Baam-e-Jahan

انتخابی سیاست اور بایاں بازو

اثر امام


بائیں بازو کے انقلابی کارکنان اور پارٹیوں کو انتخابی سیاست کرنی چاہیے یا نہیں؟ انتخابی سیاست ہر درد کا درماں ہے یا نہیں؟ وغیرہ جیسے سوالات پر بائیں بازو کے سیاسی کارکنان کی سمجھ بھی ایک جیسی اور واضح نہیں ہے۔ کچھ بہت پرانے سیاسی کارکنان بھی اس خیال کے ہیں کہ انتخابی سیاست مارکسی تعلیمات کے برعکس ہوتی ہے۔ یہ کام وڈیروں اور سرمایہ داروں کے سپرد کر دینا چاہیے۔ ہم انقلابی لوگ ہیں اس لیے ہم تو انقلاب ہی کرینگے ۔ پتہ نہیں ایسے لوگوں کے پاس انقلاب کا تصور کیا ہے؟ بہرحال یہ تصور مارکسی تعلیمات کے مطابق تو ہرگز نہیں ہو سکتا۔ بائیں بازو کی انقلابی سیاست سے جڑے ہوئے کارکنان کا ایک حلقہ ایسا بھی ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ الیکشن میں ملنے والی کامیابی ہی سارے دکھوں سے جان چھڑانے کا واحد راستہ ہے . حقیقت یہ ہے کہ انتخابی سیاست کی جانب مذکورہ بالا دونوں رویے غیر مارکسی اور نامعقول ہیں۔ دنیا کی انقلابی سیاسی پارٹیوں کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ انتخابی سیاست، کچھ مخصوص حالات اور ممالک میں جائز اور ضروری جبکہ کچھ مخصوص ممالک اور مواقع پر ناجائز تھی۔ کبھی کبھی انتخابی سیاست کرنا لازم بن جاتا ہے جیسے ہمارے ملک کی موجودہ صورتحال میں ۔ جہاں پر عوام روایتی حکمران سیاسی جماعتوں کا متبادل دیکھنا چاہتا ہے لیکن اسکو متبادل کے طور پر تحریکِ انصاف اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس دکھایا جا رہا ہے جو کسی بھی صورت حقیقی متبادل نہیں ہیں۔ بعض مواقع پر انتخابی سیاست کرنا انقلاب دشمنی اور اصلاح پرستی کے راستوں پر چلنے کے مترادف ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک دور میں کامریڈ لینن کی بالشویک پارٹی نے روس کی اسمبلی (دوما) کے انتخابات میں حصہ لیا تھا جبکہ دوسرے دور میں وہی پارٹی انتخابات میں حصہ لینے سے صریحاً منکر ہوئی تھی۔
قصہ یہ ہے کہ سماجی انقلاب ہمیشہ عوامی بغاوت کا نتیجہ ہوتا ہے۔ جب تک عوام بغاوت کرنے کے لیے تیار نہ ہوں یعنی جب تک عوام انکار نہ کردیں، جب تک عوام نفی نہیں کرتا، روایتی حکمرانوں کے ان تمام ہتھکنڈوں اور طریقہ کار کو تسلیم کرنے سے، جب تک عوام حکمرانوں کے سارے حربوں اور شاطرانہ چالاکیوں کو پہچان کر ان کے ہاتھوں یرغمال ہونے سے انکار نہیں کرتا, اس وقت تک انقلاب محض ایک خواب ہی بنا رہے گا۔ اگر عوام مسلم لیگ نواز سے تو بیزار ہے لیکن تحریکِ انصاف کو اپنا نجات دہندہ سمجھتا ہے، پیپلز پارٹی سے تو متنفر ہے لیکن اسکا متبادل گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کی صورت میں ڈھونڈتا ہے تو پھر اسکا مطلب یہ ہوگا کہ ابھی انقلابی صورتحال نے جنم نہیں لیا۔ لیکن اگر عوام ان ساری روایتی حکمران سیاسی جماعتوں کو قبول کرنے سے انکار کردے تو پھر سمجھنا چاہیے کہ اب حالات انقلابی ہیں۔ ایسے حالات میں اگر کوئی قابل اور مضبوط انقلابی پارٹی بھی موجود ہو جو عوام کی انقلابی جدوجہد کی رہنمائی کرسکے تو انقلاب یقینی بن جاتا ہے۔ ایسی پارٹی کو ووٹ ووٹ کھیلنے کی بجائے ووٹوں کا بائیکاٹ کرکے براہ راست عوامی بغاوت کو مہمیز دے کر انقلاب کردینا چاہیے۔ لیکن اگر ایسے حالات نہیں ہیں، اگر عوام کو اب بھی امید ہے کہ شاید الف کی بجائے ب کو ووٹ دے کر وہ اپنی تقدیر سنوار لینگے تو پھر بائیں بازو کی انقلابی سیاسی جماعتوں کو بھی ضرور انتخابی عمل کا حصہ بننا چاہیے۔ اس لیے بھی تاکہ عوام کو یہ دکھایا جاسکے کہ موجودہ استحصالی نظام کے رہتے ہوئے آپ کی قسمت کبھی نہیں بدل سکتی۔ خواہ آپ معدودے چند اچھے لوگوں کو منتخب کر کے اسمبلیوں میں بھیج بھی دیں۔ حتیٰ کہ کچھ معاملات میں تو آپ ایسے اچھے لوگوں کی چاہے اچھی خاصی تعداد کو منتخب کر کے اسمبلیوں تک پہنچا دیں لیکن چونکہ نظام وہی پرانا قائم ہے جس میں اقتدار کی ڈوریاں کبھی بھی عوامی نمائندوں کے حوالے نہیں کی جاتی ہیں۔ اس لیے عوام کی زندگی بہتر نہیں ہوسکتی ہے۔ چنانچہ انقلابی سیاسی حلقوں کی طرف سے انتخابی سیاست میں حصہ لینا ایک لحاظ سے اس لیے بھی ہوتا ہے تاکہ عوام کو سرمایہ دارانہ جمہوریت اور انتخابی عمل ہی سے دلبرداشتہ کیا جاسکے ۔ انتخابی عمل میں شریک ہونے کا دوسرا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اپنے انقلابی سیاسی منشور کو عوام تک پہنچایا جا سکے ۔ چونکہ انتخابات کی گہما گہمی کا عمل ایسا ہوتا ہے جس میں عوام الناس سیاسی حوالے سے خود بہ خود بہت پرجوش ہوتے ہیں۔ ان کو ہر طرف سے بہت سی باتیں بتائی جاتی ہیں اور وہ خود بھی بہت زیادہ سننے کو تیار ہوتے ہیں. اس لیے ایسے ماحول میں ضروری ہوتا ہے کہ انقلابی حلقے بھی انکو اپنی باتیں بتائیں۔ انتخابات کا موسم عوام تک حقیقی عوامی منشور پنہچانے کا ایک سنہری موقع ہوتا ہے۔ کیونکہ عام حالات میں آپ کو ایسا ماحول خود ساختہ طور پر بنانا پڑتا ہے جس میں سیاسی بات چیت کی جا سکے۔ ایسا ماحول جس میں آپ لوگوں کو اپنا منشور سمجھا سکیں۔ کیونکہ ان حالات میں عوام کا سیاسی بات چیت سننے کا کوئی موڈ ہی نہیں ہوتا۔ لیکن انتخابات کے دن ایسے ہوتے ہیں جن میں لوگ پہلے سے ہی سننے کے لیے بے چین ہوتے ہیں۔ اس لیے انقلابی سیاسی حلقوں کو انتخابات میں اسی لیے بھی حصہ لینا چاہیے تاکہ وہ عوام تک ایسے ماحول میں اپنی بات پنہچا سکیں جس دور میں وہ خود بھی سننے اور سمجھنے کے لیے تیار ہوتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ انقلابی سیاست کرنے والے حلقوں کے لیے الیکشن سے جڑنے کا سب سے اہم اور بنیادی مقصد بھی یہی ہوتا ہے۔ یعنی الیکشن کے ذریعے عوام کے ساتھ رابطہ قائم کرنا۔ عوام کو اپنے آپ سے جوڑنا۔ الیکشن میں حصہ لینے کا تیسرا مقصد یہ ہوتا ہے کہ حجت تمام کی جائے. کل کو کوئی یہ نہ کہے کہ اگر آپ الیکشن میں حصہ لیتے تو ہم آپ کو ووٹ دیکر کامیاب کرنے والے تھے لیکن چونکہ آپ الیکشن میں کھڑے ہی نہ ہوئے اس لیے مجبوراً ہم نے وڈیروں اور سرمایہ داروں کو ووٹ دیا۔اس کے علاوہ اگر انقلابی امیدواروں میں سے ایک آدھ بندہ جیت جاتا ہے تو ہم ان کے ذریعے عوام کو ایک نمونہ بھی پیش کرتے ہیں کہ اگر آپ لوگ ہم پر اعتماد کریں، صرف انتخابات ہی میں نہیں بلکہ تمام معاملات میں ہمیں قیادت کرسکنے کا اہل سمجھیں، یہاں تک کہ ہم نظام کی جس انقلابی تبدیلی کی بات کر رہے ہیں اس میں بھی ہمیں حق بجانب سمجھیں تو ہم آپ کو اس طرح کا سماج بنا کر دینگے۔ ہم ایسی حکمرانی قائم کرکے دکھائیں گے جو ہمارے ایک دو منتخب نمائندوں کی صورت میں آپ دیکھ رہے ہیں۔ اگر ہم ہندوستان کی طرح بعض ریاستوں میں حکومت بنالیتے ہیں تو وہ بھی ایک نمونہ ہوتا ہے۔ یے دکھانے کے لیے کہ اگر ہم تری پورہ یا بینگال میں اس طرح حکومت کر رہے ہیں تو کیا بہتر نہیں ہے کہ ہمیں ایسی حکومت سارے ہندوستان پر قائم کرنے دی جائے؟ اگر عوام ہمارے چھوٹے پیمانے کی حکمرانی کے ماڈل سے مطمئن ہونگے تو وہ ضرور بڑے پیمانے پر بھی ہماری حکومت کے حق میں ہونگے۔ اس لیے لے دے کر بات یہاں پہنچتی ہے کہ انتخابی سیاست کرنے والے کبھی بھی نہیں بھولتے کہ الیکشن جیتنا ان کے لیے پہلا اور آخری مقصد نہیں ہوتا۔ جس طرح حکمران سیاسی پارٹیوں کا منشور اور مقصد صرف الیکشن میں فتحیاب ہونا ہوتا ہے انقلابیوں کا طریقِ کار ایسا نہیں ہوتا ہے۔ یقیناً وہ بھی جیتنے کے لیے انتخابات میں حصہ لیتے ہیں لیکن اسکا یہ مقصد نہیں ہوتا کہ ہر حال میں، کسی بھی قیمت پر جیتنا ہے۔ جس طرح سندھ میں جی۰ ڈی۰ اے، ایم۰ کیو۰ ایم اور ایم۰ ایم۰ اے کے ساتھ اتحاد کرکے, سارے پرانے وڈیروں کو ساتھ ملاکر, جو خود بھی بہت عرصے تک حکمران رہ چکے ہیں, انقلاب کرنا چاہتی ہے۔ ہر قسم کے اتحاد اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا سہارا لیتے ہوئے صرف جیتنے پر نظر رکھنے والوں کا اسکے علاوہ اور کوئی منشور نہیں ہوتا. وہ تو بس یہی چاہتے ہیں کہ جلد از جلد انتخابات کا مرحلہ مکمل ہو اور انہوں نے انتخابات میں جو سرمایہ کاری کی ہے وہ سود سمیت واپس لیں۔ اس کے برعکس انقلابی سیاسی حلقے جیتنا تو چاہتے ہیں لیکن اپنی شرائط پر۔ مخالفین یا سیاست ہی کے دشمنوں سے اتحاد کرکے یا ان کے آشیرواد سے جیت کر وہ اپنی سیاست اور نظریات کو سولی پہ چڑھانا پسند نہیں کرتے۔ اس لیے انتخابی سیاست کا حصہ بننے والے ہمارے سارے انقلابی ساتھی اس بات کا خیال ضرور رکھتے ہیں کہ وہ خود کو متبادل کے طور پر پیش کر رہے ہیں اور یہ سچ بھی ہے کہ وہی حقیقی متبادل ہیں۔اس لیے اگر وہ الیکشن میں کامیاب ہونے یا قابلِ ذکر ووٹ لےکر ہارنے کے لیے کسی بھی فرد، پارٹی یا گروہ سے اتحاد کرتے ہیں، جھوٹ، فریب اور دو نمبری چالیں استعمال کرنے کو جائز سمجھتے ہیں اور عذر یہ پیش کرتے ہیں کہ انتخابی سیاست کے اپنے رنگ ڈھنگ اور اپنی مخصوص ضرورتیں ہوتی ہیں، اگر انقلابی لوگ بھی مقصد بر آری کیلئے وہ سب کچھ کرنا شروع کردیں جو روایتی حکمران سیاسی جماعتیں کرتی رہتی ہیں تو پھر دائیں, بائیں, انقلابی, ردِانقلابی, ترقی پسند, رجعت پرست, وغیرہ وغیرہ کا فرق بالآخر کیسے پتہ لگے گا. سیاست کو منافع بخش کاروبار سمجھنے والوں اور ان کا متبادل ہونے کے دعویداروں میں کیا فرق رہ جائے گا؟ اس صورت میں ہمیں کم ازکم متبادل کہلوانے کا حق تو ہرگز نہیں ہوگا۔ آخری بات یہ کہ اگر سارے حربے استعمال کرنے کے بعد بھی خدا نخواستہ ہمیں کامیابی نہیں ملتی تو پھر ہماری حالت سندھی زبان کی
اس کہاوت کی طرح ہوجائے گی کہ:
کتا بھی کھایا، پیٹ بھی نہ بھرا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے