فرمان بیگ
گزشتہ چار دونوں سے ناصر آباد ہنزہ کے مقام پر شاہراہ قراقرم پر مرد و خواتین اس چلچلاتی دھوپ میں سڑک پر دھرنہ دیے بیٹھے ہیں۔ سیاحت بری طرح متاثر ہورہی ہے۔ لوگ مسائل کے شکار ہورہے ہیں۔ ہنزہ دیگر علاقوں سے کٹ چکا ہے۔ لیکن کہی سے بھی کوئی شنوائی نہیں ہورہی۔ حکمران ٹس سے مس نہیں ہورہے۔ اس دھرنے کی وجہ مبینہ طور پر ایک غیر مقامی سرمایہ دار مہمند داد منرلز پرائیوٹ کمپنی کو منرل ڈپارٹمنٹ کے حکام کی جانب سے کاغذات میں ہیرا پھیری کرکے غیر قانونی طور پر ناصرآباد کے ماربل لیز کا اجرا بتایاجا رہا ہے جس کے خلاف ناصر آباد کے مرد وخواتین سڑک پر موجود ہیں۔
آخر ناصر آباد کے عوام اس حد تک کیوں مجبور ہوئے کہ وہ اس دھوپ میں اپنے بیوی بچوں سمیت سڑک پر آکے بیٹھ گئے؟
گزشتہ رات ناصر آباد نیچرل ریسورس مینجمنٹ کمیٹی کے منتطمین نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے مطالبات پر حکومت سنجیدگی کا مظاہر نہیں کررہا۔ انکا کہنا ہے کہ گزشتہ کافی عرصہ سے ہم نے اپنی گزارشات حکومتی اراکین اور مطلقہ مائینگ ڈپارٹمنٹ کے حکام کے گوش گزار کرتے رہیں اور دھرنے کو بھی چار روز گزرنے کے باوجود منرل ڈپارنمنٹ کے حکام اور حکومتی اراکین اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے۔ اس لیے حکومتی رویے کے خلاف ہم مکمل طور پر سڑک بندکر رہے ہیں۔ جب تک ہمارے مطالبات پر عملدرآمد نہیں ہوتا اور ماربل کی راہداری کو بحال نہیں کیا جاتا اور مذکورہ مہمند دادا منرلز پرائیوٹ کمپنی کے لیز کو منسوخ نہیں کیا جاتا ہم دھرنے سے نہیں ہٹیں گے۔
ناصر آباد کے عوام کا کہنا ہے کہ ہم نے الناضر ملٹی پرپز کوآپرئیٹو سوسائٹی کے نام اجتماعی طور پر اپنی ملکیت زمین پر موجود ماربل لیز 1989 میں حاصل کیا ہوا ہے۔ ساتھ میں کروڑو کی سرمایہ کاری سے ماربل مائین تک راستہ تعمیر کرنے کے ساتھ کان کنی بھی جاری ہے اور خام مال سائیٹ پر تیار کر رہے ہیں۔ مگر منرل ڈپارٹمنیٹ راہداری جاری نہیں کررہا۔ نیچرل ریسورس مینجمنٹ کمیٹی کا یہ کہنا ہے کہ مہمند داد نامی غیر مقامی کمپنی کے نام مبینہ طور پر کاغذات میں ڈپارٹمنٹ کے حکام کی ملی بھگت سے ردوبدل کرکے مذکورہ کمپنی کے نام لیز 2004 میں جاری کیا ہوا ہے۔ حالانکہ مہمندداد منرلر پرائیوٹ کمپنی کو لیز ملنے سے قبل پندرہ سالوں سے ناصر آباد کے عوام اپنے لیز شدہ ایریا میں ماربل کی کان کنی میں مصروف ہیں۔ جبکہ منرل ڈپارٹمنٹ مہمنددادا منرلز کے مذکورہ مبینہ جعل سازی سے تیار کردہ لیز کو جواز بناکر ہمیں رہداری سے محروم رکھا جارہا ہے۔
ناصر آباد نیچرل ریسورس مینجمنٹ کمیٹی کا یہ بھی کہنا ہےکہ گزشتہ پندرہ سالوں سے اس غیر قانونی اور جعل ساز کے زریعے جاری کردہ لیز کے خلاف ہر جگہ ہم نے اپنی گزارشات پہچاتے آرہے ہیں۔ گزشتہ فروری میں وزیراعلی گلگت بلتستان نے اسکا نوٹس لیتے ہوئے کرنل ریٹائرڈ عبیداللہ بیگ سی نیئر منسٹر گلگت بلتستان کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی تھی جس نے ایک ہفتے میں رپورٹ پیش کرنا تھا مگر رپورٹ دینے کی بجائے وزیراعلی کے معاون خصوصی نے میڈیا کے زریعے ہمارے پشتنی زمینوں کو خالصہ سرکار قرار دے کر ایک غیر مقامی کمپنی کو لیز فراہمی کا جواز فراہم کرنے کی ناکام کوشش کی جو کہ سراسر ظلم زیادتی اور ناانصافی پر مبنی ہے۔ چار مہینے گزرنے کے باوجود رپورٹ دینا دور کی بات ہم سے کیے وعدے پر بھی حکومت کی جانب سے سست روی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔
دوسری جانب ہنزہ آل پارٹی کانفرنس کے شرکاء اور سیاسی پارٹیوں کے عہدادروں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے ناصر آباد عوام کے دھرنے کی بھر حمایت کا اعلان کیا۔ انھوں نے زور دے کر کہا کہ گلگت بلتستان میں خالصہ سرکارکی کوئی وجود ہی نہیں۔ یہاں کے وسائل یہاں کی زمین یہاں کے مقامی باشندوں کی ملکیت ہے۔ حکومتی اداروں کو کوئی حق نہیں کہ وہ مقامی عوام کو اعتماد میں لائے بغیر کوئی بھی فیصلہ کریں۔ انھوں نے مطالبہ کیا کہ مہمنددادا کمپنی کے نام جاری ماربل لیز کو فوری طور پر منسوخ کریں اور ناصر آباد کے عوام کو راہداری فی الفور جاری کریں۔ انھوں نے حکومتی پالیسی کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور انتباہ کیا کہ اس مسئلہ کو سنجیدگی سے حال کیا جائے۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں اس احتجاج کو دیگر علاقوں تک بڑھایا جائے گا جس کی تمام تر ذمہ داری حکومت وقت پر عائد ہوگی۔
دوسری طرف دھرنے کی وجہ سے سیاحت کے شعبہ سے وابستہ افراد دبے الفاظ میں اس دھرنے کی مخالفت کررہے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ یہی چند مہینے سیاحت کا سیزن ہوتا ہے جو اسطرح کے دھرنوں اور سڑکوں کی بندشوں کی وجہ سے متاثر ہو رہا ہے۔ یہ چند مخصوص افراد جانے انجانے میں سہولت کار بنتے ہوئے ہنزہ کے اجتماعی کاز کو اپنی ذاتی فائدے کے لیے نقصان پہنچانے کا سبب بھی بن رہے ہیں۔ جب کہ ناصر آباد کے عوام آج گلگت بلتستان اور بلخصوص ضلع ہنزہ کے اجتماعی وسائل کے تحفظ کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ گلگت بلتستان اور بلخصوص ڈسٹرک ہنزہ اور ڈسٹرک نگر کےقدرتی وسائل زمین پہاڑ یہاں کے پشتنی باشندوں کی زرخرید ہیں۔ ان پشتنی باشندگان نے سالہا سال سے سابقہ ریاستوں سے دریائے سے پہاڑ کی چوٹی تک ایک ایک اینچ زمین کا معاوضہ دے کر خریدا ہوا ہے۔ یہاں کے وسائل پر زبردستی قابض ہونا یہاں کے عوام کبھی بھی برداشت نہیں کرینگے۔ لہذا حکومت کو چاہیے کہ مقامی لوگوں کے مرضی و منشاء کے بغیر اقدامات دفتروں میں بیٹھ کر کسی مخصوص افراد اور اداروں کے حق میں نہ کریں جس سے علاقے میں بے چینی پھیلنے کا خدشہ ہو۔