عزیز علی داد
کل میں نے سچ کو جنگل کی طرف بھاگتے دیکھا تو پوچھا کہ صاحب کہاں جارہے ہیں؟ کہنے لگا انسانوں کی حیوانیت سے تنگ آکر حیوانوں کے انسانیت میں رہنے جارہا ہوں۔ میں نے عرض کیا کہ آج ہمیں آپ کی جتنی ضرورت ہےاس سے پہلے کبھی نہ تھی،اور آپ ہیں کہ عین وقت پہ ہمیں دغادے کرجارہے ہیں۔ سچ فرمانے لگا”آپ کو آج کیا پہلے بھی کبھی بھی میری ضرورت نہیں رہی ہے۔ آپ کا ذہنی ساخت اور معاشرتی ڈھانچہ ایسا بن گیا ہے جو صرف فریب کو ہی پنپنے دیتا ہے۔ سچ سے تو آپ کو تو ازلی نفرت ہے، اور اس نفرت سے آپ کو محبت ہیں۔ بھلا میں ایسے ماحول میں کہاں زندہ رہ سکتا ہوں۔ اس لیے لوگ جہاں کہیں بھی مجھے پاتے ہیں مجھے سنگسار کرنے دوڑتےہیں۔ میں چھپ چھپ کر اکیلے میں مرنے لگا تھا۔ کسی نے پوچھا تک نہیں کیونکہ لوگ جھوٹ کے شور میں اتنے مصروف تھے کہ سچ ان کو سنائی نہیں دے رہا تھا۔یاد رکھنا جب سچ کی پکار سرگوشی میں تبدیل ہوجاۓ اور فریب کی خاموشی چیخ میں تبدیل ہوجاۓ تو سمجھ لینا کہ معاشرہ اپنے سمعی اور ذہنی صلاحیتیں کھو چکا ہے۔ ایسے بہرے اور عقل کے اندھوں میں کیا عقل کی باتیں سنانا اور سچ کا آئینہ دکھانا۔یہ معاشرہ انسانوں کو کھا رہا ہے اور ہم ااپنی حالت سے اتنے غافل ہیں کہ ہم نے اس آدم خوری کو حلال سمجھا ہوا ہے۔ یہ ساری چیزیں ایک قریب المرگ معاشرے کی علامات ہیں۔آج ہمارا معاشرتی جسم گل سڑ چکا ہے۔ اس سڑانڈ کا تعفن اتنا پھیل گیا ہے کہ اب یہ ساری دنیا کو بدبودار کررہا ہے۔ میں اس بدبو سے دور فطرت کی خوشبووں میں رہنے جارہا ہوں۔ تمھاری غیر فطری زندگی تم کو مبارک۔”
جاتےہوۓ سچ نے میرے ساتھ ہاتھ ملایا۔ اس دوران میرے جسم پر ایک کپکپی سی طاری ہوئی۔واپس میں شہر آیا۔ تھکا بہت تھا سو گھر پہنچتے ہی بستر پر ڈھیر ہوگیا۔ صبح دیر سے جاگا۔ ناشتے کہ بعد میں اپنےاندر عجیب و غریب چیزوں کو محسوس کررہا ہوں۔ مجھے ہر طرف سے بدبوویں آرہی ہیں۔ کوئی بندہ بات کرتا تو لگتا ہے بونک رہا ہے۔ استاد پڑھا رہا ہے تو لگتا ہے دماغ پر ہتھوڑے سے ضرب لگا رہا ہے۔ خطیب کے خطبے میں مذہب کو گالیاں سنائی دیتی ہیں۔ ٹی ٹاک شوز کتوں کی لڑائی دکھائی دیتی ہے۔ یونیورسٹی علم کا قبرستان لگتا ہے۔محبت سے مطلب کی بو آرہی ہے۔ ہر لفظ کے معنی الٹے ہورہے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ یا دنیا الٹی ہوگئی ہے یا میں سر کہ بل الٹا ہوکے دنیا کو دیکھ رہا ہوں۔ اب مجھےسیدھا دیکھنے کے لیےالٹا ہونا پڑ رہا ہے۔ لگتا ہے اس شہر آشوب میں اپنا دماغ کھو رہا ہوں۔ یہ سب کچھ سچ سے ہاتھ ملانے کے بعد ہوا ہے۔ اب حالت یہ ہے کہ سچ بھی ہاتھ نہیں آرہا ہے۔ اتنا جھوٹ بولا جارہا ہے کہ دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ جھوٹا نظر آنے لگا ہے۔ حد یہ ہوگئی ہے کہ دونوں ہاتھوں نے ایک دوسرے سے تعاون کرنا چھوڑ دیا ہے۔ ایک آنکھ اوپر دیکھنا چاہتی ہے تو دوسری نیچے۔ ایک پاوں پیچھے کے طرف چلنا چاہتا ہے تو دوسرا آگے کی طرف بڑھنا چاہتا ہے۔ ایک کان موسیقی سننا چاہتا ہے تو دوسرا فتوی۔ دماغ جو سوچ رہا ہے زبان کو اظہار کرنے سے انکاری ہے۔ لگتا ہے میں اپنے اندر تقسیم ہورہا ہوں۔ میرے ٹکڑے ٹکڑے ہورہے ہیں۔ میں خود کو کھا رہا ہوں۔ یہ سب کچھ اس آدم خور معاشرے میں رہنے کی وجہ سے ہے جہاں سے سچ کو جلاوطن کرکے فریب کی تہذیب بنائی گئی ہے۔ میں فریب کی بنیاد پر تیار کی گئی سچائی کے ہاتھوں مر رہا ہے۔ یاد رکھنا آج میں کل تمھاری باری ہے۔ کچھ عرصے بعد اس معاشرے میں اتنے زیادہ مردہ زندے ہونگے کہ ان کو علیحدہ قبر کی بجاۓ سب معاشرے کو اجتماعی قبرستان میں دفن کردیا جاۓ گا۔ ویسے ہم پہلے ہی عقل اور سچائی کے اجتاعی قبرستان بن چکے ہیں۔