Baam-e-Jahan

جشنِ شندور اور ہم سب

شمس الحق قمر (۲۰۱۸ کی تحریر)



نیٹ کھولتے ہی ایک خبر پر نظر پڑی۔ سرخی تھی ’’جشن شندور کے تمام انتظامات کو ڈسٹرکٹ گورنمنٹ چترال کو تفویض کرنے کا مطالبہ‘‘ اس خبر کے نیچے فیس بک کے صارفین نے اپنے اپنے انداز سے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہوا تھا۔ اُن میں سے ایک کمنٹ یہ بھی تھا

Siraj Ulmulk: “Let’s keep this ‘security issue’ to the minimum. In fact no force is required at all. We have been enjoying this festival since many years without it. There was never a need for display of such force. Nothing has changed in our area. These uniformed men whether army or police spoil the spectacle of this wonderful game of polo at the world’s highest polo ground. Let’s do away with the “Khuda Na Khasta” and get on with the game. Otherwise this festival will keep suffering and this unnecessary security issue will kill the game which it thinks it is protecting.”

بہت سارے تماشائی اور شائقین پولو کا خیال ہے کہ گزشتہ ایک دو سالوں سے جشن شندور میدان جنگ کا منظر پیش کر رہا ہے۔ یہاں تماشائیوں سے زیادہ پولیس اور فوج کا بسیرا ہے۔ کیا بہتر یہ نہیں ہوگا کہ سول انسانوں پر سرے سے پابندی لگائی جائے کہ وہ پولو جیسے دہشت ناک کام میں ملوث ہونے سے اپنے اُپ کو باز رکھیں۔ کیا ہماری سرکار نے یہ سوچا ہے کہ کھیل سے وہ لوگ محبت رکھتے ہیں جو کینہ ، بغض ، شدت پسندی اور بد امنی سے کوسوں دور ہیں۔ دنیا میں اچھی حکومتیں اور اچھے حکمران کھیلوں کی ترویج کو ملکی امن و امان کی حکمت عملی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں لیکن ہمارے ملک میں گنگا اُلٹی بہتی ہے۔ یہاں مال مویشی بے لگام ہیں اور درختوں کو باندھا گیا ہے۔

شندور میں یہ میلہ آج کی بات نہیں کہ بلکہ صدیوں سے گلگت اور چترال کے لوگ اس میلے کے بہانے ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور اپنے رشتوں کو مضبوط کرتے آئے ہیں۔ اس مقام پر ماضی میں کسی ناساز گار واقعے کا ذکر نہیں ملتا ۔ہمیں یاد ہے یہاں جنرل ضیا الحق صاحب جب تشریف لا رہے تھے تو تمام لوگ راستے کے دونوں اطراف میں کھڑے تھے اور اُن کی گاڑی لوگوں کے درمیاں میں سے گزر کر اسٹیج تک گئی تھی۔ چترال سکاؤٹس کی بہت کم تعداد تھی۔ جنگل میں منگل کا سما تھا۔ اس حوالے سے بونی کے ایک نوجوان کا واقعہ بڑا مشہور ہے۔ ہوا یوں کہ باپ اور بیٹا دونوں جشن شندور کے لئے گئے اور شندور میں خیمہ زن ہوئے۔ نوجوان کے والد صاحب کسی کام سے باہر گئے تھے واپس جب خیمے میں داخل ہوئے تو اپنے نوجوان بچے کو سگریٹ پیتے ہوئے دیکھا اور ڈانٹے ہوئے کہا ’’اے ڈاق کیہ ریچ ژیبوسان ائے‘‘ ، لڑکے نے جواب میں کہا ’’اے موش اے ہیہ شندور کیہ ہیا ہار کوس تان چیت بوئے‘‘ سال میں صرف ایک مرتبہ اپنی مرضی ہوتی ہے. یہاں لوگ لڑنے جھگڑنے نہیں آتے ہیں بلکہ کھیل تماشے کے لئے آتے ہیں۔ پچھلے سال ہم عین جشن کے دنوں شندور سے گزر رہے تھے اور دیکھا کہ گلگت اور چترال کے ہمارے بھائیوں کی ایک لمبی قطار لگی تھیدیر پولیس ہر ایک کی جامہ تلاشی لینے کے بعد خاردار تاروں کی دوسری طرف یعنی گرانڈ کی جانب جانے کی ہدایت کرتی اور اگلے کی جامہ تلاشی لیتی اور یہی سلسلہ جاری تھا اور ہم گزر گئے۔ عجیب منظر تھا ہمارے لوگ اپنے گھر میں اجنبی تھے ۔ان لوگوں کی جامہ تلاشی کا یہ پہلا تجرنہ تھا۔ جامہ تلاشی سے کچھ لوگوں کو گدگدی کا احساس بھی ہو رہا تھا یوں کچھ نوجواں پولیس کی اُن کے جسموں کے حساس مقامات تک رسائی سے حیران و پریشان تھے اور کچھ نوجواں جامہ تلاشی کے بعد شرم کے مارے چہروں پر کھسیانی مسکراہٹیں لیکر گرانڈ میں داخل ہو رہے تھے۔ آخر دیر سے پولیس منگوانے کی کیا ضرورت تھی جو نہ کسی کی عزت جانتی ہے نہ علاقے کی روایات۔ کیا حکومت دنیا کو یہ دکھانا چاہتی ہے کہ اس ملک کے تمام لوگ دہشت گرد ہیں۔ البتہ حکومت وقت کی یہ بات سر آنکھوں پر کہ وہ ہماری حفاظت کے لئے یہ سب اقدامات کر رہی ہے لیکن طریقہ کار غلط ہے۔ کیا بہتر یہ نہیں ہوگا کہ شندور میں داخل ہونے والے دونوں راستوں کے آخری کناروں میں تلاشی لی جائے اور دل کھول کر تلاشی لی جائے بلکہ ننگا کرکے تلاشی لی جائے لیکن شندور میں داخل ہونے کے بعد تماشائیوں کو پریشان نہ کیا جائے۔ مختصر عرض یہ ہے کہ یہاں وردی پوش تماشائیوں کو کم کرکے دیہات کی تماشائیوں کی تعداد بڑھادی جائے ۔ اگر شندور میں تماشائی بن کے آنے والے وی وی آئی پی لوگ اپنے لئے یہ انتظام کرتے ہیں تو وہ شندور تشریف لانے کی زحمت نہ کریں اگر خواہ مخواہ آنا مقصود ہے تو ہماری روایات کو توڑے بغیر شکرکت کریں۔

مجھے سائمن نامی ایک غیر ملکی سیاح سے ملاقات ہوئی ۔ وہ شندور سے ابھی ابھی گلگت میں اترا تھا ۔باتوں باتوں میں انہوں نے کہا کہ

“I do not appreciate military involvement in Shandur festival. I do not understand as how the government of Pakistan afford finance.”

شندور ٹورنمنٹ 2022 میں فوجی گاڑیوں کی قطار

ایک غیر ملکی سیاح ہماری فضول خرچی کے بارے میں فکر مند ہے لیکن ہم خود ملک کو مال غنیمت سمجھ کر کھائے جا رہے ہیں۔ شندور میں تمام تماشائیوں سمیت پولو پر خرچ ہونے والی رقم سے کہیں زیادہ ملیٹری کو یہاں لانے اور لے جانے میں رقم خرچ ہوتی ہے۔ اس میلے کو ڈسٹرکٹ گورنمنٹ چترال اور ڈسٹرکت گورنمنٹ غذر کی نگلرانی میں کرانے کا خیال سود مند ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے