Baam-e-Jahan

چوتھا بین الاقوامی ہندوکش ثقافتی کانفرنس!ایک جائزہ


تحریر: کریم اللہ


ماہ ستمبر کی چودہ سے سولہ تاریخ تک چترال میں تین روزہ چوتھا بین الاقوامی ہندوکش ثقافتی کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں چترال، گلگت بلتستان، سوات و کالام سمیت ملک بھر اور بیرونی ممالک سے کئی محقیقیں شریک ہوئے اور ہندوکش کے پہاڑی سلسلوں کے درمیان رہائش پزیر اقوام کی تاریخ، تمدن، ثقافتی رنگارنگی، ادب، لسانیات وغیرہ پر مقالے پیش کئے۔

 عمومی لحاظ سےکانفرنس بڑا ہی کامیاب رہا تاہم کانفرنس میں بعض اقدامات ایسے نظر آئے جن میں مزید بہتری کی گنجائش موجود ہے، مگر ابھی تک ان پر  کوئی خاص تبصرے  نہیں ہوئے اور نہ ہی کانفرنس میں پیش کئے گئے مقالوں کی صحت پر کوئی تنقیدی جائرہ لیا گیا۔


چترال کے چھوٹے اقوام خاص کرکے کلاݰ، مدکلشٹی، گجر، یدغا، وخی وغیرہ کی کوئی نمائندگی نہیں ہوئی اور نہ ان زبان و ادب اور لوگوں کی طرز بود و باش پر کسی مقامی محقق نے  تحقیقی مقالہ پیش کیا۔  


چترال کے چھوٹے اقوام خاص کرکے کلاݰ، مدکلشٹی، گجر، یدغا، وخی وغیرہ کی کوئی نمائندگی نہیں ہوئی اور نہ ان زبان و ادب اور لوگوں کی طرز بود و باش پر کسی مقامی محقق نے  تحقیقی مقالہ پیش کیا۔

 یہ بہت بڑا المیہ ہے، انجمن ترقی کھوار کے لیڈر شپ کو چاہئے تھا کہ وہ کانفرنس کے لئے  تیاری شروع ہوتے ہی ان چھوٹی  چھوٹی اقوام کے پڑھے لکھے نوجوانوں کے ساتھ میٹنگ کر کے  انہیں اپنی تاریخ، زبان، روایات و اقدار پر تحقیق کروا کر کانفرنس میں پیش کرنے کی تاکید کرتے  تو کانفرنس چترال کے لئے مزید سود مند ثابت ہوتا۔

  اس کے جواب میں یقینا انجمن ترقی کھوار اور فورم فار لینگوئج انیشیٹیو کا موقف یہ ہوگا کہ ہم نے پہلے دن ہی سے کانفرنس کے حوالے سے اعلانات کئے تھے اور اپنے اپنے مقالے جمع کرنے کا کہا تھا سب کو اپنے مقالے پیش کرنے تھے۔


مگر  مسئلہ یہ ہے کہ چھوٹے اقوام میں سے اکثریت نوجوان پڑھے لکھے لوگوں کی ہیں جن کو پہلے، دوسرے اور تیسرے ہندوکش ثقافتی کانفرنسوں کا علم ہی نہیں اور زیادہ تر نوجوانوں کو  بین الاقوامی کانفرنسوں بلکہ قومی کانفرنسوں میں بھی بطور محقق شرکت کا موقع نہیں ملا ہے، اس لئے ان کو اندازہ ہی نہیں ہوتا۔


یہ موقف بالکل درست ہے  مگر  مسئلہ یہ ہے کہ چھوٹے اقوام میں سے اکثریت نوجوان پڑھے لکھے لوگوں کی ہیں جن کو پہلے، دوسرے اور تیسرے ہندوکش ثقافتی کانفرنسوں کا علم ہی نہیں اور زیادہ تر نوجوانوں کو  بین الاقوامی کانفرنسوں بلکہ قومی کانفرنسوں میں بھی بطور محقق شرکت کا موقع نہیں ملا ہے، اس لئے ان کو اندازہ ہی نہیں ہوتا۔

 لہذا ضرورت اس امر کی تھی کہ ان چھوٹی برادریوں کے نوجوانوں کو اس کانفرنس میں شمولیت پر آمادہ کرنے کے لئے  انجمن ترقی کھوار اور ایف ایل آئی کو انہیں باضابطہ طور پر پوری  سرگرمیوں میں ملوث کرنا چاہئے تھا۔

 اس سے یہ ہوتا کہ چترال میں ثقافتی گونا گونی نکھر کے سامنے آجاتے اور آنے والے وقتوں کے لئے مقامی نوجوان محقیقیں کی ایک کھیپ تیار ہوتی جو اپنی کمیونٹی کی تاریخ و ثقافت، ادب، زبان وغیرہ کے حوالے سے کام کرتے۔

 یہ بھی حقیقت ہے کہ کھوار چترال کی سب سے بڑی زبان ہے حکمران طبقے  کی زبان ہونے کے ناطے اس میں ادبی لحاظ سے کافی کام ہوا ہے۔


انجمن اور دوسرے ادبی تنظیموں کو چاہئے کہ وہ ایسے سنجیدہ علمی کاموں میں خواتین محقیقیں کی بھر پور شرکت کو یقینی بنانے کے لئے  خود ان کے ساتھ رابطہ کرتے  اور ان کی حوصلہ افزائی ہوتی تو خواتین کی جانب سے مختلف شعبوں میں بہترین علمی کاوشیں سامنے آجاتی۔ 


اب کھوار اہل  قلم  اور انجمن ترقی کھوار کی قیادت کو بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے چھوٹی زبانوں اور اقوام کو بھی اپنے ساتھ شامل کریں تاکہ اس چھوٹی  مگر رنگا رنگی سے بھر پور سماج کے علم و ادب میں سارے شہری برابر کے حصہ دار بن سکیں۔

اس کے علاوہ چونکہ چترال میں خواتین کو زندگی کے مختلف شعبوں بالخصوص ادب و ثقافت اور تحقیق میں آگے آنے کا موقع بہت کم ملا ہے۔ گوکہ اس کانفرنس میں دو مقامی خواتین نے مقالے  پیش کئے اور خواتین کی شرکت بھی کافی زیادہ رہی۔

 مگر اس کے باؤجود بھی انجمن اور دوسرے ادبی تنظیموں کو چاہئے کہ وہ ایسے سنجیدہ علمی کاموں میں خواتین محقیقیں کی بھر پور شرکت کو یقینی بنانے کے لئے  خود ان کے ساتھ رابطہ کرتے  اور ان کی حوصلہ افزائی ہوتی تو خواتین کی جانب سے مختلف شعبوں میں بہترین علمی کاوشیں سامنے آجاتی۔  آج ہمارے خواتین زندگی کے مختلف شعبوں میں بہترین خدمات سرانجام دے رہی ہے۔ ان میں تحقیق کا شعبہ بھی شامل ہے۔

کریم اللہ جامعہ پشاور کے شعبہ سیاسیات سے ماسٹر کر چکے ہیں اور عرصہ پندرہ سالوں سے بطور صحافی، کالم نگار اور وڈیو رپورٹر کام کررہے ہیں۔ وہ بام جہان کے ساتھ بطور ایڈیٹر سروس دے رہے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں