Baam-e-Jahan

طاقت کی غلامی

ظاقت کی غلامی

تحریر: غلام الدین


معروف امریکی دانشور نوم چومسکی کہتے ہیں کہ "دولت کا ارتکاز سیاسی طاقت کے ارتکاز کا سبب بنتا ہے، اور سیاسی طاقت کا ارتکاز قانون سازی کو جنم دیتا ہے جو اس عمل کو مزید تیز کرتا ہے۔”

پاکستان آج جن مسائل میں جھکڑا ہوا ہے وہ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم اور سیاسی طاقت کے ارتکاز کا نتیجہ ہے۔  نوآبادیاتی دور میں غیر منقسم ہندوستان کے عام لوگوں کو شکنجے میں کسنے کے لیے جو نظام اور قوانین متعارف کرائے  گئے وہ آج بھی لاگو ہیں۔ افسر شاہی اس بوسیدہ نظام کے پہئے کو چلانے کا ایک بہترین کل پرزہ ہے۔ یہ نظام طاقت ور کی غلامی کرتا ہے اور کمزور کا ہر سطح پر استحصال کرتا ہے۔اس کے برعکس مغربی دنیا میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قوانین بدلے گئے، طرز حکمرانی کو جدید خطوط پراستوارکیا گیا اور عام آدمی کو بڑی حد تک قانون سازی اورفیصلہ سازی میں شریک کیا گیا۔ اس کے باوجود سرمایہ دار اب بھی سیاسی عمل پر اثر انداز ہوتے رہتے ہیں۔ دوسری جانب 73ء کے آئین میں بنیادی حقوق کے چیپٹر کے علاوہ عام آدمی کی سیاسی، معاشی اور انتظامی امور میں شراکت داری کو یقینی بنانے کے لیے آئین کے آرٹیکل 140اے کو شامل کیا گیا، بعد ازاں 2010 میں 18ویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو بااختیار بنایا گیا لیکن ڈویژن، اضلاع، تحصیل اور یونین کونسل تاحال بے اختیار ہیں۔  یوں ارتکاز دولت اور ارتکاز سیاسی طاقت عام آدمی کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔

حالیہ تباہ کن سیلاب سے پاکستان کا ایک تہائی حصہ متاثر ہوا ہے، ماہرین نقصانات کی بنیادی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ مضبوط مقامی حکومتوں کی عدم موجود گی اور امور حکومت و فیصلہ سازی کے عمل میں عام آدمی کی عدم شرکت سے منسوب کرتے ہیں۔ پاکستان میں سیلاب اور مون سون بارشوں کی تاریخ نئی نہیں، فیڈرل فلڈ کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق  1950 سے 2010 تک پاکستان کو 28 دریائی سپر فلڈز کا سامنا رہا۔ سال 2010 میں 20 فیصد پاکستان سیلا ب سے متاثر ہوا۔

معروف قانون دان فخرالدین جی ابراہیم،  اس وقت کے ڈپٹی چیرمین سینیٹ جان محمد جمالی، ڈاکٹر اسد لغاری، محمد رحیم بلوچ اور ایڈوکیٹ زاہدہ تھیبو نے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو درخواست دی کہ سیلاب کے دوران بااثر افراد نے اپنی زمینوں کو بچانے کے لیے غیر قانونی طور پر بند توڑے جس سے غریبوں کی بستیاں اجڑ گئیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے سوموٹو نوٹس لیتے ہوئےمحمد اعظم خان کی سربراہی میں پانچ رکنی  فلڈ انکوائری کمیشن تشکیل دی جس نے جون 2011 میں 200 صفحات پر مشتمل رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی۔ رپورٹ میں ہوش ربا انکشافات سامنے آئے۔ رپورٹ کے مطابق  سندھ اور بلوچستان کے محکمہ آ ب پاشی کی  کرپشن اورغفلت کے باعث قومی خزانے کو 855 ارب روپے کا نقصان ہوا۔ رپورٹ میں اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی کہ بااثر افراد نے سیلابی پانی کا رخ موڑا جس سے بڑے پیمانےپر غریبوں کی بستیاں تباہ ہوئیں، اس کے علاوہ بااثر افراد نے کچے کے علاقوں میں تجاوزات کے ذریعے غیر قانونی تعمیرات کیں، نتیجتا بڑے پیمانےپر فصلیں تباہ ہوئیں۔ رپورٹ میں گڈو کے چیف انجینئر اور اسٹاف کو ذمہ دار ٹھرایا۔ 

فلڈ انکوائر ی کمیشن نے حکومت کو دریائی  کناروں سے 200 فٹ تک تعمیرات پر پابندی عائد کرنے کی سفارش کی۔ جس پر عمل نہ ہونے کے باعث حالیہ سیلاب میں گلگت بلتستان سے گوادر  تک درجنوں عمارتیں دریا برد ہوئیں۔  دریاوں کے بہاو کے راستے میں تجاوزات کے باعث سٹرکیں بھی بہہ گئیں؛ اس وقت ملک کا ایک تہائی رقبہ پانی میں ڈوبا ہوا ہے؛ 80 فیصد سندھ سیلاب سے متاثر ہوا، جنوبی پنجاب اور بلوچستان میں سیلابی ریلوں نے غریبوں کو ان کے ذرائع روزگار سے محروم کیا۔ بلوچستان کے 50 فیصد سیب کے باغات تباہ ہوئے، ایک اندازے  کے مطابق سندھ میں 65 فیصد جبکہ پنجاب میں 15 فیصد کپاس کی فصل  ضائع ہوئی ،سات لاکھ سے زیادہ جانور مر چکے ہیں۔

نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے)کی رواں ہفتے کی اعداد و شمار کے مطابق اب تک 1400 سے زائد افراد جاں بحق۔ لیکن آزاد ذرائع کے مطابق مرنے والون کی تعداد ۳۰۰۰ سے زیادہ ہے۔ جبکہ 12،700 سے زائد افراد زخمی ہوئے  ہیں۔ اور چار کروڑ لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔

دوسری جانب سیلاب متاثرین جلدی امراض، سانس،ہیضہ اور بخار جیسی وبائی امراض میں مبتلا ہورہے ہیں۔ اس آفت کے دوران کیمرے کی آنکھ نے تباہی کے ایسے دلخراش مناظر فلم بند کیے ہیں جو ہر شخص کے ذہن پر نقش ہوچکے ہیں۔ نیشنل فلڈ ریسپانس کوآرڈی نیشن سینٹر (این ایف آر سی سی ) کی رواں ہفتے کی اعداد و شمار کے مطابق سیلاب سے 30 سے 40 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ تاہم تباہی کی مکمل جانچ پڑتال سیلابی پانی کے اتر جانے کے بعد ہی ممکن ہوگا۔ 

پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے متاثر ہونے والے ممالک کی فہرست میں پانچویں نمبر پر ہے جبکہ ماحولیاتی آلودگی پھیلانے میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گتریس نے پاکستان کے  سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کیا اور ترقی یافتہ ممالک سے اپیل میں کہا کہ”آج پاکستان ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے بری طرح متاثر ہوا ہےکل کسی اور ملک میں بھی اس طرح کے حالات پیش آسکتی ہے، اقوام عالم دل کھول کر پاکستان کی مدد کرے”۔  

دوسری جانب وزیراعلی سندھ کا کہنا ہے کہ سندھ سے پانی کے اخراج میں تین سے چھ ماہ لگ سکتے ہیں لیکن مجال ہے کہ سندھ  کی امیر اسمبلی کے دولت مند اراکین نے کم از کم چھ ماہ کی تنخواہ  سیلاب متاثرین کی امداد کے لیے وقف کرنے کا اعلان کیا ہو، تعجب کی بات تو یہ ہے کہ حسب سابق سیاستدان عام لوگوں سے امداد کی توقع رکھتے ہیں۔ کاش کہ زرداری، شریف برادران، عمران خان، جاگیردار، وڈیرے، اراکین صوبائی و قومی اسمبلی اور سینیٹ ممبران اپنی دولت کا ایک فیصد ہی سیلاب متاثرین کی امداد پر صرف کرتے، ملک کے دولت مند طبقے کی نظر مخیر حضرات، عام آدمی اور بیرون ملک سے آنے والی امداد پر ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا فنڈز کے استعمال میں شفافیت ہوگی؟ کیونکہ 2005 کے زلزلے کے بعد متاثرین زلزلہ  کے لیے بے پناہ امداد آئی لیکن نہ بالاکوٹ شہر کی تعمیر کا خواب پورا ہوسکا نہ ہی مظفر آباد کے زلزلہ زدگان سے کیے جانے والے وعدے وفا ہوسکے۔ 

جنوبی پنجاب، بلوچستان اور سندھ سے سیلاب متاثرین کی شکایات یہ ہیں کہ ماضی کی طرح بااثر افراد نے سیلابی پانی کا رخ  موڑا اور امداد بھی سب سے پہلے بااثر افراد کو ملی۔  سینئر صحافی حامد میر نے جنوبی پنجاب کاسیلاب سے متاثرہ علاقہ روجھان کا دورہ کیا، مقامی لوگوں نے علاقے کے بااثر افراد پر الزام عائد کیا ہے کہ طاقت کے بل بوتے پر سیلاب کا رخ موڑا گیا جس سے غریبوں کی بستیاں ڈوب گئیں،  نہ ٹینٹ ملے نہ خوراک اور نہ ہی ادویات۔

اس ملک میں قدرتی آفات کے بعد کمیشن بن جاتے ہیں، انکوائری رپورٹس بھی منظر عام پر آجاتی ہیں لیکن  حکومت اور سرکاری مشینری سرمایہ دار اور بااثر افراد کی پشت پناہی کرتے ہیں جس سے قدرتی آفات کے نتیجے میں پہلے سے زیادہ نقصانات کا اندیشہ ہوتا ہے۔

یہاں ہر شے طاقت کے گرد گھومتی ہے، عمران خان جب بھی عدالت میں پیش ہوتے ہیں تو سینکڑوں اہلکار سکیورٹی پر تعینات ہوتے ہیں، عدالت کے ارد گرد کرفیوں کا سماء دیکھنے کو ملتا ہے۔ اسی طرح مریم نواز کوئی سرکاری عہدہ نہ ہونے کے باوجود وزراء اور اراکین کی ایک فوج لے کر عدالت حاضر ہوجاتی ہیں، نواز شریف، شہباز شریف، آصف زرداری  یا کوئی بھی دولت مند اور طاقت ور شخصیت ہو، یہ نظام ان کی خدمت کے لیے شب و روز چوکس رہتا ہے۔

سیاسی غیر یقینی، ڈوبتی معیشت،ملکی تاریخ کی بلند ترین مہنگائی، بے روزگاری اور اب ملک میں سیلاب کی تباہ کاریاں،  مشکلات لامتناہی لیکن اشرافیہ کرسی کی جنگ میں مصروف ہے۔۔ ان حالات سے ملک کو نکالنے کےلیے کوئی مربوط اور جامع حکمت عملی مرتب نہ کی گئی تو عوام مزید تننزلی کا ذمہ دار اشرافیہ کو ہی ٹھہرائے گی۔


طاقت کی غلامی

غلام الدین سینئر صحافی اور براڈکاسٹر ہیں۔ وہ اے آر وائی چینل سے وابستہ ہیں اور مختلیف سیاسی اور سماجی موضوعات پر بام جہاں میں مضامین لکھتے ہیں۔


جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے