اخون بائے، اے ڈبلیو پی
ملکی سیاسی تناظر میں یہ بحث گرم ہے کہ سازش ہوئی یا نہیں، سازش ہوئی ہے یا مداخلت، الیکشن جلدی ہونا چاہیے، الیکشن وقت پہ ہونا چاہیے، تیل کی قیمت خان کی وجہ سے بڑھی، تیل کی قیمتیں موجودہ حکومت نے کیوں بڑھائی وغیر وغیرہ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ الیکشن قبل از وقت ہو یا وقت پہ سوال یہ ہے کہ ملک معاشی طور پر کس نہج پر پہنچ چکا ہے اس کا کسی کے پاس کیا حل ہے؟ وہ جو ہمیشہ ملک کی سلامتی خطرے میں بتا کر اپنے مقاصد حاصل کرتے تھے اب خاموش ہیں حالانکہ ملکی سلامتی اب واقعی خطرے میں ہے اور خاموش اس لیے ہے کہ اس معاملے میں بولنے پہ ان کے روزگار اور دادا گیری کی سلامتی خطرے میں پڑے گی لیکن ہوش کا ناخن نہ لے کر آج یہ اپنے خرچے کم نہیں کریں تو خدا نخواستہ کل کو خود ہی بند ہو جائے۔ اب فرض کر لیں الیکشن ہو جائے اور کوئی بھی آجائے اور بھاری اکثریت سے ہی آجائے اسی نظام کے تحت اسی طرز پر معشیت چلانے سے دیوالیہ ہونے سے نہیں بچا جا سکتا۔ کیوں کہ کوئی اگر کہے کہ کسی صنعتی یا زرعی انقلاب سے معشیت کو بہتر بنا لیں اور پھر بیرونی قرضوں کے اقساط آسانی سے ادا کریں تو یہ مستقل حل تو ہے لیکن اس کے حصول کی طرف موجودہ معاشی حالت میں بڑھنا مشکل ہے اور اگر بڑھ بھی جائے تو اس میں اتنا وقت لگے گا کہ اس کے حصول تک ملک دیوالیہ ہو جائے گا۔
تو پھر کیا اس کا حل صرف یہی ہے کہ عوام پر بار بار پیٹرول گرایا جائے یا پھر بم گرا گرا کر بجلی گیس کے بل بڑھاکر بھی کیا اس صورتحال سے نکلا جا سکتا ہے؟ ہر گز نہیں۔ کیوں کہ یہ فارمولا تو آزمودہ ہے اور اس سے کبھی معشیت ٹھیک نہیں ہوئی ہے۔ تو پھر کیا کرنا ہوگا؟ اس کے لیے بڑے چونکا دینے والے بلکہ نہ وہ فیصلے کرنے ہوں گے جن سے کچھ لوگوں کے رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔
یہ قرضے لے کر اسے عوام پہ تو خرچ نہیں کیا جاتا ہے۔ اگر اسے دور اندیشی سے منصوبے کے ساتھ پیداواری معاملات مثلاً زراعت، کانکنی، ٹوریزم کی ترقی بجلی کے پیداوار پہ خرچ کریں تو یہ مقررہ مدت سے پہلے بھی اپنے اقساط سے زیادہ پیداوار دے سکتے ہیں مگر بد قسمتی سے اسے غیر پیداواری کاموں میں جھونک دیا جاتا ہے۔ سخت فیصلے کی وردان تو کی جاتی ہیں لیکن یہ سخت فیصلے اشرافیہ کے لیے نہیں بلکہ غریب عوام کے لیے کی جاتی ہے۔ اگر درج ذیل سخت فیصلے عوام پہ بوجھ ڈالنے کی بجائے بہتر معاشی نظام کے لیے کی جائے تو دیوالیہ پن کی اس صورتحال سے نکلنا بھی کچھ مشکل نہیں۔
اس کے لیے خصارے کی بجٹ بنانا چھوڑ دینا ہوگا اور خصارے کا ایک حصہ ان معاشی فیصلوں سے کرنا ہوگا
دفاعی بجٹ میں خاطر خواہ کمی کرنا ہوگا جس میں غیر جنگی سرگرمیوں کو ختم یا کم کرنا ہوگا۔
اشرافیہ پہ ٹیکس بڑھانا ہوگا، زرعی ٹیکس لگا نا ہوگا اور ٹیکس کے نظام کو سخت اور شفاف بنا کر ٹیکس چوروں اور چوری کروانے والوں کو اس کے جکڑ میں لانا ہوگا۔
کرپشن کے خاتمے کے لیے اپر سے نیچے تک ایک مربوط نظام بنانا ہوگا جس میں ریاستی وسائل کے لیکیج ختم ہو۔ دو ارب میں بننے والی فلائی اوور کا بجٹ چار ارب بنایا جاتا اور وہ بھی ناقص ہوتا ہے۔ یعنی آپ جس بجٹ میں جتنا ترقیاتی کام کرنا چاہتے ہیں وہ اس کے آدھے بجٹ میں ہو سکتے ہیں۔
غیر ضروری اشیاء کی درآمد کی پہ مکمل پابندی لگانی ہوگی موجودہ حکومت نے اعلان تو کر دیا ہے لیکن موجودہ نظام میں اور مافیاز جن کے روز گار یہی ہے ان کی موجودگی میں اس پہ عمل درآمد مشکل لگتا ہے۔ لیکن اس فیصلے کو سخت اور موثر بنانا ضروری ہے۔
حکومتی اخراجات، اشرافیہ، وزراء اور اور بیوروکریٹس کے پروٹوکول کم کرنے ہوں گے۔ اور عام زندگی میں کفایت شعاری کا رویہ اپنانا ہوگا مثلاً ذاتی گاڑیوں کی بجائے پبلک گاڑی استعمال کرنا، چائے پینا بند کرنا وغیر جن سے اربوں روپے بچایا جا سکتا ہے۔
اس کے علاؤہ آمدنی بڑھانے کے لیے دیرپا نتیجوں والے فیصلے بھی کرنے ہوں گے۔ مثلاً زرعی اصلاحات کے ذریعے زراعت کو جدید خطوط پر ڈال کر پیداوار بڑھانا مائننگ خاص کر تیل اور گیس کے ذخائر دریافت کر کے نکالنے پہ توجہ دینا۔ ٹوریزم کو فروغ دینا۔
اگر یہ سب نہیں کر سکیں گے تو یقینا ملک دیوالیہ ہو ہی جائے گا۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ ناممکن باتیں ہیں، جی ہاں موجودہ نظام، موجودہ حکمرانوں اور اشرافیہ پارٹیوں کے ساتھ یہ یقیناً ناممکن ہے یہ فیصلے محنت کش اور عام عوام کی کوئی پارٹی ہی کر سکتی ہے جسے انقلاب کہا جاتا ہے۔