتے ہیں، جبکہ غریب ترین 20 فیصد کے پاس صرف 7 فیصد ہے۔ رپورٹ کے مطابق غریب اور امیر پاکستانی موثر طریقے سے مکمل طور پر دو مختلف ملکوں میں رہتے ہیں، جہاں خواندگی کی سطح، صحت کی سہولیات اور معیار زندگی مکمل طور پر ایک دوسرے سے مختلف، بلکہ متضاد ہیں۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں متوسط طبقہ مسلسل تشویشناک حد تک سکڑ رہا ہے۔ درمیانی آمدنی والے افراد 2009ء میں آبادی کے 42 فیصد سے کم ہو کر 2019ء میں 36 فیصد رہے گئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہونے والے عوامی اخراجات سے بھی عوام کو یکساں طور پر فائدہ نہیں ہوتا۔ عوامی اخراجات کا کردار بھی طبقاتی ہی رہتا ہے اور مجموعی طور پر غریب ترین عوام کیلئے عوامی اخراجات کا 14.2 فیصد خرچ ہوتا ہے جبکہ امیر ترین افراد کیلئے عوامی اخراجات کا 37.2 فیصد حصہ خرچ ہوتا ہے۔