Baam-e-Jahan

شندور میں ہم نے کیا دیکھا؟

ممتاز گوہر


شندور میلے کی مثبت پہلو اپنی جگہ، مگر کچھ ایسے پہلوؤں کی نشاندھی جن کی اصلاح انتہائی ضروری ہے۔
شندور میلہ آہستہ آہستہ ایک مکمل سیکیورٹی زون کی طرف بڑھ رہا ہے جہاں سول عام شہری میلے کے نام پر شدید ذہنی اذیت و پریشانی کا شکار ہو رہے ہیں۔
وی آئی پی پروٹوکول کے نام پر اہم سیاسی و سماجی شخصیات کی عزت نفس کو شدید مجروح کیا جا رہا ہے۔ اور صرف ایک مخصوص طبقے کے سامنے سارے بے بسی کی تصویر بنے رہتے ہیں۔
اس خوبصورت قدرتی علاقے میں گندگی اور پولیتھین بیگ کے پھیلاؤ سے نہ صرف شندور کی خوبصورتی کو خطرات ہیں بلکہ مستقبل قریب میں مختلف ماحولیاتی تبدیلیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ہم نے دیکھا کہ بوائے اسکاؤٹس اور چند فلاحی اداروں کے علاوہ یہاں سے کچرے کو اکھٹا کرنے اور انہیں مناسب جگے پر تلف کرنے کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ ویسٹ مینجمنٹ غذر کی صرف ایک گاڑی تھی جو صرف 10 فیصد ٹینٹ اٹھانے کے بعد بھر چکی تھی۔
وی آئی پی کارڈز اپنوں اور مخصوص لوگوں میں تقسیم کئے گئے۔ غذر پریس کلب کے بیشتر ممبران سمیت اہم شخصیات کو اِن سے محروم رکھا گیا۔
ہم وہی بیٹھے تھے جہاں سے وی آئی پیز داخل ہو رہے تھے ہم نے کئی گھنٹوں تک غذر و گلگت بلتستان کے اہم سیاسی و سماجی شخصیات کے ساتھ سول بیورو کریسی کے افسران کو خوار اور اُن کی عزت نفس کو مجروح ہوتے دیکھا۔
ہم نے غذر اور گلگت بلتستان انتظامیہ کے سب سے ٹاپ لیول کے عہدے داروں کو بے بس دیکھا۔ جو دکھاوے کی حد تک تو سامنے تھے مگر اُن کے اختیار میں کچھ بھی نہیں تھا۔ اور مزے کی بات اہم سیاسی شخصیات بھی عجیب بے بسی کی تصویر بنے ہوئے تھے۔
ہم نے گلگت بلتستان سپورٹس بورڈ کے زمہ داروں کو جھوٹ بولتے دیکھا۔ انہیں کھیل شروع ہونے سے چند گھنٹے قبل تک افسر شاہی کی پولو ٹیم کے پلیئرز کا پتہ نہیں تھا اور ساتھ اس ٹیم کی سلیکشن سے کھلاڑیوں کے گراونڈ میں آنے تک سب کو لا علم رکھا گیا۔
ہم نے محکمہ سیاحت جی بی کے سیکریٹری اور اہم عہدے داروں کو اس اہم ایونٹ سے غائب دیکھا۔ سب سے بڑھ کر ہم نے دیکھا کہ زمہ داران یہاں بغیر کسی بھی قسم کی پلاننگ کے آئے تھے۔
جو کارڈ تقسیم ہوۓ وہ سب کے پی حکومت اور محکمہ سیاحت کے پی کے کی جانب سے ہوئے۔ ہمارے اداروں کا اس میں کردار "ہم ہیں خوا مخواہ” اس میں والا رہا۔
ہم نے کمنٹری میں مائک چھینتے دیکھا۔ مخصوص طبقے اور اداروں کی تعریفیں دیکھی جب کہ حقیقت میں انہوں نے کوئی خاص کردار ادا ہی نہیں کیا تھا۔
ہم نے سپورٹس بورڈ کے زمہ دار کو یہ فخر سے کہتے ہوئے دیکھا کہ گلگت بلتستان اے اور بی ٹیم کے علاوہ باقی ٹیموں کی سلیکشن کا ہمیں علم نہیں ہے۔
ہم نے یہاں تین دنوں میں اسی فیصد سے زائد لوگوں کو شراب کے نشے میں مست دیکھا۔ اور اندازاً ستر لاکھ کے قریب رقم صرف اس مد میں اڑا دیئے گئے۔
ہم نے گلگت بلتستان کی تمام پولو ٹیموں کی بی بسی دیکھی۔ اور چترال کی ٹیموں کے سامنے درجنوں گولز سے ڈھیر اور اپنے شائقین کو مایوس کرتے ہوئے دیکھا۔ اے ٹیم کو آٹھویں بار بھی ہارتے دیکھا۔
ہم نے ایک بار پھر سلیکشن کمیٹی اور زمہ داروں کی نااہلی کو قریب سے دیکھا۔ اور ہمیں یہ بھی یقین ہے کہ پھر بھی اُن کو کسی قسم کی شرم محسوس نہیں ہوگی اور اپنے عہدوں اور مراعات سے اُسی طرح ہی چمٹے رہیں گے۔
ہم نے سرکاری کھانا اور ٹینت رشتہ داروں میں تقسیم ہوتے دیکھا۔ ہم نے واش رومز کی سہولت نہیں دیکھی کچھ واش رومز تو تھے مگر پانی کے بغیر۔
ہم نے دیکھا کہ ہماری حکومت اور انتظامیہ کی نا اہلی سے شندور ہم سے نکل ہی چکا ہے اور ساتھ تعجب والی بات یہ ہے کہ آہستہ آہستہ چترال والوں کے ہاتھ سے بھی نکل رہا ہے اور کسی اور کے ہاتھ میں جا رہا ہے اور اس کے لئے چترال والے بطور سہولت کار اپنا کردار خوب نبھا رہے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں