Baam-e-Jahan

یاسین کی قربان کی عظیم قربانیاں

اسرار الدین اسرار


ہیروز صرف وہ نہیں ہوتے جن کا ذکر کتابوں یامیڈیا میں ہوتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں کئ گمنام ہیروز بھی ہیں ۔ جن کا کام بظاہر چھوٹا لگتا ہے لیکن وہ دراصل ایک بہت بڑے کارنامے سے کم نہیں ہوتا اپنے آس پاس ایسے کرداروں کو صرف پہچاننے اور ان کی قدر کرنے کی ضرورت ہے.
یاسین لالک جان شہید نشان حیدر جیسے بہادر لوگوں کی سر زمین ہے۔ لالک جان کا گاوں جہاں ان کا مزار بھی ہے وہ ہندور کہلاتا ہے۔
گاوں ہندور میں ایک خاتون ہے جس کا نام قربان ہے۔ ٢٠٠۵ میں ان کے والدین ایک ساتھ فوت ہوگئے۔ قربان کی چھ بہنیں ہیں وہ سب قربان سے چھوٹی ہیں ان میں سے ایک فرزانہ ہے جوکہ ذہنی معذور ہے۔ قربان کے گھر میں ان کی پھوپی بھی رہتی ہیں جو کہ قوت گویائی سے محروم ہے ۔ جب قربان کے ماں اور باپ چھ مہنے کے وقفے سے ایک ساتھ فوت ہوگئے تو اس وقت قربان نویں جماعت میں پڑھتی تھیں اور یہ اس کے کھیل کود کی عمر تھی۔ لیکن والدین کی وفات کے بعد قربان نے اپنے گھر کی ساری ذمہ داریاں اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھالیں۔ اپنی چھ چھوٹی بہنوں اور ایک پھوپی کی کفالت کی ذمہ داریاں اٹھانے کے لئے ان کو اپنی تعلیم کا سلسلہ منقطع کرنا پڑا۔ انہوں نے کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا بلکہ اپنی طاقت پر بھروسہ کیا۔ محنت مزدوری سے گھر میں خود سیمت ٩ افراد کی کفالت شروع کر دی۔ وقت کا پہیہ چلنے لگا۔ قربان کے پاس کوئی بینک بیلنس یا زمین موجود نہیں تھی اس کے باوجود اس نے ہمت نہیں ہاری۔ وہ دن رات محنت کرتی اور اپنی پھوپی اور بہنوں کے کھانے پینے ، کپٹرے ، رہائش اور تعلیم کا بندوبست کرنے لگی۔
اس دوران سینا ہیلتھ اینڈ ویلفئر سروسز کو قربان کے گھر کے حالات کا علم ہوا۔ سینا ہیلتھ اینڈ ویلفئر سروسز کے چیرمین شیرباز صاحب گلگت سے چلے اور قربان کے گھر یعنی ہندور یاسین پہنچے، انہوں نے ان کی پانچ بہنوں کو سینا ہیلتھ اینڈ ویلفئر سروسز شفٹ کیا۔ دو کو سلائی کا ہنر سیکھانے پر لگا دیا اور جب وہ دونوں بڑی ہوئیں تو ان کی شادیوں کا بھی انتظام کیا۔ یوں وہ دونوں بہنیں شادی شدہ ہیں اور اپنے میاں اور بچوں کے ساتھ رہتی ہیں۔
دو چھوٹی بہنوں میں سے ایک اِس وقت الیکٹریکل انجنئرنگ کی تعلیم حاصل کر رہی ہے جس کو سینا ہیلتھ اینڈ ویلفئر سروسز کا ادارہ سکالرشپ دے رہا ہے۔ ایک بچی کراچی میں میڈیا سائنسسز کی تعلیم حاصل کر رہی ہے جس کو ایک مخیر شخص سکالرشپ دے رہا ہے۔
ایک بہن فرزانہ جو کہ ذہنی معذور ہے وہ کچھ سال سینا ہیلتھ اینڈ ویلفئر سروسز کے ہاسٹل میں رہنے کے بعد دوبارہ گاوں میں اپنی بڑی بہن قربان کے پاس شفٹ ہوگئ ہے۔ ایک بہن کی پڑھائی کے لئے قربان خود سپورٹ کررہی ہے اور وہ اس وقت نرسنگ میں ڈپلومہ کر رہی ہے۔
