Baam-e-Jahan

تانگیر کے سیلاب متاثرین حکومتی امداد کے منتظر

سیلاب

پانچ دن گزرنے کے باوجود ابھی تک ریلف متاثرہ علاقوں تک نہیں پہنچائی جا چکی ہے؛ گلی بالا اور پائین میں 52  گھر مکمل تباہ ،جبکہ 200 گھروں اور دیگر املاک کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ لوگ کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں.


نمائندہ خصوصی بام جہان

دیامر کے سب ڈویزن تانگیر میں سیلاب کی تباہی کا منظر۔

دیامر: گلگت بلتستان کے تین اضلاع ، غذر ، دیامر کے تانگیر سب ڈویزن، اور ضلع نگر حالیہ سیلاب اور طوفانی بارشوں کے نتیجے میں بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ ان اضلاع میں زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔ سڑکیں، پلیں، گھر، کھیت باغات اور مویشی خانے مکلمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔ سینکڑوں لوگ حکومتی امداد کے منتظر ہیں۔ نہ حکومت اور اس کے متعلقہ ادارے نظر آتے ہیں اور نہ میڈیا پر ان وادیوں کے بارے میں رپورٹ دیکھنے میں آتے ہیں۔

  ضلع دیامر کے سب ڈویژن تانگیر میں سیلاب نے تباہی مچا دی ہے ۔ گلی بالا اور پائین میں 52  گھر مکمل تباہ ،جبکہ 200 گھرانوں اور دیگر املاک کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ لوگ کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

صبوکوٹ میں سیلاب میں پھنسے افراد کو بچاتے ہوئے عیسٰی نامی شخص سیلاب کی موجوں کی نذر ہوا ۔

سیلاب کی وجہ سے رابطہ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ بجلی کا نظام بھی درہم برہم ہوا ہے۔ متاثرین سیلاب تاحال حکومتی امداد کے منتظر ہیں۔ خواتین اور بچوں کو پینے کے صاف پانی کیلئے شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

تانگیر سے منتخب ممبر وزیر صحت حاجی گلبر منظر سے ہی غائب ہیں۔ ضلعی انتظامیہ  نے گلی بالا کے متاثرین کو صرف  سات ٹینٹ بھیجے تھے جسے مقامی لوگوں نے احتجاجا  واپس کر دیا ہے۔ تانگیر کے لوگ اپنی مدد آپ کے تحت امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔

 اس حوالے سے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ سیلاب نے  پورے تانگیر میں تباہی مچادی ہے۔ گلی بالا، پائین اور پھپٹ کے لوگ کھلے آسمان تلے حکومتی امداد کے منتظر ہیں جبکہ صحت کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے امراض پھیلنے کا خدشہ ہے ۔

مقامی لوگوں کا مزید کہنا ہے کہ  سیلاب کی تباہی کو پانچ چار دن ہوگئے  ہیں تحصیل ہیڈکوارٹر کے نزدیک گلی بالا اور پھپٹ  گاؤں میں کوئی امدادی کاروائی شروع نہیں کی گئی ہے۔ مجبور اور بے بس لوگ حکومتی  امداد کی منتظر ہیں۔ لیکن حکومتی نمائندے اور انتظامیہ کے ذمہ داران   ابھی تک خرگوش کے نیند سوئے ہوئے ہیں ۔ان کا مزید کہنا ہے کہ یہ حکومت اور انتظامیہ کیلئے شرم کا مقام ہے کہ وہ 74 گھنٹوں سے گلی بالا کے متاثرین کی داد رسی کو نہیں پہنچے ہیں۔

 اسسٹنٹ کمشنر تانگیر کا کہنا ہے کہ سیلاب کی وجہ سے تانگیر میں 200 گھرانوں کو نقصان پہنچا ہے، زرعی زمینیں، مال مویشیاں ، کھڑی فصلیں اور دیگر املاک کو شدید نقصان پہنچا ہے اب تک کچھ امدادی سامان پہنچی ہے جو کہ ناکافی ہے باقی کیلیے ڈیمانڈ دی ہے۔

جبکہ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ڈپٹی کمشنر تانگیر میں اپنے دورے کے دروان روایتی شال پہن کر  متاثرین سے ملا تک نہیں  اور واپس گیا ہے اور انتظامیہ کا کوئی  ذمہ دارتانگیر گلی بالا اور پائین میں نہیں آیا ۔ اسسٹنٹ کمشنر تانگیر نے سیلاب متاثرین سے ملنے تک گوارا نہیں  کیا۔  پانچ دن  بعد تین  لیویز کو نقصانات کا جائزہ لینے کیلئے بھیجے گئے اور سات ٹینٹ بھیج دئیے تھے جسے واپس کر دیا گیا ہے ۔

مقامی لوگوں کا مزید کہنا ہے کہ ہمارے مطالبے کے باوجود ابھی تک ایکسویٹر نہیں بھیجا گیا۔ جن لوگوں کے گھر صفحہ ہستی سے مٹ چکے ہیں وہ ہمسائیوں کے  گھروں میں پناہ لئے  ہوئے ہیں۔

 ڈپٹی کمشنر دیامر کا کہنا ہے کہ تحصیل تانگیر کے سیلاب زدگان کے لئے مختلف قسم کی  دوائیں  روانہ کردیا گیا ہے۔محکمہ صحت دیامر اگلے ایک ہفتے تک تانگیر میں سیلاب سے متاثرہ جگہوں میں باقاعدہ  مفت   طبی کیمپ قائم کرے گی ۔ تمام مریضوں کی چیک اپ کے ساتھ مفت دوائیاں  بھی دی جائے گی۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ ضلعی انتظامیہ دیامر کی طرف سے سیلاب زدگان کی بحالی کے لئے ہر ممکن اقدامات اٹھائے جارہے ہے۔

محکمہ برقیات و پانی  کےحکام سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بجلی بحال کرنے کے لئے سرگرم ہیں۔ جبکہ مقامی لوگوں کا کہنا ہے اس وقت لوگوں کے پاس محفوظ شدہ راشن ختم ہوچکا ہے اور اللہ کے آسرے پہ جی رہے ہیں۔ سیلابی تباہ کاریوں کی بدولت دیگر علاقوں سے زمینی رابطہ بھی منقطع ہوچکا ہے. لوگ انتہائی مشکل میں پھنسے ہوئے ہیں حکومت بھی اب تک مسلسل سستی دکھائی جارہی ہے۔ لوگ کھلے آسمان تلے زندگیاں گزار رہے ہیں مگر کوئی بھی داد رسی کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں