یہ ایک فکری مغالطہ ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے
سید علی عباس جلالپوری
یہ فکری مغالطہ کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے زبان کے دولابی تصور سے یادگار ہے قدما، زمان کو غیر حقیقی سمجھتے تھے اور اس کی دولابی حرکت کے قائل تھے۔ غیر حقیقی سے ان کا مطلب یہ تھا کہ زمان کا نہ کوئی آغاز ہے ورنہ انجام ۔کائنات قدیم سے اسی صورت میں موجود ہے اورابدالآ باد تک اسی طرح موجود رہے گی کیونکہ زمان اورمادہ غیر مخلوق ہیں۔ زمان کو حقیقی مانا جائے تو اس کا ایک نقطہ آغاز تسلیم کرنا پڑے گا اور اس کے ارتقا اور انجام کو بھی ماننا پڑے گا۔
اکثر آریائی اقوام زمان کے دولابی تصور کی قائل رہی ہیں۔ ہندوؤں کا عقیدہ بھی یہی ہے۔ البتہ ایرانیوں کو مستثنیٰ سمجھا جاسکتا ہے۔ زرتشت کے خیال میں زمان حقیقی ہے اور اس کی حرکت مستقیم ہے۔ یعنی اس کا آغاز بھی ہے اور انجام بھی ہوگا۔ یہ نقطہ نظر ظاہرااشوریوں اور بابلیوں سے مستعار ہے جو دوسرے سامیوں کی طرح زمان کو حقیقی سمجھتے تھے۔ اس کی مستقیم حرکت کے قائل تھے۔ ہندو اور یونانی سامیوں کے اس نظریے سے اتنا متاثر نہیں جتنے کہ قرب مکان کے باعث ایرانی ہوئے تھے۔ آریائی قبائل کے عروج اور یلغار نے اقوام کی سیاسی طاقت کا خاتمہ کردیا لیکن سامی الاصل یہودی دستور زمان کے حقیقی ہونے کے تصور پر قائم رہے۔ بہرحال تاریخ کا دولابی تصور اور اس سے پیدا شدہ فکری مغالطہ فلاسفہ ء یونان اور رواقین کے نظریہ زمان کی صدائے باز گشت ہے۔
سب سے پہلے اطالوی مفکر ویجو نے اسے شر وبسط سے پیش کیا تھا، ویجو کے خیال میں ہر قوم ایک دائرے میں چکر لگاتی ہے اس کا آغاز بربریت عہد شجاعت سے ہوتا ہے۔ پھر وہ تمدن کے معراج کمال کو پہنچ کر عقلی تنزل کا شکار ہو جاتی ہے۔ جسے اس نے”فکر کی بربریت” کا نام دیا ہے یہاں دائرے کا ایک سرا دوسرے سے مل جاتا ہے اور قوم اپنا سفر شروع کر دیتی ہے البتہ اب کےاتنا فرق ضرور ہوتا ہے کہ اس میں سابقہ تمدن کا شمول ہوجاتا ہے۔ چنانچہ ویجو لکھتا ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دوہراتی رہتی ہے۔ اس عمل کو اس نے ریکورسیکا نام دیا ہے۔
بعض مورخین نے یونانی و رومی تاریخ کے حوالے سے اس چکر کو یوں پیش کیا ہے کہ عہد بربریت میں کسی قوم میں پنچائت کا نظام موجود ہوتا ہے جب یہ قبائل معاشی دباؤ کے تحت تنزل پذیر تمدنوں پرتاخت کرتے ہیں تو فوجی سردار برسراقتدار آ جاتے۔ ہیں جو بعد میں بادشاہ بن جاتے ہیں۔شا ہیت کا دور گوناں گوں برائیوں کی پرورش کرتا ہے۔اور سامان عیش کی فراوانی قوم کے عزم و عزیمت کو سلب کر لیتی ہے حکومت کی طرف سے عائد کی ہوئی محصولات عوام کا خون چوس لیتی ہیں۔جس سے وہ سر کسی پر آمادہ ہوجاتے ہیں شاہیت کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور جمہوریت کا دور دورہ ہوجاتا ہے۔ رفتہ رفتہ جمہوریت کے پردے میں چندخاندان متحدہوکر طاقتور بن جاتے ہیں اور اپنے اقتدار کوبحال رکھنے کے لئے سازشوں کا جال بچھا دیتے ہیں۔ ملک کی دولت پر متصرف ہو جاتے ہیں عوام کی حالت بدستور زار و زبون رہتی ہے انہیں نجات دلانے کے بہانے کوئی نہ کوئی ڈکٹیٹر برسراقتدار آ جاتا ہے۔ اس شخص کے مرنے پر پھر انتشار و خلفشار ہوتا ہے اور یہ چکرکسی طرح چلتا رہتا ہے۔
عمل تاریخ کا یہ دولابی تصور جبریت پر منتج ہوتا ہے ۔چناچہ منتسکو اور سپنگلر اپنےفلسفہ تاریخ میں جبر مطلق کے قائل ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ عین اس وقت جب کوئی تمدن عروج کی بلندیوں کو پہنچ جاتا ہے اس کا تنزل بھی شروع ہو جاتا ہے کیونکہ اس کے بطون میں ایسے عناصر پیدا ہوجاتے ہیں جو بالآخر اس کی تخریب اور تباہی کا باعث ہوتے ہیں۔ گویا تمدن خود تمدن کا سب سے بڑا دشمن ہے۔یہ مورخین تمدن کو انسانی عمر کے مماثل قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اقوام بھی انسان کی طرح پیدائش بچپن شباب کہولت اور موت کےمراحل سے دوچار ہوتی ہیں جس طرح انسان کے شباب کا نقطہ عروج بڑھاپے کا نقطہ آغاز ہے اسی طرح تمدن کی ترقی اس کے زوال کا پیش خیمہ بن جاتی ہے۔
جبریت کا یہ نظریہ بداہتہ گہری یاسیت کو جنم دیتا ہے جب انسان کو پہلے سے بنی اپنی تمام کوششوں کی بے حاصلی اور بے ثمری کا یقین ہو جائے تو اس کا ولولہ اقدام اور جوش عمل سرد بڑ جاتا ہے اور وہتسخیر فطرت پر کمر بستہ ہونے کی بجائے فنا اور موت پر غور کرنے لگتا ہے۔ مزید برآں جبرمطلق کا یہ تصور ترقی کے خیال کو باطل کر دیتا ہے۔ جب عمل تاریخ کی گردش دولابی ہوگی تو ارتقا کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ عمل ارتقا تو خط مستقیم پر ہی ممکن ہوتا ہے۔ دائرے میں ترقی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ نتیجۃ جن مورخین نے تاریخ کے اپنے آپ کو دہرانے کا خیال پیش کیا ہے وہ جبر و قنوطیت کے مبلغ بھی بن گئے ہیں اور انہوں نے نوع انسان کو اپنے مستقبل سے مایوس کر دیا ہے۔
نظرغور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ تاریخ کے اپنے آپ کو دہراتی رہنے کا مغالطہ ژولیدگی فکر کا نتیجہ ہے جو مورخین اس کے قائل ہیں انھوں نے تمدن نوع انسان کےار تقا کا سیرحاصل مطالعہ کرنے یا اس کے مقدر کا من حیث المجموع جائزہ لینے کی بجائے مختلف اقوام کی تاریخ کا علیحدہ علیحدہ تجزیہ کیا ہے اور جو نتائج اس کوشش سے حاصل ہوئے ہیں انہیں نوع انسان کے مقدر پر چسپاں کردیا ہے انہوں نے انسانوں کو بچپن شباب کہولت اور موت کے مراحل سے گزرتے ہوئے دیکھ کر یہ نتیجہ تو اخذ کر لیا کہ تمام انسان فانی ہیں لیکن اس نتیجےسے صرف نظر کرلی کہ انسانوں کے مرتے رہنے کے باوجود انسان غیرفانی ہے بالفاظ دیگر وہ اقوام و ملل کے آغاز، عروج اور خاتمۃ پر تو بحث سے کرتے رہے لیکن یہ نہ سوچا کہ ان مختلف تمدنوں کے فنا ہو جانے کے باوجود تمدن نوع انسان باقی و برقرار ہے۔
مسلہ زیرغور کو اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو جہاں عمل تاریخ کے دولابی تصور کا ابطال ہوتا ہے وہاں اس کے نتیجے میں جبرو یاسیت کے جو تصورات پیدا ہوتے ہیں وہ بھی حیات افروز رجائیت میں بدل جاتے ہیں۔ مورخین نے سومیری، بابلی، فنیقی، مصری وغیرہ تمدنوں کا الگ الگ مطالعہ کرکے ہر ایک کا مقام معین کرنے کی کوشش کی ہے۔ خالص مؤرخانہ زاویہ نگاہ سے اس نوع کا مطالعہ بے شک مفید مطلب ہو سکتا ہے لیکن اس مطالعے سے فلسفہ تاریخ مرتب کیا جائے تو گوناگوں غلط فہمیوں کے پیدا ہونے کا احتمال ہے۔ مورخ اپنی ہی قوم کے تمدنی کارناموں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے۔
اور اس شخص کی طرح جو ہر وقت دوسروں کی تنقیص کرکے انا کی پرورش کرتا رہتا ہے اقوام کی تمدنی فتوحات کا اعتراف کرنے میں بخل سے کام لیتا ہے ۔اس سے توازن فکرونظر کی ایک گونہ جراحت ہوتی ہے۔ یہ انداز نظر اس دور سے یادگار ہے جب لوگ اپنے آپ کو یونانی مصری ہندی عرب وغیرہ سمجھتے تھے ہمارے زمانے میں سائنس کی حیرت انگیز ایجادات اور انکشافات کے باعث چاروں طرف قومیت ا ور طنیت کی سنگین دیواریں بریخوکی شہر پناہ کی طرح منہدم ہو رہی ہیں اور روز بروز یہ احساس قوی سے قوی تر ہوتا جارہا ہے کہ رنگ و نسل کے اختلافات سطحی اور فروعی ہیں اور انسانوں میں بحیثیت انسان ہونے کے کوئی فرق نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خودغرض تنگ نظر اور مفاد پرست سیاستدان وحدت نوع انسان کو پارہ پارہ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں لیکن وائرلیس، ریڈار، ہوائی جہاز اور اخبارات و رسائل نے زمین کی طنابیں کھینچ دی ہیں اور مختلف ممالک کے باشندے ایک دوسرے کے قریب آ کر محسوس کرنے لگے ہیں کہ تمام انسانوں کے احساسات بنیادی طور پر ایک جیسے ہیں۔
ضروریات ایک جیسی ہیں، مفاد ایک جیسے ہیں، یہ خیال ، نسل، رنگ اور زبان کے تعصبات کو آہستہ آہستہ مٹا رہا ہے۔ جناب عیسیٰ ابن مریم اور مارکس آریلپس نے وحدت نوع انسان کا جو خواب دیکھا تھا اس کی تعبیر کا وقت قریب آگیا ہے ۔ اس حقیقت کے پیش نظر اس بات کی اشد ضرورت ہےکہ مصری، یونانی، بابلی تمدنوں کی تاریخ لکھنے کی بجائے تمدن نوع انسان کے آغاز و ارتقا کا جائزہ لیا جائے اور با الفاظ سپنگلر بطلیموسی نقطہ نظر کی بجائےکوپر نیکی زاویہ نگاہ کو بروئے کار لایا جائے۔ تمدن عالم کا یہ مطالعہ فکری مغالطے کو دور کرنے میں مدد دے گا کہ عمل تاریخ دولابی ہے یا تاریخ اپنے آپ کو دہراتی رہتی ہے۔ اس مطالعے سے ہمیں معلوم ہو جائے گا کہ انسان کس طرح شعور کی بیداری کے ساتھ حیوانات کی صف سے جدا ہوئے اور عقل و فکر کی نشوونما کے ساتھ وحشت و بربریت کے ادوار سے نکل کر زرعی دور میں داخل ہوئے۔ کس طرح زرعی انقلاب نے شکار کے عہد کا خاتمہ کیا کھیتی باڑی نے انسان کو بستیاں بسانے پر مجبور کیا شہر بسایا اور مملکت کی بنیاد پڑی املاک کے تصور نے جہاں تمدن کی تاسیس کی وہاں قلب انسان میں استبداد اور تغلب کے تخریبی جذبات کی پرورش کی اور رفتہ رفتہ اس نے کمزوروں کو لونڈی غلام بناکر ذاتی املاک میں شامل کرلیا۔ ہم جان جائیں گے کہ کس طرح زرعی انقلاب کے بعد عورت اپنے مقام رفیع سے گر گئی۔ سلاطین کے وجود میں شاہیت اور مذہب کا اتحاد عمل میں آیا اور بادشاہ اپنے زمانے کا سب سے بڑا مذہبی پیشوا سمجھا جانے لگا۔ وہ اپنے آپ کو آسمان یا آفتاب کا بیٹا ظاہر کرتا جس کی اطاعت ہر شخص پر مذہبا فرض ہوگئی۔ اس طرح معبد اور تخت صدیوں تک ایک دوسرے کو سہارا دیتے رہے۔
با ایں ہمہ زرعی معاشرے میں شکار کے عہد کی بعض روایات عرصہ دراز تک باقی رہیں ان سب سے زیادہ خوفناک روایت یہ تھی کہ طاقتور کمزور کے جان و مال پر متصرف ہونے کا پیدائشی حق رکھتا ہے ان تمام برائیوں کے باوجود زرعی معاشرہ شکار کے عہد کے عائلی نظام پر فوقیت رکھتا تھا اس میں سائنس مذہب اور فنون لطیفہ کی تاسیس عمل میں سایئنس کے انکشافات اور ایجادات ہوئے جن کے طفیل انسان فطرت سے دہشت زدہ ہونے کی بجائے اس سے نبرد آزما ہونے کے منصوبے باندھنے لگا ۔سائنس نے اس کے اعتماد نفس کو تقویت دیی اور اسے قدیم اوہام و خرافات سے نجات دلائی جس سے وہ فطرت کے عناصر اجرام سماوی کی پوجا کرنے کی بجائے انکی تسخیر پر آمادہ ہوگیا۔ زرعی معاشرہ دس ہزار برس تک قائم رہا تا آنکہ انیسویں صدی میں صنعتی انقلاب برپا ہوا جس نے اسے جڑوں تک ہلا کر رکھ دیا۔
صنعتی انقلاب کو برپا ہوئے صرف ڈیڑھ سو برس گزرے ہیں اس کے اثرات زرعی معاشرے میں ہر کہیں نفوذ کرچکے ہیں اور آہستہ آہستہ اسکے نظام کو کھوکھلا کر چکے ہیں۔ صنعتی انقلاب کا آغاز انگلستان میں ہوا تھا چند ہی برسوں میں اس کا شیوع تمام مغربی ممالک میں ہوگیا جابجا کارخانے کھل گئے کلوں کی ایجاد نے صنعت و حرفت میں انقلاب برپا کردی۔ کارخانوں کے لیے کچے مواد کی ضرورت تھی اور مصنوعات کی فروخت کے لئے منڈیاں درکار تھیں۔ چنانچہ مغربی اقوام نے ایشیا اور افریقہ پر بزور شمشیر قبضہ کیا ملوکیت نے تجارت اور کاروبار کو فروغ دیا توفی نے ایک نئی قسم کی ملوکیت کو جنم دیا جسے تجارتی یا اقتصادی ملوکیت کہا جاسکتا ہے۔ نوآبادیوں کی تقسیم پر مغربی اقوام میں چپقلش کا آغاز ہوا جو عالمگیر جنگوں پر منتج ہوا۔ یہ جنگ بظاہر آزادی اور اخلاقی قدروں کے تحفظ کے لیے لڑی گئی تھی لیکن اسکے پس پردہ ملوکیت کا دیو پائے کوب تھا۔ صنعتی انقلاب کی روز افزوں اشاعت کے ساتھ ہر کہیں بڑے بڑے کارخانے قائم ہوگئے کلوں نے دستکاریوں کا خاتمہ کردیا تھا کاریگروں اور مزدوروں نے جوق در جوق کارخانوں کا رخ کیا ایک دن میں مزدور اور کاریگر اپنی اجرت سے کئی گناہ زیادہ قیمت کی جنس پیدا کرتا تھا جس سے کارخانہ داروں کو بے انتہا منافع ہونے لگا۔ کاریگر اور مزدور کی حالت بدستور زبوں ر ہی۔ وہ دن بھر کی محنت شاقہ سے صرف اتنا کما سکتا تھا جس سے اس کی ابتدائی ضروریات بمشکل پوری ہوتیں۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کے سرمایہ داروں اور مزدوروں میں کشمکش شروع ہوگئی۔ یہ کشمکش ابھی جاری ہے لیکن طوفان کے پیشرو تنکے بتا رہے ہیں کہ نتیجہ کیا ہوگا۔
صنعتی انقلاب کے برپا ہونے سے شاہی استبداد کا خاتمہ ہوچکا ہے ۔ جو دو چار بادشاہ باقی ہیں انکی حیثیت بھی شاہ شطرنج سے زیادہ کی نہیں۔جمہوریت کا ہرکہیں فروغ ہو رہا ہے عوام بیدار ہوگئے ہیں اور ان میں اپنے حقوق کی طلب اور پاسبانی کا بے پناہ جذبہ پیدا ہو گیا ہے۔ سایئنس کی ایجادات نے صنعتی انقلاب برپا کیا تھا صنعتی انقلاب نے سائنس کی ایجاد و انکشاف کی رفتار کو تیز کر دیا۔ چنانچہ گذشتہ پچاس ساٹھ برسوں میں سائنس کو جتنی ترقی نصیب ہوئی ہے اتنی پچاس صدیوں میں بھی ممکن نہیں تھی۔ سائنس کی روشنی نے جہالت کی اتھاہ تاریکیوں کو چاک کر دیا ہے اورانسان پر بجلی کی کڑک کے ساتھ یہ انکشاف ہوا ہے کہ سایئنس کی برکات سے وہ اپنے سیارے کو جنت میں تبدیل کرنے پر قادر ہے ۔صدیوں کے ستم رسیدہ اور مقہور عوام آزادی کا سانس لینے لگے ہیں ۔صنعتی انقلاب کا ایک نتیجہ یہ ہوا کہ عورت مرد کی غلامی سے آزاد ہو گئی ہے۔ آزادی ء نسواں نےکثرت ازدواج کا خاتمہ کردیا اور اب عورت مرد کی تفریح طبع کا سامان نہیں رہی بلکہ اسکی برابر کی شریک حیات ہے۔
صنعتی نقلاب کے بعد علوم و فنون کی اشاعت کے بے شمار امکانات پیدا ہوگئے تحصیل علم پر کسی خاص طبقے کا اجارہ نہیں رہا عوام بھی چشمہ علم سے فیضیاب ہونے لگے ہیں۔ جس طرح زرعی انقلاب نے شکار کے عہد کی قدروں کی تنسیخ کی تھی اسی طرح صنعتی انقلاب کے شیوع سے زرعی معاشرے کی قدریں بدلتی جارہی ہیں آئندہ صدیوں میں دنیا بھر کے ممالک میں صنعتی معاشرہ قائم ہو جائے گا تو یہ لازما اپنے لئے نئی نئی سیاسی اقتصادی علمی اور فنی قدروں کی بھی تخلیق کرے گا ۔معاشرے کی خارجی تبدیلیوں کو تو صاف صاف دیکھا جا سکتا ہے۔لیکن داخلی تبدیلیاں نا محسوس طور پر رونما ہوتی ہیں۔ مثلا عہد بربریت میں جب نظام معاشرہ مادری تھا تو عورت قبیلے کا محور و مرکز تھی۔ بیٹے اس کے نام سے پہچانے جاتے تھے اور مرد کی حیثیت محض فروعی اور ضمنی تھی۔ زرعیانقلاب کے بعد پدری نظام معاشرہ قائم ہوا تو مرد کو سیادت حاصل ہوگی اور عورت بھیڑ بکریوں کی طرح ذاتی املاک بن کر رہ گئی۔ صنعتی معاشرے کے قیام سے یہ صورتحال بدل جائے گی ہوا مقام حاصل ہو جائے گا۔تاریخ کے اس مرحلے پر قیاس آرائی سے کام لینا قبل ازوقت ہے۔لیکن اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ نئے معاشرے میں زرعی معاشرے کی اخلاقی اور عمرانی قدریں باقی و برقرار نہیں رہ سکیں گی۔
تصریحات مذکورہ سے اس حقیقت کی طرف توجہ دلانا مقصود تھا کہ تاریخ نو انسان کی حرکت دولابی ۔ نہیں تاریخی عمل ایک دائرے میں چکر نہیں لگا رہا بلکہ خط مستقیم پر ارتقاءپذیر ہے ۔انسان کا دوروحشت اس زمانے سے یقینا بہتر ہے جب اس کے آباؤ اجداد درختوں پر بسیرا کرتے تھے اور بربریت کا دور وحشت کے زمانے سے بہتر ثابت ہوا کہاس میں آگ دریافت کرلی گئی تھی اور دھاتوں کا استعمال رواآج پا گیا تھا۔ زرعی انقلاب کے بعد جو معاشرہ صورت پذیر ہوا وہ ہر لحاظ سے دور بربریت سے افضل و برتر تھا اسی طرح صنعتی انقلاب کے بعد انسان پورے دماغ سے ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ ترقی کے اس کٹھن سفر میں بیشک خطرات اور ناکامیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے لیکن انسان بہرصورت اپنی روشن منزل کی طرف برابر قدم بڑھا رہاا ہے۔
زرعی نظام معاشرہ کے بعد صنعتی معاشرے کا قیام اتنا ہی لازمی ہے جتنا کے دور وحشت کے بعد دور بربریت اور دور بربریت کے بعد زرعی معاشرے کا قیام لازم تھا۔ تہذیبیں ملتی رہتی ہیں۔ تمدن دم توڑتے رہتے ہیں لیکن ان کی ترقی پرور اور حیات افروز روایات ہمیشہ زندہ رہتی ہیں۔ عمل ارتقاء کی مزاحمت کی جا سکتی ہے اسکی رفتار کو سست کیا جاسکتا ہے لیکن اسے کسی خاص مرحلے پر روک دینا تو کسی کے بس کی بات نہیں۔ زمانہ عہد بہ عہد آگے چلتا جاتا ہے، کبھی کبھار ملتے جلتے واقعات رونما ہو جاتے ہیں لیکن تاریخ اپنے آپ کو ہر گز نہیں دہراتی۔