Baam-e-Jahan

مہاجرین کا مسئلہ طبقاتی حل کا متقاضی

سعید خاصخیلی


سامراجی جنگیں، خانہ جنگیاں، غربت، قحط، ماحولیاتی تبدیلیاں اور معاشی بد حالی وہ اہم اسباب ہیں جن کی وجہ سے محنت کش اپنا وطن چھوڑ کر بہتر روزگار اور حالات زندگی کی تلاش میں پوری دنیا میں بھٹکنے پر مجبور ہیں۔ مارکس نے ایک سو ستر سال پہلے ایک مشہور فقرہ کہا تھا کہ” محنت کشوں کا وطن نہیں ہوتا۔“ یہ کوئی جذباتیت پر مبنی فقرہ نہیں تھا۔ جاگیرداری کے خاتمے اور صنعتی انقلاب نے سماج میں ایک ایسے طبقے کو جنم دیا جس کے پاس اپنی قوتِ محنت بیچنے کے سوا کوئی ملکیت نہیں ہوتی۔ وہ یا تو بیروزگار ہو کر اپنے ہی وطن میں بے وطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتا ہے یا بہتر روزگار کی تلاش میں اسے دنیا بھر کی خاک چھاننی پڑتی ہے۔
اس وقت دنیا میں مہاجرین کی تعداد لگ بھگ اٹھائیس کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔ جو دنیا کی آبادی کا 3.5 فیصد بنتی ہے۔ یہ ایک حیران کن حقیقت ہے کہ دنیا کی دوسری تیز ترین شرح نمو کی حامل معیشت انڈیا پہلے نمبر پر ہے جہاں سے سب سے زیادہ تعداد میں محنت کش ہجرت کرنے پر مجبور ہیں۔ ورلڈ اکنامک فورم کی حالیہ رپورٹ کے مطابق ان مہاجرین کی پہلی ترجیح امریکہ ہوتی ہے۔ 1970ءکے بعد عالمی سطح پر ہجرت میں تین گنا اضافہ ہوا ہے۔
مشرق وسطیٰ میں سامراجی جنگیں، افریقی ممالک میں خانہ جنگیاں اور روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام بھی عالمی طور پر بہت بڑی آبادی کی ہجرت کا سبب بنا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے موسمی بگاڑ کے سبب بھی چین، موزمبیق، انڈیا، امریکہ اور فلپائن میں لوگ اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔
یہ ہجرتوں کا سفر ان دربدر لوگوں کے لئے کبھی بھی آسان نہیں رہتا۔ یہ لوگ اپنی خوشی سے اپنا گھر بار نہیں چھوڑتے ہیں۔ زندگی ایک مستقل اذیت بن کے رہ جاتی ہے۔ پناہ گزین بچوں اور خواتین کی انسانی اسمگلنگ کے اعداد و شمار بہت کم کر کے بتائے جاتے ہیں۔ 2014ءسے 2019ء تک 33400 مہاجر خواتین، مرد اور بچے راستوں میں موت کا شکار ہوئے ہیں۔ جن میں 18500 کی تعداد کے ساتھ سب سے زیادہ بحیرہ روم کو پار کرتے کشتیاں ڈوبنے سے مرے ہیں۔ یہ تعداد صرف رپورٹ کیے گئے کیسوں کی ہے۔ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کے بعد 18000 مہاجرین امریکہ میکسیکو کی سرحد پار کرتے وقت قتل کیے گئے یا مرے ہیں۔
