Baam-e-Jahan

شندور کے حوالے سے گلگت بلتستان کے تحفظات اور چند قابل غور سوالات

کریم اللہ


جب بھی جشن شندور کا موقع آتا ہے گلگت بلتستان کے بعض سیاسی لیڈران شندور کی ملکیت کا شوشہ چھوڑ کے بیان بازی اور سیاسی پوائنٹ اسکورنگ شروع کرتے ہیں ، عام طور پر بالائی غذر کی سیاسی قیادت بالخصوص سابق ممبر جی بی قانون ساز اسمبلی سرفراز شاہ ،سابق وزیر سیاحت فدا خان فدا، سابق ایم ایل اے خان اکبر خان اور موجودہ ڈپٹی اسپیکر نزیر ایڈوکیٹ وغیرہ اس حوالے سے خاصے سرگرم دکھائی دیتے ہیں ۔ سرفراز شاہ کا دعوی تھا کہ شندور ان کے برادری کی ذاتی ملکیت ہے ، اسی مدعے کو لے کر وہ اپنی ڈھیڑ اینٹ کی مسجد بنا کر کئی سالوں تک اپنی سیاست چمکاتے رہے ، فدا خان فدا کی اپنی سیاست تھی اور خان اکبر خان کی اپنی۔
یہ سیاست اب بھی جاری ہے چونکہ ماضی میں ذرائع ابلاغ کا شعبہ اتنا وسیع نہیں تھا اور انفارمیشن کے ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچنے میں وقت لگتے تھے یہی وجہ سے ماضی میں گلگت بلتستان کی پوری سیاسی قیادت شندور کے حوالے سے کوئی زیادہ دلچسپی نہیں دکھاتے تھے ۔ اس سلسلے میں نواز خان ناجی صاحب گاہے بگاہے بیانات دیتے اور بالائی چترال کو بھی گلگت بلتستان کا حصہ قرار دے کر دل کی بھڑاس نکالتے تھے ۔ مگر اب سوشل میڈیا کے وجہ سے انفارمیشن کا سیلاب آیا ہے جس کی وجہ سے شندور کے ایشو کو بھی کافی حد تک مقامی سیاست اور عوامی حلقوں میں قابل ذکر بنایا ہے۔ بالخصوص جس وقت شندور فیسٹول کی بات شروع ہوتی ہے ٹھیک اسی وقت گلگت بلتستان کے یہی سیاسی لیڈران کارنر میٹنگوں میں مصروف ہوتے ہیں بیان بازی ہوتی ہے اور شندور کی ملکیت کا دعوی شروع ہوجاتا ہے۔ اس سلسلے میں سال روان میں شندور کی ملکیت کے حوالے سے گلگت سائٹ میں خاصے بیان بازی کا سلسلہ جاری ہے۔ ذرائع ابلاع میں نشر ہونے والی خبروں کے مطابق اس دفعہ سرفراز شاہ صاحب نے شندور کےحوالے سے ذاتی ملکیت کا دعوی ختم کرکے اسے برست سے لے کر پھنڈر تک کے عوام کی مشترکہ چراگاہ قرار دے کر متحدہ انداز سے جدوجہد کا اعلان کیا۔ تو خان اکبر خان سمیت سارے لیڈران متحد ہوکر اب میدان میں آئے ہوئے ہیں جبکہ حلقے کے ممبر قانون ساز اسمبلی نزیر ایڈوکیٹ کی جانب سے تاحال کوئی بیان سامنے نہیں آیا ۔تاہم نواز خان ناجی کے بیانات تسلسل کے ساتھ آرہے ہیں کہ خیبر پختونخوا ہماری زمینا ت پر تجاوز کررہے ہیں اور شندور چونکہ جی بی کا حصہ ہے جس پر چترال بزور طاقت قبضہ جمانے میں مصروف ہیں۔
ایسے میں سکردو سے قوم پرست رہنما منظور پروانہ کا بیان بھی آیا اور اس نام نہاد تجاوز کی مذمت کی گئی ۔
یہاں پر لمبی چوڑی بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں۔ چترال اور گلگت بلتستان کے درمیان ثقافتی روابط کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ماضی میں غذر کا علاقہ ریاست چترال کا حصہ رہا ہے ۔ خاص کر بالائی غذر، یسین جسے چترال میں ویشیگوم کہا جاتا ہے ، اشقومن تا پونیال تک کے علاقے ریاست چترال کی ملکیت رہی ہے ۔یہی کچھ رئیس دور میں ہوتا رہا ہے ۔ اس کے بعد جب کٹور دور آتا ہے تب بھی غذر کا خطہ کسی نہ کسی صورت ان کے پاس رہتے ہیں۔ چاہے ان علاقوں پر حکمرانی کرنے والے خوشو خت دور ہو یا پھر کٹور ۔
تاریخی حقائق کے مطابق رئیس کے بعد طویل عرصے تک مستوج ، غذر، یسین (وریشگوم) تا پونیال تک کے علاقے خوشوخت خاندان کی حکمرانی میں رہے ۔ محقق و مورخ ہدایت الرحمن نے بتایا کہ خوشو خت دور بالخصوص گوہر امان کے زمانے میں میراگرام نمبر 1 سے آگے پورا مستوج کا علاقہ اور تورکھو بھی خوش وخت حکمرانی میں رہے جس کا مرکز یسین(ورشگوم ) تھا انہوں نے یہ بھی بتایا کہ لوئر چترال میں ایون ، کالاش کے تینوں ویلیز اور ارندو بھی ریاست یسین کا حصہ تھے ، جس پر خوشوخت کی حکمرانی رہی ۔
1882ء کو چترال کا میتار شاہ امان الملک اس پورے خطے کو خوش وخت سے لےکر اپنا قبضہ جما لیتے ہیں اور اپنی جانب سے گورنر تعینات کرتے ہیں۔ غالبا 1888ء میں الجرنن ڈیورنڈ یسین و غذر سے ہو کر چترال آیا تھا وہ اپنی کتاب سرحدوں کی تقسیم یعنی دی میکنگ آف اے فرینٹئرز میں لکھا ہے کہ اس وقت یسین میں شاہ امان الملک کے ولی عہد سردار نظام الملک گورنر تھا۔ یہی امان الملک ہی تھے جس کے دور اقتدار کے آیام میں ریاست چترال کی سرحدات ایک طرف پونیال گلگت تک پھیل گئے تھے جبکہ دوسری جانب افغانستان کے اسمار تک اپنی ریاست کو وسعت دیا تھا ۔ کنڑ اور نورستان کے علاقے تو ریاست چترال کے حصے تھے ہی ۔
1892ء میں شاہ امان الملک کی وفات کے بعد چترال خانہ جنگیوں کی لپیٹ میں آیا اور 1895ء تک یہ خوریزی ، اقتدار پر قبضہ اور ایکدوسرے کو گرانے کا سلسلہ جاری رہا ۔ بالآخر انگریزآکر شاہ امان الملک کے چودہ سالا بیٹے شجاع الملک کو تخت نشین کرکے مستوج اور غذر ، ورشیگوم تا پونیال تک کے علاقوں کو چترال سے الگ کردیا ۔
شجاع الملک نے ہوش سنبھالنے کےبعد مستوج ، غذر ، یسین (ورشیگوم ) کو دوبارہ ریاست چترال میں ضم کرنے کےلئے کوششیں کی مگر کوئی خاص کامیابی نہ ہوئی البتہ 1914ء کو انگریزوں نے مستوج کے علاقے کو ریاست چترال کے حوالے کردیا مگر غذر و یسین(ورشیگوم ) کے علاقے بدستور علیحدہ ہی رکھے گئے ۔
جہاں تک شندور کی ملکیت کا سوال ہے تو تاریخ میں زیادہ پیچھے جانے کی ضرورت نہیں۔ پاکستان بننے کے بعد سے اب تک شندور ڑاسپور کے قبضے میں ہے۔ ڑاسپور کے عوام کی گرمائی چراگاہ ہونے کےعلاوہ یہاں ان کے گھر اور مویشی خانے موجود ہے ۔ جبکہ غذر والوں کے گھر اور مویشی خانوں کی موجودگی کا کوئی ثبوت نہیں ملتی ۔ پھر ہم یہ کیسے مان لیں کہ شندور غذر یا گلگت بلتستان کا حصہ ہے جس پر قبضہ جما لیا گیا ہے۔ گزشتہ ایک سو سالوں کی کوئی تاریخی داستاویز یا آثار غذر والے نہیں دکھا سکتے ۔ میں یہ سب کچھ طنز میں نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ یہ زمینی حقائق ہے۔
اب اگر غذر کے ہمارے محترم دوست سمجھ رہے ہیں کہ شندور ان کا حصہ ہے اورچترال نے اس پر قبضہ جما لیا ہے تو خالی خولی بیان بازی اور سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے بجائے اس کا کوئی قانونی حل کیوں نہیں ڈھونڈتے ؟۔ اس حوالے سے گلگت بلتستان کے نامور قانون دان احسان علی ایڈوکیٹ کا بیان سب سے زیادہ وزنی ہے انہوں نے لکھا ہے کہ ” اس مسئلے کا بہترین حل ریاست پاکستان پہ زبردست سیاسی دباؤ ڈال کرکے پی حکومت کو اپنی قدیم مہاراجے کے زمانے کی حدود میں واپس کیا جاسکتا ہے ۔ دوسرا طریقہ عالمی عدالت انصاف سے رجوع کرکے اس تجاوز کو ختم کرایا جاسکتا ہے اور تیسرا حل سپریم کورٹ آف پاکستان میں پٹیشن دائر کرنا ہے کیونکہ آئین پاکستان کے تحت دو صوبوں کے درمیان کوئی تنازعہ ہو یا ایک آئینی صوبہ اور جی بی یا آزاد کشمیر کے درمیان کوئی تنازعہ ہو تو کسی صوبے کا ہائی کورٹ ایسے مقدمے کو نہیں سن سکتا اور صرف سپریم کورٹ کو یہ اختیار ہے کہ وہ اس تنازعے کو سنے سپریم کورٹ تنازعے کی نوعیت کے مطابق ایک اعلیٰ اختیاراتی خود مختار کمیشن سرحدوں کا تعین قدیم ریکارڈ کے مطابق کرنے کے لئے مقرر کر سکتی ہے ۔”
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نواز خان ناجی ہو یا پھر اپر غذر سے سرفراز شاہ، خان اکبر خان ، فدا خان فدا ، نزیر ایڈوکیٹ یا کوئی بھی سیاسی لیڈر، اس معاملے کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں کیوں نہیں لے کر جاتے ۔۔؟؟
اگر سپریم کورٹ آف پاکستان لے جانے میں وہ مطمئن نہیں ہوتے تو پھر عالمی عدالت انصاف میں کیوں نہیں لے جاتے ۔۔؟
اس کا سیدھا سادہ جواب یہ ہے کہ شندور کے ساتھ غذر کے کچھ سیاست دانوں کی سیاست جڑی ہوئی ہے اسی لئے بالائی غذر کے عوام کو جذباتی کرکے اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کررہے ہیں وگرنہ ان کو بھی پتہ ہے کہ یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں جتنا کہ وہ پیش کرنے کی کوشش کررہےہیں ۔
اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ جونہی ماہ جون میں جشن شندور کے حوالے سے باتین شروع ہوتی ہے تو فورا ہی غذر کے یہی کچھ لیڈر شپ بھی متحرک ہوجاتے ہیں پھر میٹنگوں ، اجلاسوں اور جلسہ جلوسوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے جشن شندور تک فضاء گرم رہتی ہے اور جشن شندور کےبعد سارے اپنے اپنے روایتی کاموں میں مشعول ہوجاتے ہیں پھر ایک سال تک خاموش رہنے کے بعد اگلے جون کے مہینے میں اس مسئلے کو لے کر دوبارہ وہی لیڈر شپ نمودار ہوتے ہیں۔
یہ دراصل بالائی غذر کے سادہ لوح عوام کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کا ایک سلسلہ ہے جو گزشتہ کئی عشروں سے جاری ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے