بشکریہ بی بی سی اردو
سندھ کے ضلع قمبر شہداد کوٹ کے علاقے نصیر آباد سے وارڈ پر جنرل نشست پر انتخاب لڑنے والی فوزیہ نوناری ایک سال قبل اپنے لاپتہ شوہر سینگھار نوناری کی بازیابی کے لیے سراپا احتجاج تھیں۔ ایک سال قبل یعنی 26 جولائی کو سینگھار 36 روز کی جبری گمشدگی کے بعد رہا ہوئے تھے۔ ان کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے۔
فوزیہ گریجویٹ ہیں۔ چند سال قبل تک وہ ایک عام گھریلو خاتون تھیں لیکن شوہر نے ان کی ہمت افزائی کی اور وہ بھی طبقاتی سیاست کے میدان میں اتر آئیں، حالیہ بلدیاتی انتخابات میں گھر گھر جا کر الیکشن ورک کیا جس کا سوشل میڈیا پر کافی چرچا رہا۔
’الیکشن سے قبل ہی مشکلات کا آغاز ہوا اور پولنگ سٹیشن دور کے گاؤں میں منتقل کر دیے گئے جبکہ مخالف امیدوار کی جانب سے دھمکیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ وہ رکن اسمبلی جو کبھی کبھار نظر آتا وہ ذاتی طور پر چار مرتبہ مخالف امیدوار کی مہم چلانے کے لیے آیا۔‘
قمبر شہداد کوٹ سندھ کے ان اضلاع میں سے ہے جس کی سرحدیں بلوچستان سے ملتی ہیں۔ یہاں سرداری نظام کافی مضبوط ہے جبکہ مذہبی شدت پسندی کا رجحان بھی بڑھ رہا ہے۔
فوزیہ نوناری بتاتی ہیں کہ وہ گھر گھر جایا کرتی تھیں اور اس دوران خواتین سے بات چیت ہوتی تھی جن کا کافی مثبت جواب ملتا تھا۔
’وہ اپنے گھروں سے نکلنا چاہتی تھیں اور اپنے وجود کا اظہار کرنا چاہتی تھیں۔ میں نے بھی اعلان کیا تھا کہ اگر کامیاب ہوئی تو جو خواتین کے مقامی مسائل ہیں اُنھیں اجاگر کروں گی۔ مجھے شکست تو ہوئی لیکن جو تین سو سے زائد ووٹ حاصل کیے ان میں زیادہ تر ووٹ خواتین کے ہی تھے۔‘
فوزیہ نوناری کے بقول وہ سمجھتی ہیں کہ بلدیاتی انتخابات سے کوئی بڑی تبدیلی نہیں آ سکتی تاہم اس کے باوجود اُنھوں نے میدان خالی نہیں چھوڑا کیونکہ جاگیرداروں اور وڈیروں کے خلاف یہ بھی ایک میدان ہے جس میں آواز اٹھائی جا سکتا ہے۔
’ہماری سیاست صرف ووٹ اور الیکشن تک نہیں، مقامی مسائل سے لے کر مہنگائی اور دیگر مسائل کے لیے احتجاج جاری رکھیں گے۔‘