2008ءکے معاشی بحران کے پھٹنے کے بعد خاص طور پر یورپ اور امریکہ میں مہاجرین مخالف رجعتی پارٹیوں اور تحریکوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس کیفیت کے اثرات محنت کش طبقے کی کچھ پرتوں، تنظیموں اور پارٹیوں پر بھی پڑے ہیں کہ ہجرت کے خلاف سرحدی اقدامات کرنے اور سخت قوانین بنانے جیسے مطالبات بھی وہاں سے آ رہے ہیں۔ ایسی کیفیت میں انقلابیوں کا یہ فرض بنتا ہے کہ محنت کش طبقے کو قومی، مذہبی، لسانی اور نسلی تعصبات سے بچاتے ہوئے مہاجرین کے عالمی سطح پر پیچیدہ ہوتے ہوئے مسئلے کا طبقاتی اور انقلابی حل پیش کیا جائے۔
9 اپریل 1870ء کو مارکس نے اپنے امریکی کامریڈوں کو ایک خط لکھا جس میں بہت سے موضوعات کو زیر بحث لایا گیا۔ سب سے اہم نقطہ آئرلینڈ کا سوال تھا۔ خاص طور پر آئرش محنت کشوں کی ہجرت کے برطانیہ پر اثرات کے حوالے سے۔
خط میں مارکس لکھتا ہے کہ ”برطانوی حکمرانوں کی آئرش مہاجرین کے لئے پالیسی برطانوی صنعتکاروں اور جاگیردار اشرافیہ کے معاشی مفادات کو سامنے رکھ کر تشکیل دی گئی ہے۔ برطانوی اشرافیہ اور بورژوازی کے مشترکہ مفادات ہےں۔ ایک طرف تو وہ آئرلینڈ کو ایک چراگاہ بنانا چاہتے ہیں کہ وہاں سے برطانیہ کی اون اور گوشت کی ضرورت پوری ہو سکے اور جو سستی ترین قیمتوں پر دستیاب ہوں۔ سرمایہ داروں کا ایک اور مفاد بھی ہے کہ آئرش لوگوں کو اپنے ملک سے زبردستی ہجرت کرنے پر مجبور کر کے آبادی کو کم کیا جائے تاکہ بعد میں وہاں برطانوی سرمایہ کاری (زراعت) محفوظ رہ سکے۔“
مارکس آگے لکھتا ہے کہ ”ان مفادات سے بھی بڑھ کے برطانوی حکمرانوں کے آئرلینڈ کی موجودہ معیشت میں بہت اہم مفادات ہیں۔ آئرلینڈ کے محنت کشوں کی برطانیہ کی طرف جبری ہجرت اور برطانیہ کی محنت کی منڈی میں آئرش مزدوروں کا تیزی سے اضافہ نہ صرف انگریز مزدورں کی اجرتوں میں کمی کا سبب بنا ہے بلکہ ان کی مادی اور اخلاقی حیثیت میں بھی کمی کا سبب بنا ہے۔ سب سے اہم چیز یہ کہ برطانیہ کا ہر ایک صنعتی اور کاروباری مرکز اب مزدوروں کے دو مخالف کیمپوں میں تبدیل ہو چکا ہے۔ جس کے ایک طرف انگریز مزدور ہیں تو دوسری طرف آئرش مزدور۔ ایک عام انگریز مزدور ایک عام آئرش مزدور سے نفرت کرتا ہے۔ اسے اپنے مدمقابل سمجھتا ہے جو اس کے معیار زندگی کے کم ہونے کا سبب بن رہا ہے۔ آئرش مزدور کے مقابلے میں وہ خود کو حکمران قوم کا فرد سمجھتا ہے اور نتیجتاً وہ انگریز اشرافیہ اور سرمایہ داروں کے لئے آئرش مزدوروں کے خلاف ایک ہتھیار بن رہا ہے اور اپنے اوپر ان کے قبضے اور حکمرانی کو اور مضبوط بنا رہا ہے۔“
مارکس کے آخری الفاظ انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ مارکس لکھتا ہے، ”یہ (محنت کشوں کی آپسی) دشمنی مصنوعی طور پہ نہ صرف زندہ رکھی جاتی ہے بلکہ پریس اور ہر وہ ذریعہ جو حکمران طبقے کو میسر ہے کو استعمال کر کے بڑھائی جاتی ہے۔ (مہاجر محنت کشوں کی طرف ) دشمنی انگریز پرولتاریہ کے منظم ہونے کے باوجود اس کے (سیاسی طور پر) بانجھ ہونے کا راز بن چکی ہے۔ یہ ایک ایسا راز ہے جس کے ذریعے انگریز بورژوازی اپنی حکمرانی قائم رکھے ہوئے ہے اور آئرش محنت کش اس راز سے بخوبی آگاہ ہیں۔“
مارکس کا یہ خط ہمیں وہ بصیرت عطا کرتا ہے جس کے ذریعے ہم آسانی سے نہ صرف پاکستان میں بلکہ عالمی سطح پر مہاجرین کے مسئلے کا حل پیش کرنے کے اہل ہوسکتے ہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام کی ناہموار ترقی اور تیسری دنیا میں صنعتی انقلاب کی تاخیرزدگی نے پسماندہ خطوں کے محنت کشوں کو صنعتی شہروں کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور کیا ہے۔ جس وجہ سے آبادی کی تبدیلی جیسے مسائل پیچیدہ ہو کر ان صنعتی شہروں میں سامنے آ رہے ہیں۔
ہندوستان کے خونی بٹوارے نے جہاں لاکھوں لوگوں کو ہجرت کرنے پر مجبور کیا وہیں نوخیز ریاست پاکستان کے صوبہ سندھ میں ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والے مہاجرین کے مقامی آبادی سے لسانی اور ثقافتی طور پر مختلف ہونے کے سبب اپنے آغاز سے ہی ڈیموگرافی کا مسئلہ سندھ کا ایک اہم سیاسی مسئلہ بنا ہوا ہے۔ خاص طور پر سندھ کا دارالخلافہ اور سب سے بڑا شہر کراچی ایک صنعتی مرکز ہونے کی وجہ سے پاکستان کے دوسرے صوبوں کے محنت کشوں کے لئے روزگار کے حوالے سے توجہ کا مرکز رہا ہے۔ افغانستان پر مسلط کی گئی سامراجی جنگ اور خیبرپختونخواہ کے قبائلی علاقوں میں طالبنائیزیشن سے تنگ آئی ہوئی آبادی کا رخ بھی زیادہ تر کراچی کی طرف رہا ہے اور آج کراچی پختون آبادی کا سب سے بڑا شہر بن چکا ہے۔ جبکہ شہر کی مقامی آبادی ایک چھوٹی سی اقلیت بن کر رہ گئی ہے۔
پاکستانی حکمرانوں کی پاکستان کو ایک قومی ریاست بنانے کی ناکامی سے آج قومی سوال اور زیادہ پیچیدہ شکل اختیار کر چکا ہے۔ آج کراچی مظلوم قومیتوں، لسانی اقلیتوں اور پناہ گزین محنت کشوں کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پہلے ہی حکمرانوں نے نہ صرف کراچی، حیدرآباد، نوابشاہ اور سکھر میں لسانی فسادات کروا کے سندھ کو لسانی بنیادوں پر تقسیم کیا بلکہ سینکڑوں معصوم انسانوں کا خون بہایا گیا اور بعد میں اردو بولنے والوں اور پختون آبادی کے فسادات کروائے گئے اور کراچی کو خون میں نہلایا گیا۔
جیسے مارکس نے کہا تھا کہ انگریز حکمرانوں کی طاقت کا راز انگریز مزدوروں کی آئرش مزدوروں سے نفرت میں پنہاں ہے۔ اسی طرح پاکستانی حکمران بھی وہی حکمت عملی اپنائے ہوئے ہیں۔ کراچی کو الگ صوبہ بنانے کی میڈیا میں تشہیر ہو یا افغان مہاجرین کی واپسی کا مطالبہ‘ یہاں کا حکمران طبقہ پھر سے مظلوم قوموں اور اقلیتی گروہوں کے محنت کش طبقے کو ایک دوسرے کے سامنے کھڑا کر کے نفرت کی آگ بھڑکا کے اپنی ناکامی اور نااہلی چھپانے اور نظام کی متروکیت کی وجہ سے بڑھتی ہوئی سماجی بے چینی کے نتیجے میں ابھرتی ہوئی محنت کشوں کی ممکنہ تحریک کو توڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ افغانستان کی بربادی کا ذمہ دار امریکی سامراج اور پاکستان کا حکمران طبقہ ہے۔ طویل ترین جنگی حالات وہ سبب بنے جس کی وجہ سے افغان محنت کشوں کو ہجرت کرنا پڑی۔ انتہائی غربت اور بے بسی میں گھرے افغان مہاجرین اور ان کے کیمپوں کو افغان ڈالر جہاد کے لئے ایندھن کے طور پر استعمال کیا گیا۔ ان کی بھرتیاں ہوئیں اور تربیت دے کر تخریب کے لئے استعمال کیا گیا۔ اب بھی دہشت گردی، بدامنی اور تخریب کاری میں افغان مہاجرین کے ملوث ہونے کو زیادہ ابھار کر ان کے خلاف نفرت کو ہوا دی جاتی ہے اور بدامنی اور بے روزگاری کی وجہ ریاستی پالیسیوں اور بحران زدہ نظام کی بجائے انہی مہاجرین کو گردانا جاتا ہے۔ اس طرح حکمران طبقات اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور محنت کشوں کے درمیان نفرت اور تقسیم پیدا کرنے کی مذموم کوشش کی جاتی ہے۔ جو مہاجرین دہشت گردی یا بدامنی میں ملوث رہے ہیں وہ ضیا کے دور سے اب تک ریاستی سرپرستی میں اسلحہ سمیت آزادانہ نقل و حمل کرتے ہیں جبکہ نفرت کی بندوق کی نلی کا رخ عام مہاجرین کی طرف شعوراً موڑا جاتا ہے جو انتہائی غربت میں محنت مزدوری کرتے ہیں۔ دہشت گردوں کی بھرتی، تربیت اور ریاستی تذویراتی گہرائی کی پالیسیوں کے تال میل کو بے نقاب کیے بنا عام محنت کش مہاجرین کے خلاف محاذ کھولنا دوسری عبارت میں ریاست کی رجعتی پالیسیوں کی پیروی کرنا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ افغان پناہ گزینوں کی واپسی افغانستان میں امن سے مشروط ہے۔ ہمارا مطالبہ ہونا چاہئے کہ پاکستان اور امریکہ سمیت تمام علاقائی اور عالمی سامراجی طاقتیں افغانستان میں مداخلت اور پراکسی وار ختم کریں اور افغانستان کی تقدیر کے فیصلے کا حق افغان عوام کو دیا جائے۔ پاکستان میں موجود افغان محنت کشوں کو یہاں کے محنت کشوں کی جدوجہد کے ساتھ جوڑ کر ان جابر سامراجی ریاستوں کے خلاف ایک کامیاب لڑائی لڑی اور جیتی جاسکتی ہے۔

مارکس نے 170 سال پہلے ایک نعرہ دیا تھا کہ ”دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاو!“ آج اس نعرے کی اہمیت اس عہد سے کہیں زیادہ واضح ہو چکی ہے کہ عالمی سامراجیت کے عہد میں کسی ایک ملک یا ملک میں موجود کسی بھی مظلوم قوم کے محنت کشوں کی تنہا جدوجہد کی کامیابی دوسری قوموں کے محنت کشوں کے اتحاد کے بغیر ناممکن ہے۔ فلسطینی عوام کی لازوال جدوجہد تبھی کامیاب ہو گی جب اسرائیلی محنت کش ان کے حق میں آواز اٹھائیں گے۔ کشمیر کے ہزاروں نوجوانوں کی قربانیاں تبھی رنگ لائیںگی جب سرحد کی دونوں اطراف کے نوجوان اور محنت کش طبقات ان کے حق میں نکلیں گے۔
یہ تاثر بھی سراسر غلط ہے کہ دوسرے خطوں سے ہجرت کر کے آنے والے محنت کش مقامی محنت کشوں کی اجرتوں میں کمی کا باعث بنتے ہیں یا ان کا روزگار لے جاتے ہیں۔ درحقیقت مہاجر محنت کش اپنے ساتھ کئی طرح کے ہنر اور ان سے وابستہ معاشی سرگرمیاں اور روزگار لے کے آتے ہیں جو معاشروں کو معاشی، سماجی اور ثقافتی طور پر ترقی دیتے ہیں اور زیادہ متنوع بناتے ہیں۔ تاریخی طور پر امریکی زراعت سمیت کئی مثالیں واضح کرتی ہیں کہ جب بھی سرمایہ داروں کو سستے مہاجر محنت کش میسر نہیں آتے تو وہ اپنی سرمایہ کاری ایسے خطوں میں لے جاتے ہیں جہاں سستی لیبر میسر ہوتی ہے یا پھر زیادہ اجرتوں پر مقامی محنت کشوں کو روزگار دینے کی بجائے مشینوں سے کام لینے لگتے ہیں۔
دوسری قوموں کے محنت کشوں کے خلاف مطالبات جو ظاہری طور پر بھلے ہی مقامی عوام کے حق میں کیوں نہ ہوں یہاں کے حکمران طبقے (جو ہر قومیت کے استحصالی طبقات کے گٹھ جوڑ پر مبنی ہے) کے لئے اپنے جبر و استحصال کو مزید بڑھاوا دینا ممکن بنائیں گے۔ حکمران طبقے کی ریاست ہر وہ وسیلہ اور حربہ استعمال کرے گی اور کر رہی ہے جس سے محنت کش طبقے میں تقسیم اور نفرت کو مزید گہرا کیا جا سکے۔
آنے والے دنوں میں مہاجرین کا مسئلہ مزید پیچیدہ صورت اختیار کر سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کی 2019ء کی ایک رپورٹ کے مطابق ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے آنے والے سالوں میں دنیا کی ساٹھ کروڑ آبادی کو ہجرت کرنا پڑے گی۔ لیکن اگر غور کیا جائے تو یہ سرمایہ دارانہ نظام ہے جو نہ صرف ہمارے ماحول کو برباد کرنے پر تلا ہوا ہے بلکہ اس کے نتیجے میں کروڑوں لوگوں کو نہ چاہتے ہوئے بھی ہجرت پر مجبور کر رہا ہے۔ اسی طرح جب تک دنیا میں منصوبہ بند معیشت کے تحت دوررس بنیادوں پر ہموار ترقی کی راہیں استوار نہیں ہوتیں اور منافع خوری کے لئے برپا کی جانے والی جنگوں و خانہ جنگیوں کا خاتمہ نہیں کیا جاتا‘ محنت کش طبقے کے لوگوں کو کبھی اپنی جان بچانے کے لئے تو کبھی روزی روٹی کی تلاش میں ہجرت کرنا پڑے گی۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ان تمام قوموں اور نسلوں کے محنت کشوں کو اس نظام کے خلاف منظم کیا جائے جس نے ان کو اپنے آبائی خطوں سے دور رہنے پر مجبور کیا ہے۔ سوشلزم وہ واحد حل ہے جو ماحولیاتی بربادی، بیروزگاری اور جنگی قتل و غارت کا خاتمہ کر کے جبری ہجرت کی اذیت سے انسانوں کو نجات دلا سکتا ہے۔ سوشلسٹ مستقبل ہی دنیا کے ہر ایک کونے میں ہموار ترقی اور ایک جیسی خوشحال زندگی کی سہولیات میسر کر سکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے