کریم اللہ
اس وقت چترالیوں کو سیاحت کا بخار چڑھا ہوا ہے اس لئے آنکھیں بند کرکے ہر کس و ناکس سوشل میڈیا پر سیاحت کے فروغ کے فوائد گنوانے میں مصروف ہے۔ حالانکہ موجودہ ماس ٹوارزم چترال کے لئے جتنا نقصان دہ ہے اس کا اعشاریہ ایک فی صد بھی فائدہ چترال کو نہیں مل رہا ہے اور نہ اس سے چترال اور یہاں کے باسیوں کو فائدہ ملے گا۔ کیونکہ جو بے لگام سیاحت پاکستان بالخصوص پہاڑی خطوں میں فروغ پا رہا ہے اس کے ہمارے ماحولیات پر پڑنے والے تباہ کن اثرات پر آج تک کسی نے غور ہی نہیں کیا ہے۔ مثلاً جشن شندور کے موقع پر چالیس سے ساٹھ ہزار افراد وہاں جمع ہوتے ہیں۔ چترال ٹاؤن تا شندور تک ساری سڑک کچی ہے ان چالیس پچاس ہزار نفوس کو شندور پہنچانے میں کم و بیش دس ہزار گاڑیاں استعمال ہوتی ہے۔ جو اپنے پیچھے دھواں اور گرد و غبار چھوڑ جاتی ہیں جس کی وجہ سے ماحولیات اور سڑک کے کنارے رہائش پزیر افراد بری طرح متاثر ہورہے ہیں۔ صوتی آلودگی اس کے علاوہ ہے۔ شندور ڑاسپور والوں کی گرمائی چراگاہ ہے۔ یہاں کے لوگوں کا دار و مدار اس گرمائی چراگاہ پر ہے۔ حکومت چالیس پچاس ہزار افراد کو شندور پہنچا دیتی ہے مگر وہاں ٹوائلٹ کا کوئی انتظام نہیں جس کی وجہ سے کھلی فضاء میں رفع حاجت کرنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ لوگ اپنی باسی خوراک وغیرہ وہی چھوڑ آتے ہیں۔ یہی گندگی شندور میں موجود جانور کھاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے بیمار پڑنے یا مرنے کے امکانات ہوتے ہیں اور اگر ایک یاک مر جائے تو مالک کو دو لاکھ روپے تک نقصان ہوتا ہے۔ ایک بیل مرنے کی صورت میں مالک کو اسی ہزار سے ایک لاکھ اور ایک بکرا مرنے کی صورت میں مالک کو تیس سے چالیس ہزار کا نقصان ہو رہا ہے جبکہ اس جشن سے فائدہ اٹھانے والوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
بے لگام سیاحت کے تباہ کن نقصانات پر بات کرنا آج کی سب سے اہم ضرورت ہے اگر ایسا نہ کیا گیا تو آنے والا کل ایک بھیانک تباہی لے کر نمودار ہوگا۔ جس کے تباہ کن نتائج ہمیں ہی بھگتنا پڑیں گے جبکہ سیاح اور افسر شاہی کا کچھ نہیں بگڑے گا۔