Baam-e-Jahan

لاسپور کے عوام کی مثالی مہمان نوازی

ظہیر الدین بہرام



میرے خطے کے لوگوں نے آج ایک مرتبہ پھر مجھے اپنے چترالی ہونے پر ناز کرنے کا موقع فراہم کیا۔
تین جولائی 2022ء کے دن شندور میلے کی اختتامی تقریبات اور پولو میچ کا فائنل دیکھنے کے بعد بڑی تعداد میں ملکی و غیر ملکی سیاح شندور سے چترال شہر کی جانب روانہ ہوگئے تو شندور کے دامن میں واقع وادئ لاسپور کی ندی نالوں میں طغیانی کے سبب سے کئی مقامات پر راستے مسدود ہونے کی وجہ سے لوگ آگے جانے سے قاصر رہے۔ کئی گاڑیاں کیچڑ میں پھنس گئیں اور بعض سیلابی ریلے میں بہہ گئیں۔ حسب معمول سرکاری اہلکار اور ضلعی انتظامیہ کے ذمہ داران سیاحوں اور شائقین پولو کو بے یار و مددگار چھوڑ کر غائب ہوگئے۔ اتنے اہم موقعے پر ہنگامی حالات سے نمٹنے اور راستوں کو کھلا رکھنے کا قبل از وقت انتظام کرنا حکومت اور انتظامیہ کی بنیادی ذمہ داری تھی لیکن وطن عزیز میں انتظامیہ سے ایسی ذمہ دارانہ حرکت کی امید رکھنا حماقت کے مترادف ہے۔ لاسپور کی تنگ وادی میں ہزاروں سیاح مسافروں کا پھنس جانا اپنی جگہ پریشانی کی بات تھی لیکن جب شام سائے ڈھلنے لگے تو مسافروں (جن میں ملکی و غیر ملکی افراد نیز مرد حضرات کے ساتھ ساتھ خواتین اور بچے کی بھی شامل تھے) میں خوف کی کیفیت پیدا ہونا بالکل فطری بات تھی۔ کھانے پینے انتظامات کی فکر اور سر چھپانے کے لیے محفوظ ٹھکانے کا بندوبست ناممکن نظر آ رہا تھا۔ کچھ مقامی ڈرائیور اور مسافر اپنی مدد آپ کے تحت راستہ کھولنے اور گاڑیوں کو ملبے سے نکالنے کی کوشش کر رہے تھے۔

ایسے میں چشم فلک نے وہ مناظر دیکھے جس کی مثالیں انسانی تاریخ میں بہت کم ملتی ہیں۔ میں اس کا عینی شاہد تو نہیں ہوں لیکن موصول شدہ اطلاعات کی روشنی میں چشم تصور سے دیکھ رہا ہوں کہ پوری وادئ لاسپور کے مکین اور آس پاس کے علاقوں کے چترالی فورا حرکت میں آگئے۔ فلاحی تنظیموں کے ذمہ داران کی فعالیت تو سمجھ میں آتی ہے لیکن یہاں تو ہر مرد اور عورت، بزرگ، بچہ اور جوان متحرک تھا۔ ملبہ ہٹاکر راستے کھولنے اور کیچڑ میں پھنسنے والی اور سیلابی ریلے میں بہنے والی گاڑیوں نکالنے کا کام مقامی جوانوں نے سنبھال لیا۔ مہمانوں کے لیے کھانے پینے اور محفوظ و آرام دہ ٹھکانوں کا انتظام بھی مقامی لوگوں نے اپنے ذمے لے لیا تھا۔اہل وادی نے اپنے مہمان خانوں اور گھروں کے دروازے مہمانوں کے لیے کھول دیے، جگہ جگہ خیمے نصب کئے گئے، دیگیں پکانے کا اہتمام کیا گیا، لوگوں نے اپنے گھروں میں پکا ہوا کھانا خود کھانے کے بجائے مہمانوں کی خدمت میں پیش کرنے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے تھے، حتی کہ گھریلو خواتین ہانڈیاں اور روٹیاں کاندھوں پر اٹھائے ان مقامات تک پہنچنے کی کوشش کر رہی تھیں جہاں مہمان مسافر پھنسے ہوئے تھے تاکہ لوگوں کو گھروں اور محفوظ مقامات تک پہنچانے سے پہلے ان کی بھوک مٹانے کا بروقت انتظام ہو سکے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے مسلسل آگاہی مہم جاری تھی جس کے ذریعے رضا کاروں کو ہدایات جاری کرنے کے ساتھ ساتھ مہمان مسافروں کی رہنمائی کا بندوبست اور ان کو تسلی دینے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ میں وادئ لاسپور والوں سے زیادہ متعارف نہیں ہوں اس لیے ان سرگرمیوں میں حصہ لینے والوں کے نام نہیں لے سکتا تاہم چترال پولو ٹیموں کے چیف کوچ اور شندور کے میزبان اعلی امیر اللہ خان یفتالی صاحب اور ان کے اہل خانہ نے قائدانہ کردار ادا کرکے بابائے لاسپور گل ولی خان کے خاندان کی مہمانوازی اور خدمت انسانیت کی دیرینہ روایات کو قائم رکھاجس پر وہ اور تمام اہل وادی خراج تحسین کے مستحق ہیں۔
اس تمام سرگرمی کا سب اہم اور خوش آئند پہلو یہ تھا کہ مسافروں کی مجبوری سے فائدہ اٹھاکر مال بنانے کی فکر کسی کو نہیں تھی۔ نہ گاڑیوں کو ملبے سے نکالنے کے لیے کوئی معاوضہ طلب کر رہا تھا، نہ کھانے پینے اور رہائش کے لیے منہ مانگی قیمت ادا کرنی پڑ رہی تھی۔
اہل چترال نے گزشتہ موسم سرما میں مری میں پیش آنے والے ناخوشگوار واقعات کی تلافی کرکے پاکستان اور پاکستانیوں کا وہ چہرہ دنیا کو دکھایا جس پہ فخر کیا جا سکتا ہے۔
شکریہ چترال، شکریہ لاسپور۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے