Baam-e-Jahan

ضیاء ہر تار، ہر سر اور ہر دل میں زندہ رہیں گے

Obituary

تحریر : رضوان کریم


 پچھلے دو دنوں سے سماجی رابطے کی ویب سائٹس فیس بک ، ٹوئیٹر اور انسٹاگرام پر ایک ہی نام، ایک ہی شخص کی تصاویر  فلمیں اور موسیقی سے جڑی یادیں چھائی ہوئی ہے۔ جنہیں دیکھ اور سن کر  ہر شخص اشک بار ہے کہ ضیا ء الکریم نامی یہ خوب صورت گھنگریالے بالوں والا نوجوان جو ہر تصویر میں کوئی نہ کوئی موسیقی کا آلہ لئے کبھی دشت میں، کبھی  کہساروں میں،   کبھی سبزے میں کبھی  تنہا  ،کبھی نوجوان موسیقاروں کے جھرمٹ میں تو کبھی سینکڑوں  شائقین  موسیقی  کی محفل میں کبھی ہنزہ گلگت تو کبھی اسلام آباد لاہور حتیٰ کہ ملک سے باہر بھی اہم ترین شخصیات کے سامنے اپنے فن موسیقی کا مظاہرہ پلکیں جھپکائے ہوئے نہایت عاجزی کیساتھ کرتے ہوئے نظر آرہا ہے- سوگواران میں گلگت بلتستان کے ہر طبقے، مسلک اور علاقے کے لوگ تو نظر آہی رہے ہیں لیکن پاکستان بھر سے موسیقی اور فنون لطیفہ سے جڑے ہوئے لوگ بھی ضیاء کی کسی محفل  موسیقی کی  تصویر یا ان کی اپنی تصویر کے ساتھ اپنے غم کا اظہار کررہے ہیں- شعراء اشعار لکھ رہے ہیں اور ضیا کے نام پر نئی دھنیں ترتیب دی جارہی ہیں۔

آخر یہ ضیا ءہے کون ؟

ہمارے ملک میں عمومی طور پر اس طرح کی رخصتی یا تو کسی سیاسی یا مذہبی لیڈر کو دی جاتی ہے یا کسی حکومتی یا فوجی اعلی افسر کو-  ہمارا معاشرہ اپنے ہیرو ہمیشہ ایسے ہی کسی طبقے میں ڈھونڈتی ہے اور میری توبہ جہاں موسیقی ، ناچ گانے کو شیطانی عمل بنا کر ازلی طور پر نفرت کا نشانہ بنایا گیا ہے تو پھر اس گھٹن زدہ ماحول میں ضیا ءنے ایسا کیا کیا اور وہ کون ہے؟ جی ہاں ضیا ءتھا نہیں کیونکہ ضیا ءہے-ضیاء کا معنی روشنی  ہےاور روشنی کبھی مرتا نہیں۔  اور اس کے وجوہات عرض کئیے دیتا ہوں۔

ضیاء ہنزہ کے فرزند ہیں جنہوں نے پاکستان کے فنون لطیفہ کے سب سے مشہور درس گاہ نیشنل کالج آف آرٹس لاہور سے فن موسیقی کی تعلیم حاصل کی- ان کے ایک استاد بتاتے ہیں کہ گھر والے انہیں آرکیٹیکٹ بنانا چاہتے تھے لیکن ضیا ءکا جنون اور رجحان موسیقی کی طرف تھا جو وقت گزرنے کے ساتھ مکمل ہوا- موسیقی تو خیر ضیاء کے رگ رگ میں بسی ہوئی تھی درس و تدریس کے عمل نے شاید اسے ابھارنے میں مدد کی ہو- غالباً ضیا ءکو یونیورسٹی دور سے پہلے ہی ہنزہ کے ایک قدیمی مقامی آلہ موسیقی  ژغنی میں دلچسپی پیدا ہوئی تھی اور تعلیمی سلسلے کے ساتھ انہوں نے ژغنی کی رینج جو کہ چند مقامی دھنوں تک محدود تھی کو مختلف تجربات کے ذریعے بڑھایا اور نہ صرف خود مہارت حاصل کی بلکہ اس کو باقاعدہ سکھانے کا سلسلہ بھی شروع کیا- گویا ہنزہ کی مقامی موسیقی کو عالمی موسیقی کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے ساتھ اس قدیم آلہ کو بجانے والے بھی دئیے جو آج کم و بیش درجنوں میں موجود ہیں-  تو بتائیے ضیا ہے یا تھا؟

اس بات کے برعکس جہاں گلگت بلتستان کے بیشتر نوجوان تعلیم حاصل کرنے کے بعد پاکستان کے شہروں میں یا ملک سے باہر روزگار اور بہتر معیار زندگی کی ترجیحات کے لیے علاقے سے دور رہتے ہیں ضیا ءنے مقامی موسیقی کی بحالی اور علاقے کے نوجوان بچے اور بچیوں کو اس کی تعلیم دینے کی نہ صرف ٹھان لی بلکہ اپنی چھوٹی سی زندگی میں سینکڑوں ایسے طلبا اور طالبات تیار کیے جو روشنی کی اس مشن کو آگے لے کر جائیں گے۔

یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ضیا ءدنیا کے ان چنیدہ لوگوں میں سے ہے جو  کم عمری میں ہی اتنا کچھ کر گزرتے ہیں کہ نسلوں تک یاد رہتا ہے- اس کے سینکڑوں طلبا ءجب  بھی کسی آلہ موسیقی کو چھوئیں گے ، ہر تار اور ہر سر سے ضیا ءکا نام نکلے گا اور معاشرے میں پیار، محبت، دوستی اور ہم آہنگی کے اقدار کو پھیلاتا رہے گا- تو مان لیا نا ضیا ءہے تھا نہیں؟

 ابھی پچھلے ہی دنوں ضیا ءایک سٹیج پہ ہنزہ کے سب سے عمر رسیدہ ڈھول کے استاد علی گوہر کے گزرنے پہ ان کی خدمات کو  خراج تحسین پیش کر رہا  تھا اور بتا رہا تھا کہ کس طرح ایک موسیقار ایک فنکار کے سینے میں اپنے علاقے کے لوگوں کا علم ان کے احساسات کی شکل میں موجود ہوتا ہے ۔ اب گوہر استاد کے ساتھ وہ احساسات کی درسگاہ بھی گزر گئی لیکن ان کا علم و فن موجود رہے گا-  وہ آج خود بھی استاد گوہر کے پیچھے پیچھے چل دیا۔

ہائے ضیا ء تم توہماری دنیا ویران کر گئے کیونکہ نوجوان بیٹے، بھائی اور دوست کا دکھ بہت بڑا دکھ ہوتا ہے لیکن جنت میں تم گوہر استاد کیساتھ ژغنی ، وائلن، رباب ،تمبک، یا بانسری کی دھنوں پہ وہ دھوم مچانے والے ہو کہ بہشت کے مکیں بھی عش عش کر اٹھیں گے اور تم ہنزہ کے ہر سر ہر تال ہر تھاپ میں زندہ  جاوید رہو گے!

 اپنے علاقے کے لوگوں سے ایک دلی گزارش ہے کہ اپنے فنکاروں کی ان کی زندگی میں قدر کریں کیونکہ وہ تمہارے معاشرے کا دل ہیں اور تمہارے احساسات کی زندگی میں ان کا کلیدی کردار ہے۔ان کے چلے جانے کے بعد لاکھ تقریریں اور انعامات بخشنے سے بہتر ہے کہ موسیقی و دیگر فنون لطیفہ کو بھی تعلیم و تربیت کا حصہ بنائیں اور اپنے بچوں کو موسیقی سیکھنے دیں ۔ اور ان کی فنی ترقی  کے راستے میں دیوار نہ بنیں۔


رضوان کریم کا تعلق گلگت بلتستان کے ضلع ہنزہ سے ہے۔ انہوں نے یونیورسٹی کالج لندن سے تعلیم حاصیل کی ہے۔ وہ مختلف موضوعات بالخصوص گلگت بلتستان میں سیاست، سماجی ترقی اور فنون لطیفہ پر لکھتے ہیں ۔ وہ اپنے ویڈیو پوڈکاسٹ ‘سبز باغ’ کے ذریعے ان موضوعات پر طنزو مزاح کے انداز میں تبصرہ کرتے بھی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں