رپورٹ: کریم اللہ

مون سون اور پری مون سون بارشوں کی وجہ سے آنے والی سیلابوں نے جہاں پاکستان کے میدانی علاقوں میں تباہی مچا دی، وہیں بالائی پہاڑی خطے بھی ان بارشوں کے تباہ کن اثرات سے محفوظ نہیں رہے۔ مسلسل کئی ہفتوں تک جاری رہنے والی بارشوں نے چترال اور گلگت بلتستان کو بری طرح متاثر کرکے رکھ دیا۔ ان بارشوں اور اس کے نتیجے میں آنے والی سیلابوں کے باعث بالائی چترال بہت زیادہ متاثر ہوا ہے۔
بارشوں کے طویل المدت تباہ کن اثرات چترال کے دوسرے حصوں کی طرح اپر یارخون اور بروغل پر بھی پڑے ہیں۔ بروغل سطح سمندر سے دس ہزار سے تیرہ ہزار فٹ بلندی پر واقع دنیا کے بلند ترین خطوں میں سے ایک ہیں جہاں مئی سے لے کر اکتوبر تک نسبتا خشک موسم اور دھوپ دیکھنے کو ملتی ہے اس کے بعد شدید ترین سردی شروع ہوجاتی ہے۔

سطح سمندر سے انتہائی بلندی پر واقع ہونے کے باعث یہاں جنگلات بھی ناپید ہیں اس لئے لوگ جلانے کے لئے مال مویشیوں کا گوبر یا پھر ایک مخصوص قسم کا گھاس استعمال کرتے ہیں جسے چم کہا جاتا ہے۔
حالیہ بارشوں کی وجہ سے بروغل کے لوگ سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں، جبکہ سرکار اور غیر سرکاری تنظیموں میں سے کسی نے بھی وہاں تک امدادی سامان وغیرہ پہنچانے کی تاحال کوشش نہیں کی ہے اور نہ ہی وہاں ہونے والی نقصانات کا جائزہ لیا گیا ہے۔

چیرمین ویلج کونسل بروغل عمر رفیع نے بتایا کہ حالیہ بارشوں کی وجہ سے بروغل اور یارخون بالا تباہ ہوچکے ہیں لوگوں کے گھر، مویشی خانے یا تو مکمل طور پر گر چکے ہیں یا پھر گھروں کے اندر پانی جمع ہونے کی وجہ سے رہنے کے قابل نہیں رہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ سرکار فی الفور ٹیم بھیج کر وہاں کے نقصانات کا جائزہ لے کر رپورٹ تیار کروائیے۔
یارخون سے تعلق رکھنے والا شہاب سماجی کارکن ہے ان کا کہنا تھا کہ ہمارے علاقے کے لوگوں کا سارا دارو مدار زراعت اور گلہ بانی پر منحصر ہے اب حالیہ بارشوں کی وجہ سے زراعت کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا اور آنے والے وقتوں میں لوگوں کے مال مویشیوں کے لئے چارہ بھی نہیں رہے گا یوں ہم انسانی خوراک کے ساتھ ساتھ جانوروں کے چارہ اور گھاس پھوس سے بھی محروم ہو گئے ہیں۔ ہمارے اس نقصان کا آزالہ بھی ممکن نہیں، اور علاقے میں قحط پھیلنے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔

عمر رفیع کا کہنا تھا کہ سرکار اور غیر سرکاری تنظیمیں فی الفور علاقے کے لوگوں کے لئے اشیائے خورد و نوش پہنچانے کا انتظام کریں، اس کے علاوہ علاقے میں میڈیکل ٹیم بھیج کر لوگوں کا معائنہ کرنا اور ادویات پہنچانا لازمی ہے جو جتنی جلدی ہوسکے اتنا ہی اچھا ہوگا۔
ویلج چیرمین اور عوامی ورکر پارٹی کے رہنما انوار ولی نے بتایا کہ بروغل سمیت دور دراز کے علاقوں میں بارشوں کی وجہ سے اکثر کچے مکانات تو زمین بوس ہوگئے جو بچ گئے وہ رہنے کے قابل نہیں رہے اور آنے والے طویل ترین موسم سرما میں ان مکانات میں رہنا خطرے سے خالی نہیں ہو گا، کیونکہ برف پڑنے کی صورت میں ان مکانات کے گرنے کے امکانات ہیں۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ صوبائی حکومت بروغل سمیت دور افتادہ علاقوں کے لوگوں کے لئے شیلٹر کا جلد از جلد انتظام کرے کیونکہ اکتوبر کے بعد ان علاقوں میں سردی پڑنی شروع ہوجاتی ہے۔
انوار ولی غالبا وہ پہلے شخص ہیں جو ڈاکٹروں کی ایک ٹیم کے ساتھ یارخون اور شوشت گاوں میں دو دن پیدل سفر کرکے پہنچے اور میڈیکل کیمپ کا انتظام کیا جسے پشاور سے ینگ ڈاکٹرز ایسو سی ایشن کے ڈاکٹروں نے چلایا۔ انہوں نے عوامی ورکرز پارٹی اور ویمن ڈیموکریٹک فرنٹ کی جانب سے امدادی سامان لے کے گئے اور لوگوں میں تقسم کیا۔
طاہرہ بیگم کا تعلق بھی بروغل سے ہیں انہوں نے بتایا کہ اس وقت بروغل میں لوگوں کے پاس کھانے پینے کے چیزوں کی قلت پیدا ہوگئی ہے۔ اس کے علاوہ گھروں میں بارش کا پانی جمع ہونے کی وجہ سے وہ ناقابل استعمال ہو گئے ہیں۔ جبکہ کچے مکانات کی دیوارین گر رہی ہے اس کے لئے فوری طور پر لوگوں کو رہائش کے لئے شیلٹر فراہم کیا جائے۔
ان کا یہ کہنا تھا کہ ٹینٹ دینے سے لوگوں کا کوئی مسئلہ حل نہیں ہوگا کیونکہ موسم سرما میں ٹینٹ میں رہنا ممکن نہیں۔

بروغل روڈ کی صورت حال
بروغل سمیت اپر یارخون جانے والی سڑک پہلے ہی انتہائی خستہ حالی کا شکار تھی اب حالیہ بارشوں اور سیلابوں نے اس خستہ حال سڑک کو اور بھی تباہ کردیا ہے۔ شہاب نے بتایا کہ جگہ پتھر اور مٹی کے تودے گرنے کی وجہ سے سڑک میں سے سفر کرنا مصیبت بن گئی ہے سڑک ٹریفک کے لئے کھل تو گیا ہے مگر ناقابل استعمال ہے جس سے لوگوں کی مشکلات مزید بڑھ رہی ہے۔
اس سلسلے میں چیرمین انوار نے بتایا کہ ہم گزشتہ روز امدادی سامان لے کر یارخون شوشت تک گئے تھے مگر سڑکوں کی حالت انتہائی خراب ہونے کی وجہ سے ہمیں آٹھ سے دس گھنٹے لگے۔ ابھی تک سڑکوں کی حالت بہتر بنانے کی جانب کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی ہے۔ جسے بہتر کئے بنا علاقے میں بحالی کے کاموں کو آگے بڑھانا اور ضرورت مندوں تک ریلیف پہنچانا مشکل نہیں بلکہ ناممکن لگ رہا ہے۔
مال مویشیوں کے حوالے سے مشکل صورت حال
چونکہ بروغل کے لوگوں کا سارا دارومدار گلہ بانی پر ہے حالیہ تباہ کن بارشوں کی وجہ سے بروغل کے لوگوں کی کھڑی فصلیں اور مال مویشیوں کے لئے چارہ بھی مکمل طور پر تباہ ہوگئے اب موسم سرما میں مال مویشیوں کے لئے ان کے پاس چارہ بھی نہیں رہا، اس سلسلے میں عمر رفیع کا کہنا تھا کہ چونکہ بروغل کے لوگ اپنی مال مویشیاں گلگت میں لے جا کر اچھے داموں بیچ رہے تھے مگر پچھلے سال سے چترال کی ضلعی انتظامیہ نے مال مویشیاں گلگت لے جا کر بیچنے پر پابندی عائد کردی ہے جو کہ سراسر ناانصافی ہے۔ اس پابندی کو فی الفور ختم کیا جائے تاکہ لوگ اپنی مویشیاں بیچ سکے ایسا نہ ہونے کی صورت میں موسم سرما میں لوگوں کی مویشیوں کے بھوک سے مرنے کے امکانات ہیں۔

کریم اللہ چترال میں بام جہاں اور ہائی ایشاء ہیرالڈ کے بیور چیف ہیں۔