مسلم علی شاه (ر) رینج افیسر
ہم چونکہ ایسے وادی میں ره رہے ہیں جس کے دونوں طرف دو مشہور گلیشیرز کا سلسلہ پهیلا ہوا ہے۔ جس میں ایک طرف ہندو راج کا سلسلہ اور دوسری ہندو کش کا سلسلہ واقع ہے۔ ان سلسلوں سے دریائے چترال جو کہ پشاور میں جاکے دریائے کابل کے نام سے پہچانا جاتا ہے سارا سال جاری رہتا ہے۔ مگر بدقسمتی سے ہندو راج کا سلسلہ انسانی آبادی کے بہت قریب ہونے کی وجہ سے پگھلاو کا عمل اور گلیشیرز کے نیچے موجود جھیل پھٹ جانے سے سیلابوں کا لامتناہی سلسلہ تیزی سے جاری ہے۔ جنہیں اصطلاحأ گلوف فلڈ کہا جاتا ہے۔ حالیه ادوار میں انسانی آبادی میں بے تحاشہ اضافے کی بنا پر چراگاہوں اور گلیشیرز پر دباؤ پڑ گیا ہے اور نتیجتاً مقامی آبادی کو شدید سیلابوں کا سامنا ہے۔ درختوں کی بے جا کٹائی اور چرائی کی کثرت سے نباتات کی عدم موجودگی سے ننگے پہاڑ سورج کی حرارت سے گرم ھونے لگے ہیں اور گلیشیروں کا پھگلاو تیز تر ہوگیا ہے اور ماہرین خیال کر رہے ہیں کہ اگر پگھلاو کا عمل یونہی جاری رہا تو عنقریب گلیشیروں کے یہ سلسلے ختم ہوجائیں گے۔ جسکی وجہ سے پانی کی شدید قلت اور پورے ملک کو پانی کی بحران سامنا ہوگا۔ اس ضمن میں میں حکومت وقت کو چند تجاویز پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں تاکہ بروقت اس پر عمل کرکے ملک اور خاص کر سرزمین چترال کو بڑی آفات سے بچایا جا سکے۔
۱۔ حکومت وقت کو چاہیے کہ گلیشیرز کی حفاظت کیلیے فوری طور پر قانون سازی کرے اور گلیشیرز پروٹیکشن ایکٹ ملک اور علاقے میں نافذ کیا جائے۔
۲- گلیشیرز کے ان سلسلوں کے نزدیک بسنے والے لوگوں کو متبادل روزگار دے کر گلہ بانی اور دوسرے گلیشیر کش پیشوں کو ختم کیا جائے تاکہ پہاڑوں پر نباتات اور دوسرے درختوں کی حفاظت ھو سکے۔
۳۔ چونکه ملاکنڈ ڈویژن میں این سی پی گاڑیوں کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے جو کہ پورے ملک کے ماحول پر اور خاص کر وادی چترال کے ماحول پر منفی اثرات مرتب کر رہا ہے اور گلیشیروں کی پگھلاو کا سبب بن رہی ہے۔ ان گاڑیوں پر ٹیکس لگا کر ان کی تعداد کم کی جائے۔
۴۔ گلیشیرز کے نزدیکی علاقوں میں آباد لوگوں کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنے مکانات جو کہ چمکتی ٹین کے ہیں ان کو رنگ دیکر چمک ختم کیا جائے تاکہ بنفشی شعاعوں سے ماحول گرم نه ہو۔
۵۔ مقامی لوگوں میں آگاہی کے لیے ایک مہم چلائی جائے تاکہ ان عوامل سے لوگوں کو آگاہی حاصل ہوسکے۔