نجم سیٹھی
فوری طور پر تازہ عام انتخابات کرانے کے لئے پاکستان تحریک انصاف پوری شدومد سے مسلسل دباؤ ڈالے ہوئے ہے۔ یہ بات بالکل قابل فہم ہے۔ وہ اقتدار سے باہر ہے، اور اسٹیبلشمنٹ کی ”غیر جانب داری“ کی وجہ سے عوامی مقبولیت کھو دینے سے پہلے ایک باری اور لینا چاہتی ہے۔
درحقیقت گذشتہ مارچ میں عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے سے پہلے پی ڈی ایم پر مشتمل حزب اختلاف بھی وسط مدتی انتخابات کا مطالبہ کر رہی تھی۔ اسے خدشہ تھا کہ اگر پانچ سالہ مدت مکمل کرنے دی گئی تو اسٹیبلشمنٹ کی قیادت کے ساتھ مل کر عمران خان اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کر لیں گے۔
تاہم اپریل میں مخلوط حکومت قائم کرنے کے بعد سے پی ڈی ایم کو انتہائی اذیت ناک الجھن کا سامنا ہے۔ کیا یہ انتخابی اصلاحات اور نیب قوانین میں ترمیم کرتے ہوئے مخلوط حکومت میں شامل جماعتوں کے مفاد میں ایک ماہ کے اندر پارلیمنٹ تحلیل کردے، یا پھر قومی مفاد میں آئی ایم ایف کے غیر مقبول پروگرام کو نافذ کرنے کے لئے 2023 تک آئینی مدت مکمل کرے؟
پاکستان مسلم لیگ ن نے لندن اجلاس میں اسمبلیوں کی فوری تحلیل کا فیصلہ کر لیا تھا۔ اسے خطرہ تھا کہ وہ آئی ایم ایف کے مشکل پروگرام پر دستخط کرکے عوام کی ناراضی مول لے گی۔ بہتر ہوگا کہ اب اسٹیبلشمنٹ ہی یہ گند صاف کرے کیوںکہ چار سال تک تحریک انصاف کے تباہ کن دور کو اسی نے سہارا دیا ہوا تھا۔
نیز اسٹیبلشمنٹ کی قائم کردہ نگران حکومت کسی کو جواب دہ نہیں ہوگی۔ وہ عوامی مشکلات کی پروا کئے بغیر آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کر سکتی ہے۔ لیکن عمران خان کے لانگ مارچ کے اعلان نے اسے فیصلہ تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا۔ اس موقع پر عمران خان نے چھ روز کے اندر اندر پارلیمنٹ تحلیل کرنے کی پھر ڈیڈ لائن دے دی۔
کہا گیا کہ پی ڈی ایم ”بلیک میلنگ“ کی ایسی دھمکیوں کے سامنے کس طرح گھٹنے ٹیک سکتی ہے؟ اس کے بعد وہ عوام کا سامنا کس طرح کرے گی؟ ان حالات میں اس نے اب قومی مفاد میں مشکل فیصلے کرنے کی ٹھان لی ہے۔ وہ دعا کر رہی ہے کہ پندرہ ماہ بعد جب انتخابات ہوں تو عوام یہ مشکل دن بھول اور اسے معاف کر چکے ہوں۔
لیکن اب ایک نیا خدشہ سر اٹھا رہا ہے۔ اگر مشکل بجٹ نافذ کیا گیا، عمران خان اسٹیبلشمنٹ کو دباؤ میں لانے میں کامیاب ہو گئے اور عدلیہ پی ڈی ایم کی حکومت کے پاؤں تلے زمین سرکا دے اور تازہ انتخابات کا اعلان کرنا پڑے تو پھر کیا ہوگا؟
اس صورت میں قومی مفاد کے لئے کیا گیا غیر مقبول فیصلہ کیا پی ڈی ایم کی جماعتوں کے لئے کاری ضرب ثابت نہیں ہوگا؟ اس صورت میں کیا تحریک انصاف، اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ پر مشتمل گٹھ جوڑ کے ایک بار پھر اقتدار تک پہنچنے کی راہ ہموار نہیں کر لے گا؟
یہ خدشات یقیناً بلا جواز نہیں ہیں۔ قیاس آرائیاں سنائی دے رہی ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ عمران خان کو رواں برس کے آخر میں تازہ عام انتخابات کے انعقاد کی ضمانت دیدے گی۔ اگر وہ لانگ مارچ کو آئی ایم ایف کے پیکج کے حصول تک موخر کردیں۔
اس وقت پی ڈی ایم پہلے ہی توانائی کی قیمت بڑھانے کی تمازت کا سامنا کر رہی ہے۔ ابھی معیشت کی بحالی اور سیاسی استحکام واپس لانے کے لئے بہت کچھ کیا جانا باقی ہے۔ کیا جانے والا ایک تازہ سروے پی ڈی ایم کی تشویش میں اضافہ کر رہا ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ چھیاسٹھ فیصد اسی برس الیکشن کے حق میں ہیں۔ شہرت یافتہ ماہرین معاشیات آئی ایم ایف کے پیکج کے بعد 23 فیصد مہنگائی کی پیش گوئی کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے پی ڈی ایم کو عوامی ردعمل کا ضرور سامنا کرنا پڑے گا۔
عجیب بات یہ ہے کہ تازہ عام انتخابات کا مطالبہ کچھ دانش ور حضرات کی طرف سے بھی آیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ معیشت کی بحالی کے لئے مشکل اور سخت اقدامات کے لئے تازہ مینڈیٹ درکار ہوگا۔
دوسری طرف یہ بھی دلیل دی جا سکتی ہے کہ پاکستان میں انتخابات شاید ہی کبھی کسی موضوع پر عوامی رائے کا اظہار کرتے ہوں۔ فی الحال بھی ایسا نہیں ہونے جا رہا۔ درحقیقت اس بات کوئی ضمانت نہیں کہ انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آنے والی حکومت، چاہے وہ تحریک انصاف کی ہو یا پی ڈی ایم کی، کو آئی ایم ایف سے موجودہ پروگرام کی نسبت بہتر اور زیادہ ہموار معاشی پروگرام مل جائے گا۔
مزید یہ کہ موجودہ اصلاحات کے عمل میں آئندہ تین یا چار ماہ تک ہونے والی کوئی بھی گڑبڑ ملک کو کہیں زیادہ عدم استحکام اور غیر یقینی پن سے دوچار کر دے گی۔ اس کی وجہ سے معاشی بحال کا عمل مزید مشکلات کا شکار ہو جائے گا۔ اب جبکہ پی ڈی ایم کی حکومت نے قومی مفاد میں معاشی تباہی اور ملک کے دیوالیہ ہونے کے خطرے کا راستہ روکنے کی بھاری ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ اسے اگلے پندرہ ماہ تک کام کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔ اس دوران اس کے پاؤں تلے سے زمین سرکانے سے گریز بہتر ہوگا۔ یہ پاکستان کے لئے ہر لحاظ سے ایک سودمند صورت حال ہے، چاہے اس کے نتیجے میں پی ڈی ایم کی انتخابی توقعات زمین بوس ہو جائیں۔
اگلے ماہ یا اس کے بعد عمران خان کا اسٹیبلشمنٹ یا پی ڈی ایم حکومت پر دباؤ ڈالنے کی تدبیر کا امتحان شروع ہو جائے گا۔ لیکن کچھ معاملات واضح ہو چکے ہیں۔ اگر اسٹیبلشمنٹ واقعی ”غیر جانب دار“ رہتی ہے اور پی ڈی ایم حکومت کو چلتا کرنے کے لئے عمران خان کے دباؤ کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیک دیتی تو شہباز شریف اینڈ کمپنی عوامی احتجاج کو خاطر میں نہیں لانے والی۔ یہ بات بھی یقینی ہے کہ پی ڈی ایم حکومت عمران خان کے احتجاج کا زور توڑنے کی سکت رکھتی ہے، جیسا کہ وزیر داخلہ، رانا ثنا اللہ نے ثابت کر دیا ہے۔
لیکن ایک معلوم ’نامعلوم‘ اپنی جگہ پر موجود ہے۔ یہ عدلیہ، خاص طور پر سپریم کورٹ آف پاکستان کا کردار ہے۔ گذشتہ عشرے میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری، چیف جسٹس ثاقب نثار اور چیف جسٹس آصف کھوسہ کی قیادت میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن کے خلاف کچھ انتہائی متنازع فیصلے دیے ہیں۔
واضح طور پر ان فیصلوں میں اسٹیبلشمنٹ کے مفاد کی بازگشت سنائی دیتی تھی۔ گذشتہ چار برسوں کے دوران اس نے عمران خان اور تحریک انصاف کو قانون کی گرفت سے بچائے رکھا ہے۔ اب یہ پی ڈی ایم حکومت کے خلاف شمشیر بے نیام کئے ہوئے ہے۔ پچیس مئی کو ڈی چوک اسلام آباد میں داخل ہوتے ہوئے عدالت کی حکم کی خلاف ورزی پر پانچ میں سے چار ججوں کے عمران خان کو دیے جانے والے تحفظ پر سوشل میڈیا چیخ اٹھا۔ ججوں کی ”غیر جانب داری“ پر چبھتے ہوئے سوالات اٹھائے گئے۔ منتخب ایگزیکٹو کے تقرریاں اور تبادلے کرنے اور ایگزٹ کنٹرول لسٹ کو تبدیل کرنے کے حق میں مداخلت بھی اسی ذیل میں ایک اور نکتہ ہے۔
اب نیب کے نئے چیف کی تقرری پر سپریم کورٹ اپنی مرضی مسلط کر رہی ہے۔ یہ ہر لحاظ سے پارلیمنٹ میں حکومت اور اپوزیشن کا استحقاق ہے۔ اس وقت عدالت حکومت شخصیات پر بدعنوانی کے الزامات پر استغاثہ اور جج کا کردار بیک وقت ادا کر رہی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عمران خان کا سپریم کورٹ آف پاکستان کو ہدف بنانے کے پیچھے یہی شیطانی محرک کارفرما تھا۔ وہ اپنے لئے ریلیف چاہتے تھے۔ ابھی ہم اگلے چند ایک ہفتوں میں ہوا کا رخ دیکھیں گے۔ لیکن ایک بات واضح ہے کہ اگر پاکستان کو ایک ناکام ریاست بننے سے بچانا ہے تو اسٹیبلشمنٹ یا عدلیہ کے اٹھائے گئے سیاسی عدم استحکام کے طوفانوں کا تدارک کرنا اور اُنھیں ان کی آئینی حدود سے باہر نکل کر مداخلت کرنے سے روکنا ہوگا۔