اس وقت قربان ، گاوں میں اپنی ذہنی معذور بہن فرزانہ اور قوت گویائی سے محروم پھوپی کے ساتھ رہتی ہے۔ دو بہنوں کی شادی ہوگئ ہے جبکہ تین بہنیں زیر تعلیم ہیں۔ یہ سب بہنیں چھٹیوں میں ملنے اپنی بہن قربان کے پاس جاتی ہیں۔ قربان اپنی بہنوں کو لیکر گذشتہ سترہ سالوں سے بغیر ماں باپ کے ایک چھوٹے سے جھونپڑی نما گھر میں رہتی ہیں۔ سینا ہیلتھ اینڈ ویلفئر سروسز دو مقامی مخیر حضرات کی مدد سے ماہانہ قربان کے کیچن کے اخراجات کے لئے دس ہزار روپیے دیتا ہے۔ اس کے علاوہ قربان دن رات محنت مزدوری کر کے اپنی زیر کفالت بہنوں کی مدد کرتی ہے۔
اب تقسیم میں پرانا گھر قربان کے چچا کے حصے میں آیا ہے۔ کافی عرصے سے قربان کو اپنی رہائش گاہ کے چھن جانے کی فکر لاحق تھی۔ ایسے میں چند مخیر حضرات نے ان کی تھوڑی سی مدد کی ہے ، اب قربان اپنے لئے دو کمروں پر مشتمل گھر بنا رہی ہے۔ گھر زیر تعمیر ہے۔ قربان کے وسائل محدود ہیں۔ چار بہنیں اور پھوپی اب بھی ان کی زیر کفالت ہیں۔ قربان نے ہمت نہیں ہاری ہے ۔ وہ تمام مسائل و مشکلات سے لڑنے کے لئے پر عزم ہے۔ قربان نے بہنوں کے لئے نہ صرف اپنی تعلیم کی قربانی دے چکی ہے بلکہ اپنی تمام تر خواہشات و جذبات کی قربانی بھی دے رہی ہے۔ محض اس وجہ سے انہوں نے ابھی تک شادی نہیں کی ہے کہ کہیں ان کی بہنیں بے یارومدد گار نہ رہ جائیں۔ کیونکہ قربان ان بہنوں کی ماں بھی ہیں اور باپ بھی ہیں۔ قربان اس نفسانفسی کے دور میں ایک عظیم الشان قربانی کی ایک زندہ و تابندہ مثال ہے ۔ اپنی تمام خوشیوں اور خواہشات کو چھوٹی عمر سے قربان کر کے اپنی زیر کفالت چھ بہنوں اور پھوپی کو ایک مناسب ذندگی گزارنے کے لئے سبیل بننا ، سینا ہیلتھ اینڈ ویلفئر سروسز کی مدد سے دو بہنوں کو اعلی تعلیم دلانا، اور دو بہنوں کی شادی کرانا اور ایک بہن کو اپنی محنت کی کمائی سے نرسنگ کا ڈپلومہ دلانا جبکہ گھر میں دو معذور خواتین کو سنھبالنے کے ساتھ ساتھ اپنے لئے مناسب رہائش کا بندوبست کرنے کے لئے دن رات محنت کرنے والی قربان کی اس عظیم قربانی سے سارے معاشرے کو سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ جو لوگ چھوٹی موٹی مشکلات کے باعث ناامیدی اور مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں ان کے لئے قربان ایک رول ماڈل ہیں۔ چھوٹی عمر میں آٹھ افراد کی کفالت کا بوجھ اٹھاکر ان کو کامیاب ذندگی کی طرف گامزن کرنے پر قربان ایواڑ کی مستحق ہیں۔ ہم دل کی اتھاء گہرائیوں سے قربان کو سلام پیش کرتے ہیں اور ان کو معاشرے کے گمنام ہیروز کی فہرست میں شامل کرتے ہیں۔

نوٹ۔ میں گذشتہ دنوں قربان کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے محترم شیرباز صاحب اور ان کی ٹیم کے ہمراہ ہندور میں واقع قربان کے گھر گیا تھا۔ قربان سے مل کر مجھے دلی خوشی محسوس ہوئی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے