Baam-e-Jahan

گلیشیروں کی تحفظ کے لئےقانون سازی کی ضرورت


مسلم علی شاه (ر) رینج افیسر


وادئی چترال کے دونوں طرف دو مشہور گلیشیرز کا سلسلہ پهیلا ہوا ہے۔ جس میں ایک طرف ہندو راج اور دوسری طرف ہندو کش کا سلسلہ واقع ہے۔ ان سے دریائے چترال جو کہ پشاور میں جاکے دریائے کابل کے نام سے پہچانا جاتا ہے سارا سال جاری رہتا ہے۔

مگر ہندو راج کا سلسلہ انسانی آبادی کے بہت قریب ہونے کی وجہ سے پگھلاو کا عمل اور گلیشیرز کے نیچے موجود جھیل پھٹ جانے سے سیلابوں کا لامتناہی سلسلہ تیزی سے جاری ہے۔ جنہیں اصطلاحأ گلاف کہا جاتا ہے

حالیه ادوار میں انسانی آبادی میں بے تحاشہ اضافے اور ماحولیات کی تباہی کی بنا پر چراگاہوں اور گلیشیرز پر دباؤ پڑ گیا ہے۔ نتیجتاً مقامی آبادی کو شدید سیلابوں کا سامنا ہے۔ درختوں کی بے جا کٹائی اور چرائی کی کثرت سے نباتات کی عدم موجودگی سے ننگے پہاڑ سورج کی حرارت سے گرم ھونے لگے ہیں اور گلیشیروں کا پگلاو تیز تر ہوگیا ہے اور ماہرین کا خیال ہے کہ اگر پگھلاو کا عمل یونہی جاری رہا تو اس صدی کے آخر تک ۳۰ فی صد گلیشرز معدوم ہو جائیں گے۔ جسکی وجہ سے پانی کی شدید قلت پیدا ہو گی اور پورے ملک کو پانی کی بحران کا سامنا ہوگا۔

اس ضمن میں حکومت کو چند تجاویز پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں تاکہ بروقت اس پر عمل کرکے ملک اور خاص کر سرزمین چترال کو بڑی آفات سے بچایا جا سکے۔
حکومت کو چاہیے کہ گلیشیرز کی حفاظت کیلیے فوری طور پر قانون سازی کرے اور اسے پورے ملک اور بالخصوص پہاڑی علاقوں میں نافذ کیا جائے۔

گلیشیرز کے ان سلسلوں کے نزدیک بسنے والے لوگوں کو متبادل روزگار دے کر گلہ بانی اور دوسرے ماحولیات دشمن پیشوں کو ختم کیا جائے تاکہ پہاڑوں پر نباتات اور دوسرے درختوں کی حفاظت ھو سکے۔
چونکه ملاکنڈ ڈویژن میں نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے جو کہ پورے ملک کے ماحول پر اور خاص کر وادی چترال کے ماحول پر منفی اثرات مرتب کر رہا ہے اور گلیشیروں کی پگھلاو کا سبب بن رہی ہے۔ ان گاڑیوں پر ٹیکس لگا کر ان کی تعداد کم کی جائے۔
گلیشیرز کے نزدیکی علاقوں میں آباد لوگوں کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنے مکانات جو کہ چمکتی ٹین کے ہیں ان کو رنگ دیکر چمک ختم کیا جائے تاکہ بنفشی شعاعوں سے ماحول گرم نه ہو۔
پہاڑی علاقوں میں بے ہنگم سیاحت کو کنٹرول کیا جائے اور ماحولیات دوست سیاحت کو فروغ دیا جائے۔

مقامی لوگوں میں آگاہی کے لیے ایک مہم چلائی جائے تاکہ ان عوامل سے لوگوں کو آگاہی حاصل ہوسکے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں