راحت نبی
گزشتہ چند سالوں سے گلگت بلتستان اور چترال میں خواتین بالخصوص پڑھے لکھے نوجوانوں میں مبینہ خودکشی اور قتل کے واقعات میں تشویشناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے مگر بطور معاشرہ ابھی تک ہم نے ان واقعات کے پیچھے کار فرما محرکات کو سمجھنے کی قطعی کوشش نہیں کی یا پھر جان بوجھ کر ان محرکات سے چشم پوشی اختیار کی ہے جس کی بدولت آج پورے خطے میں یہ ناسور لاوا بن کر پھوٹنے لگا ہے۔ ہمارا مجموعی رویہ پھر بھی نہایت افسوسناک اور مایوس کن ہیں۔ جب بھی کسی بہن یا کسی بھائی کی مبینہ خودکشی کی خبر ملتی ہے تو ہم بڑی آسانی سے "فلاں نے خودکشی کرکے اپنی جان لے لی” اور تعزیت اور افسوس کے روایتی کلمات لکھ کر سارا ملبہ خودکشی کرنے والے پر ڈال کر خود کو ہر چیز سے بری الذمہ سمجھتے ہیں۔ ہم اُن تلخ حقائق کو جاننے اور ان کے تہہ تک پہنچنے کی کوشش نہیں کرتے ہیں جس کی وجہ سے آئے روز ایسے انسانیت سوز واقعات کا تسلسل ایک دائرے کی شکل میں جاری رہتا ہے۔
اگر ہم ماضی کے واقعات کا جائزہ لیں تو ان میں زیادہ تر قتل کے ہوتے ہیں جنہیں ہمارے سماج میں علاقہ، مذہب اور قومیت کی غیرت کا مسئلہ بنا کر سفید بے داغ چادر میں لپیٹ کر خودکشی کا نام دیا جاتا ہے۔
آج یہ تحریر لکھنے کا مقصد اس واقعہ کی جانب لوگوں کی توجہ مبذول کرانے کی ایک کوشش ہے جس نے نہ صرف ہنزہ گوجال بلکہ گلگت بلتستان اور پاکستان بھر کے انسان دوست اور باضمیر حلقوں کو جھنجوڑ کے رکھ دیا تھا اور گلگت بلتستان سمیت ملک بھر میں پہلی بار وسیع پیمانے پر صدائے احتجاج بلند کیا گیا۔ قومی و عالمی میڈیا نے اس کو اُجاگر کیا۔ میرا اشارہ ادیبہ کے قتل کی طرف ہے اور آج ادیبہ کی پہلی برسی ہے۔ پچھلے سال 6 جون کی صبح ان کی لاش دریا کے کنارے ملی تھی جسے اس کے سسرال والوں نے بڑی بے دردی سے قتل کر کے دریا کے کنارے پھینک دی تھی۔ اس واقعہ کو خودکشی کا نام دینے کی ناکام کوشش کی گئی لیکن جب ہم نے قانونی راستہ اپناتے ہوئے پولیس میں رپورٹ درج کی تو مقتولہ کے سسرال والوں نے دوران تفتیش مجسٹریٹ کے سامنے اقبال جرم کرلیا۔ اب ہمارا کیس عدالت میں زیر سماعت ہے اور ہم عدالت سے انصاف کی امید رکھتےہیں۔
یاد رہے کہ ادیبہ کی شادی کو صرف سات مہینے گزرے تھے۔ مہذب معاشروں میں ہر ماں باپ اپنی بیٹیوں کو نیک تمناؤں اور دعاؤں کے ساتھ گھر سے رخصت کرتے ہیں۔ اسی طرح ادیبہ بھی آنکھوں میں ایک نئی زندگی کا خواب سجائے رخصت ہو گئی تھی مگر اسے کیا معلوم تھا کہ یہ نئی زندگی اُس کے لئے موت کا کنواں بن جائے گی۔ اس ایک سال کے دوران میرا خاندان جس ذہنی، مالی اور روحانی اذیت میرے سے گزر رہا ہے وہ صرف مجھے ہی معلوم ہے یا وہی لوگ اس کا اندازہ کر سکتے ہیں جو اس قسم کے سانحہ سے گزر چکے ہیں۔ ملزمان کی جانب سے اب بھی ہمیں دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور کیس میں تاخیری حربے استعمال کیے جا رہے ہیں۔
سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمارے نام نہاد مہذب معاشرے میں ایک مصنوعی امن پسندی، کا خول چڑھا کے مصلحت کے نام پر اس قسم کے جرائم کو چھپایا جاتا ہے جس کے نتیجے میں مجرموں کو اس قسم کے جرائم کرنے کا حوصلہ ملتا ہے اور معصوم زندگیاں اس ڈھکوسلے امن پسندی، منافقت اور فرسودہ اقدار کے بھینٹ چڑھ جاتی ہیں۔
ایک اندازہ کے مطابق گلگت بلتستان اور چترال میں ایک سال میں تقریباً دو درجن خواتین اور نوجوان "خود کشی” جیسے انتہائی قدم اٹھاتے ہیں یا گھریلو تشدد کا شکار ہوتے ہیں۔ ہمارا معاشرہ اگرچہ خواندگی کے لحاظ سے سب سے آگے ہے لیکن ذہنی طور پر ابھی بھی فرسودہ پدر شاہی رسم و رواج اور ظلم و جبر پر مبنی ہے جس کے شکار خواتین ہو رہی ہیں۔
پچھلے دنوں ہمارے بہت ہی متحرک سیاسی و سماجی کارکن عنایت بیگ نے سوشل میڈیا پر لکھا ہے ایک مہینے کے دوران ضلع غذر میں دس مبینہ خودکشی کے واقعات پیش آچکے ہیں۔ یہ خبر پورے گلگت بلتستان کے حکومتی اور سماجی و مذہبی اداروں کے لئے لمحہء فکریہ ہے۔ اگر جلد ان واقعات کا تدارک نہیں کیا گیا تو پورے خطے پر اس کے بہت ہی بھیانک اثرات مرتب ہونگے۔ آج اس واقعے کے بعد ہم اپنی بیٹی کو رو رہے ہیں، کل خدانخواستہ کوئی اور ہماری جگہ ہوسکتا ہے۔ خودکشی اور قتل کے اس آسیب کو ابھی سے لگام دینا چاہیے ورنہ گھر اجڑتے رہیں گے، بیٹیاں مرتی رہیں گی اور تباہی ہمارا مقدر بنے گا۔
آخر میں میں وزیر اعلیٰ جناب خالد خورشید اور محترم چیف جسٹس سپریم اپلیٹ کورٹ جسٹس شکیل احمد اور ہنزہ کے ٹرائل کورٹ کے جج صاحبان سے گزارش کرتا ہوں کہ ہمیں انصاف دلایا جائے اور ملزمان کو جلد از جلد کڑی سے کڑی سزا دی جائے تاکہ مستقبل میں کسی اور خاندان میں ماں بیٹی اور بہن کے ساتھ ایسا واقعہ پیش نہ آئے۔ انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار کے مترادف ہے۔